محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! اللہ پاک کے فضل و کرم سے آپ خیریت سے ہوں گے اللہ تعالیٰ سے آپ کی صحت یابی کیلئے دعاگو ہوں۔ میں عبقری سے کیسے منسلک ہوا؟ یہ پہلے پڑھ لیجئے‘ میری اہلیہ یہ رسالہ ہر ماہ منگواکر پڑھتی ہے‘ میں بس سرسری نظر سے پڑھتا تھا‘ میں نے لیکچرشپ کا امتحان دیا تھا تحریری امتحان میں تو میں پاس ہوگیا تب میری بیوی نے مجھے آپ کے نام خط لکھ کر دیا۔ آپ نے مجھے دو انمول خزانہ پڑھنے کی ہدایت کی‘ میں نے وہ پڑھا‘ مگر آپ کے علاوہ بھی کسی نے کچھ پڑھنے کو دیا‘ کسی نے کچھ پڑھنے کو دیا‘ میں سب پڑھتا رہا‘ مطلب یہ کہ کوئی بھی عمل یکسوئی کے ساتھ نہیں کرسکا۔ انٹرویو ہوا‘ 23 منٹ تک انٹرویو دیا مگر میں مطمئن نہیں تھا اور ہوا بھی وہی جس کا ڈر تھا میں پاس نہ ہوسکا۔ اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں‘ حضرت! میں مکافات عمل کا شکار ہوں‘ ایک بددعا نے میرا کچھ نہ چھوڑا اور بددعا بھی مجھے بغیر کسی جرم کے ملی‘ واقعہ کچھ یوں ہے کہ یہ سن 1999ء کی بات ہے‘ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو باہر گلی میں جاکر کھیلنے پر تھپڑ مارا وہ روتا ہوا میرے والد کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے تھپڑ مارنے کی کوشش کی تو میں بھاگ گیا مگر انہوں نے غصے میں یہ کہہ دیا ’’تم ایک ایک روپے کیلئے ترسو گے‘‘ نامعلوم میرے والدصاحب کے منہ سے یہ الفاظ کیوں نکلے کیونکہ اس وقت ایسی کوئی بات بھی نہ تھی۔ محترم حضرت حکیم صاحب! اس بات کو آج 16 سال ہوگئے ہیں آج تک کسی بھی لمحے یہ ’’بددعا‘‘ یاد آتی ہے تو آنسو نکلتے ہیں۔ اس بات کا اثر اس دن سے لے کر آج تک میری زندگی پر ہے۔ کئی بار والد محترم کی قبر پر بھی گیا اور معافی مانگی‘ ان کی مغفرت کی دعا کی اور اس بددعا کے اثرات ختم کروانے کی دعا مانگی۔
میں اپنے سب بہن بھائیوں سے بڑا ہوں‘ کسی بھائی بہن کا حق نہیں کھایا‘ ان کو والد کی وفات کے بعد اپنی چیزیں چھوڑ کر بھی ان کو دیتا تھا اور آج تک میں نے اس کوشش کو نہیں چھوڑا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی میں کیا کروں؟ اس بددعا کے اثرات جو میں نے اپنی زندگی میں محسوس کیے وہ یہ کہ اس وقت بھی میں 16 لاکھ کا مقروض ہوں‘ میرے قرض دار ہونے کا میری بیوی تک کو علم نہیں‘ کیا کروں؟ پریشان ہوں؟ واقعی میں پیسے پیسے کا محتاج ہوں‘ روپے کو ترس رہا ہوں۔
میں مقروض کیسے ہوا؟ نہ میں نشہ کرتا ہوں‘ نہ جوأ کھیلتا ہوں‘ پنج وقت نماز کبھی نہ چھوڑی‘ کسی کا حق بھی کبھی نہیں کھایا‘ کسی غریب کی مدد کرنے سے کبھی گریز بھی نہیں کیا۔ بس یہ میرے والد کی بددعا کا نتیجہ ہے‘ ایک غیبی نظام ہے جو میری جان نہیں چھوڑ رہا‘ میری اہلیہ اکثر مجھ سے سوال پوچھتی ہے کہ تنخواہ کہاں جاتی ہے‘ کیا کرتے ہو‘ کب تک چھپاؤں‘ کب تک جھوٹ بولوں‘ یہ قرض کیسے ادا ہوگا؟ میرے ایک دوست نے کہا کہ میرے بھائی کو آرڈر لے کر دو میں نے کہا ٹھیک ہے میں اس کے کاروبار میں پڑگیا‘ اس کا کام ہوگیا‘ جب میں نے مال اٹھوایا تو آگے پارٹی نے آرڈر لینے سے انکار کردیا‘ سارے پیسے مینوفیکچر کو مجھے دینے پڑے کیونکہ میں نے کنٹریکٹ پر بخوشی دستخط کیے تھے۔اس سے پہلے بھی نہ چاہتے ہوئے پیسہ میرے پاس آیا اور چھوٹی سی غلطی ہوئی اور سب ختم ہوگیا۔ میری اہلیہ بھی ڈاکٹر ہے‘ اس کی آمدن سے گھر چل رہا ہے اور میری تمام تنخواہ قرض میں جارہی ہے‘ جب بھی اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں صرف وہ بددعا نظر آتی ہے کہ جس کی وجہ سے مجھے یہ سزا مل رہی ہے۔بس میں پریشان ہوں‘ لوگ مجھ پر اعتبار کرتے ہیں‘ اپنی امانتیں میرے پاس رکھواتے ہیں‘ کسی کا کچھ نہیں کھاتا بلکہ اپنی طرف سے دے آتا ہوں‘ کسی کا حق نہیں کھایا مگر پھر بھی میں پیسے پیسے کو ترس رہا ہوں‘ سکون نام کی چیز نہیں‘ کوئی دن خالی نہیں گیا جب میں نے اپنے والد کی مغفرت کیلئے دعا نہ کی ہو‘ ان سے معافی نہ مانگی ہو۔ اپنے دو بچوں کو دیکھتا ہوں تو روتا ہوں کہ ان کا حق کھارہا ہوں‘ قرض دار بن گیا ہوں۔ بس اور لکھنے کی ہمت نہیں‘ بس مجھے جو دکھ تھا وہ میں نے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ یہ راز 16 سال سے میرے سینے میں دفن تھا‘ بس یہی میری زندگی کی کہانی ہے۔ میرا یہ پیغام عبقری قارئین تک بھی پہنچا دیجئے کہ خدارا اپنے بچوں کو بددعائیں نہ دیں‘ آپ کے منہ سے نکلا ایک لفظ آپ کے بچوں کی نسلیں تباہ و برباد کرکے رکھ دے گا۔ بچپن میں انسان سے غلطیاں ہوجاتی ہیں انہیں درگزر کرکے بچوں کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اگر کسی نے کبھی انجانے میں اپنے بچے کو بددعا دی ہے تو اس کے حق میں دعائیں شروع کردیں میں نہیں چاہتا کوئی میری طرح در در کے دھکے کھائے۔
ایک مرتبہ آپ درس کیلئے ہمارے شہر تشریف لائے‘ میری اہلیہ کا اصرار تھا کہ ہم وہاں جاکر درس سنیں گے‘ ہم اس درس میں شریک ہوئے‘ اس کے بعد رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو میری اہلیہ نے کہا کہ آپ رمضان شریف تسبیح خانہ لاہور میں جاکر گزاریں‘ میں نے سستی کا مظاہرہ کیا‘ مگر اچانک بارہ رمضان المبارک کو بس ارادہ کیا اور اگلے دن تسبیح خانہ میں موجود تھا۔ میں جب تسبیح خانہ میں پہنچا تو خود میں بہت تبدیلی محسوس کی‘ جو رمضان میں نے تسبیح خانہ میں گزارا ایسا رمضان میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ آپ کا ہر درس سنا‘ گڑگڑا کر دعائیں مانگیں‘ غلاف کعبہ اور غلاف روضہ مبارک ﷺ کا دیدار نصیب ہوا۔ لیلۃ الجائزہ کا درس سنا۔ آپ نے دو انمول خزانہ پڑھنے کی خصوصی اجازت دی۔ الحمدللہ بہت سکون ملا۔(پوشیدہ)
عبقری سے معلوم ہواجسے منافع سمجھتی تھی وہ سود ہے
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم!میں نے جب سے ہوش سنبھالا دکھ ہی دکھ دیکھے‘ اپنے والدین کو پریشان دیکھا‘ گھر میں کسی کو کسی کے ساتھ کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ میرا دل بہت پریشان رہتا تھا ایک دن اپنی پسندیدہ ڈائجسٹ لینے گئی تو سٹال پر عبقری لگا دیکھا‘ ٹائٹل دیکھا تو خرید لیا‘ یہ فروری 2011ء تھا‘ بس اس دن سے عبقری سے ایسی دوستی لگی کہ آج تک یہ دوستی ہر ماہ مزید گہری ہوجاتی ہے۔ عبقری پڑھ پڑھ کر پتہ چلا کہ ہمارا جو پیسہ بینکوں میں پڑا ہے اور اس سے ہمیں جو پیسہ آرہا ہے جسے ہم منافع کہتےہیں اصل میں وہ ’’سود‘‘ ہے‘ تب ہی مجھے اپنے تمام مسائل کی جڑ بھی نظر آگئی‘ پھر ہم نے مارچ 2013ء میں یہ سودی نظام بند کروا دیا۔ اللہ کرے ہمارے معاشرے سے بھی یہ سود کا نظام بند ہوجائے اور معاشرہ بھی پرسکون ہوجائے۔ اس سود نے ہمارے گھر کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے‘ ہم لاکھ کوشش کرتے ہمیں پتہ نہ چلتا کہ ہمارے گھر میں یہ نحوست کیسی ہے‘ کیوں بلاوجہ جھگڑے ہوتے ہیں‘ کاروبار میں برکت نہ تھی‘ گھر میں برکت نہ تھی‘ مگر اب مجھے معلوم ہے ان شاء اللہ ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے۔(پوشیدہ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں