والدین کی خدمت اور حج کرنے والوںکو کیا صلہ ملتاہے ؟
اللہ والو! اکثر کتب میں لکھا ہے کہ ماں باپ کی خدمت کرنے والا اور حج کرنے والا یہ دو لوگ ایسے ہیں جنہیںاس کا صلہ دنیا میں بھی ملتاہے اورپھر آخرت میں بھی ملتاہے۔ماں باپ کی خدمت کرنے والا اور ماں باپ کی اطاعت کرنے والا،اور ماں باپ کی فرمانبرداری کرنے والا ،اور ماں باپ کے سامنے جھک جانے والا،اپنی مرضی کو مٹا دینے والا ،اپنی حیثیت کو ختم کرنے والا ۔اس کو پہلا صلہ دنیا میں یہ ملتاہے کہ اللہ جل شانہُ اس کی دعاؤں میں برکت اور قبولیت عطا فرماتے ہیں۔اس کے رزق میں برکت دیتے ہیں ۔اس کی عمر بڑھادیتے ہیںاُسے محبت و عافیت دیتے ہیں۔ دنیا میں اسے قابل رشک بنا دیتے ہیں۔ما ں باپ کی خدمت کرنے میں پہلا نفع دنیا میں اس طرح ملتاہے۔اس لیے اپنی سوچ سے باہر نکلیں پھر یہ چیزیں حاصل ہونگی،لیکن آپ جب اپنی سوچ میں رہیں گے تو آپ پھر صرف اپنے وجود کو ہی لے کر چلیں گے۔اپنے تن کو ،اپنے من کو، اپنی خوشیوں کو ،اپنی چاہتوں کو ،اپنی لذتوں کو۔۔۔بس پھر یہی مطلوب ہوگا۔جب اس دائرے سے باہر نکلیں گے پھر سوچیں گے سارے عالم کیلئے ساری امت کیلئے، امت کے ہر فرد کیلئے۔اس سے ہی عالم میں امن آئے گا۔ اللہ والو! سکون آئے گا۔
یہ نفرتیں کیوں ہیں:آج سارے عالم میں اگر ایک چیز کی کمی ہے تو وہ امن کی کمی ہے،وہ سکون کی کمی ہے ،پریشانی ہے مشکلات ہیں ،قوموں کے نام پر ،زبان کے نام پر،نسلوں کے نام پر،ملکوں کے نام پر ،صوبوں کے نام پر نفرتیں ہیں۔ ساری نفرتیں مٹانے کا ایک ہی حل ہے ۔وہ ہے کہ اپنی ذات کو نہیں عالم کو سامنے رکھ کے سوچنا ،پورے عالم کیلئے رونا،مانگنا،اورپورے عالم کیلئے ماتھا ٹیکنا ،پھر دیکھو تو سہی اللہ کیسے دیتاہے ۔ جہاں عالم میں سکون آجائے گاوہاں سب سے پہلے ہمارے تن میں سکون ،ہمارے من میں سکون، ہماری چاہتوں میں سکون اور ہمارے گھروںمیں سکون آئے گا،پھر یہ سکون پھیلے گا۔ پھر جتنا اس سکون کو بڑھانا چاہتے ہیں اتنا زیادہ اللہ سےمانگنا ہوگا ،اتنا رونا بڑھانا ہوگا پھر سکون بڑھتا چلا جائے گا۔
مستجاب الدعوات ہونے کا گُر: اگر آپ چاہتے ہیںکہ آپ کی دعائیں قبول ہوں اور جلدی قبول ہوں ۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا تعلق اللہ سے بڑھے اور جلد ی بڑھے، اور آپ چاہتے ہیںکہ مشکلیں حل ہوں اور جلدی حل ہوں، پریشانیاں دور ہوں اور جلدی دورہوں،مسائل حل ہوں اور جلدی حل ہوں ،رزق بڑھے اور زیادہ بڑھے اور جلدی بڑھے،بیماری جائے، جتنی بھی ہے ساری جائے اور جلدی جائے۔آپ کچھ عرصے کیلئے اپنے لیے مانگنا چھوڑ دیں دوسروں کیلئے مانگنا شروع کردیں ،پھر مانگنا خلوص سے ہووقتی طور پر نہ ہو‘، کیونکہ وہ تو دیکھ رہا ہے دلوں کی دنیا کو۔
بابا کریم بخش اور میرا کلاس فیلو:کالج میں ہمارا ایک کلاس فیلوتھا۔ہم ایک اللہ والے بابا کریم بخش صاحب کے پاس جاتے تھے ۔بڑے اللہ والے تھے۔ تو وہ کہتا کہ کہا ں لے جاتاہے ؟میں نے کہا : چل تو سہی بابا جی سے دعا کروالیں۔بابا جی دل سے دعا کرتے اور دعا کرواتے ہوئے اس قدرروتے کہ روتے روتے بابا جی کی ہچکی بندھ جاتی، پھر دھاڑیں مارمار کرروتے اور ادھر ہمارایہ دوست منہ پہ ہاتھ رکھ کہ زور زور سے ہنستاتھا،وہ اکثر ایسے کرتاتھا۔ میں اس سے کہتا اللہ والے ایسا کیوں کرتاہے؟وہ درویش آدمی ہیں، دعا مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ملنے کا وقت ہوتاہے اور کچھ درویش ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں آتاہے کہ اللہ کو قسم دے دیں تو اللہ ان کی قسم پوری کردیتاہے ۔ چند باردوست کو لے گیا پھر میں نے اس کولے جانا چھوڑدیا۔ میں نے سوچاکہ کہیں بیچارے کا نقصان نہ ہوجائے۔
اللہ والوںکی تحقیرگرفت کا باعث بن جایا کرتی ہے ۔ تھوڑا عرصہ پہلے مجھ سے کہنے لگا: ’’وہ بابا جی یاد آتے ہیں‘‘ میں نے کہا:’’ پھرہنسنا چاہتا ہے ؟‘‘کہنے لگا’’ نہیں رونا چاہتا ہوں‘‘
مجھے کہنے لگا :اب میرے رونے کے دن ہیں‘ تیرے ہنسنے کے دن ہیں۔ میں نے پوچھا: وہ کیسے ؟کہنے لگا:’’ اس وقت باباجی کے ساتھ توُ بھی روتا تھا بابا جی بھی روتے تھے ،میں ہنستاتھا ،مجھے سمجھ ہی نہیں تھی، اگرسمجھ تھی تو بس ایک جوانی اور مال و دولت جیسی چیزوں کا خمار تھا اب احساس ہوا کہ وہ دعائیں جس کے ساتھ ہوں تو بڑا کام بنتاہے۔دعائیں بھی تعاقب کرتی ہیں ،اب احساس ہوا کہ میرے ساتھ دعائیں نہیں ہیں۔ جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے، پریشانی آتی ہے، میری مصیبت میری پریشانی مجھے احساس دلاتی ہے کہ میرے ساتھ کوئی نسبت نہیں۔میرے لیے وہ مصیبت پریشانی،وہ مشکل وبال جان بن جاتی ہے‘پریشانی بڑھ جاتی ہے اور میں بس بدحال ہوجاتاہوں ۔کہنے لگا ’’ایک دفعہ ایسے ہی پریشان بیٹھاتھا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اندرسے ایک آواز اُٹھی یہ میری ہارٹ پرائم جسٹس ہے ۔ایک انگریز نے کہا تھا ہارٹ (دل) ایک پرائم جسٹس ہے یہ ایک پل میں عدل وانصاف کے فیصلے کرکے ترازوکو بتادیتاہے ۔اندر سے آواز اُٹھی کہ تیرے ساتھ کسی فقیر کی دعاؤں کا سرمایہ نہیں ہے، تو خالی ہے، اگر چہ تیری جیبیں بھری ہوئی ہیں،تیرے ہاتھ میں قیمتی گھڑی ہے، تیرے پاس قیمتی چیزیں ہیں لیکن تیرے پاس دعاؤںکا سرمایہ نہیں ہے اوروہ عدل وانصاف جوتیرے پاس نہیں ہے‘‘ کہنے لگے کہ ’’یہ بات پہلے سمجھ نہیں آتی تھی مجھے‘‘ اب بھی آپ میں سے شائد کسی کو سمجھ آجائے ۔کہنے لگے:’’اب حقیقت عیاں ہوئی کہ دعا یا کسی اللہ والے کا ساتھ یا کسی اللہ والے کی غلامی، اُس سے روحانی تعلق اور اس پر سوفیصد اعتماد ہی دعاؤں کے ثمرات دیتاہے۔‘‘مجھے اب اکثر وہ کہتے ہیں کہ:’’ کوئی بابا کریم بخش تلاش کردے ۔‘‘(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں