مختصر سی جگہ میں نہایت خوبصورت باغیچہ لگارکھا تھا تقریباً دس فٹ لمبا اور چودہ فٹ چوڑا ہوگا۔ اس میں انہوں نے سدا بہار قسم کے پودے لگارکھے تھے۔ وہ اپنے پھولوں کی شگفتگی کو دیکھ کر ہر قسم کے وسوسوں‘ شکوک و شبہات اور مایوسیوں سے دن بھر کیلئے محفوظ ہوجاتے تھے۔
ایک صاحب دن رات اٹھتے بیٹھتے شطرنج کی باتیں کیا کرتے تھے۔ اتفاق سے انہیں ایک باغ دیکھنے کی دعوت دی گئی۔ باغ کے مالی نے انہیں دو تین گلاب کے پودوں کو خریدنے کی ترغیب دی۔ کچھ ہی دنوں میں وہ گلاب کی خوبصورتی سے اتنے مسحور ہوگئے کہ انہوں نے تقریباً پچاس کیاریاں لگا ڈالیں۔ لوگوں نے جب ان سے پوچھا کہ آپ نے شطرنج کیوں چھوڑ دی تو کہنے لگے کہ دن بھر شطرنج کھیلنے کے بعد صرف یادیں باقی رہ جاتی تھیں اور وہ یادیں بھی کچھ اچھی نہیں ہوتی تھیں۔ اس کے برعکس اپنے گلابوں کی خدمت کرنے کے بعد مجھے اپنے چاروں طرف حسن ہی حسن نظر آتا ہے اور اس سے میری آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو مسرت و شادمانی حاصل ہوتی ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ میری صحت بھی پہلے سے بہتر ہوگئی ہے۔ اسی طرح فوج کے ایک پنشن یافتہ میجر صاحب ہیں جنہوں نے پودوں کا کاروبار کررکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں فوج سے اس بنا پر رخصت کردیا گیا تھا کہ ان کا دل کچھ کمزور ہوگیا تھا معالج نے ان سے کہا تھا کہ اب وہ صرف چند ماہ زندہ رہ سکیں گے اور اگر کہیں محنت و مشقت کی تو یہ ان کیلئے سخت مضر ہوگا بلکہ مہلک ہوگا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ معالج کی تنبیہ کے باوجود آپ کو پودوں کا کاروبار کرتے ہوئے ڈر نہیں لگا؟ تو انہوں نے جواب دیا: میں نے معالج کی بات پر کچھ دنوں تک غور کیا۔ پھر میں نے طے کیا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے تو بہتر یہ ہوگا کہ مرہی جائوں۔ مجھے پودے ہمیشہ سے اچھے معلوم ہوتے تھے‘ لہٰذا میں نے ایک درجن مختلف اقسام کے پودے خرید ڈالے اور انہیں فروخت کرنے کیلئے اشتہار دے دیا۔ دوست اور اجنبی سب ہی خریدنے آگئے اور میں نے وہ پودے بیچ کر کچھ اور خرید لئے۔ میں روپیہ کمانے کی فکر میں قطعی نہ تھا بلکہ یہ چاہتا تھا کہ خود مصروف رہوں اور دوسروں کے ماحول کو خوش نما بنانے میں ان کی مدد کروں‘ چنانچہ میں نے مناظر قدرت کا مشاہدہ کیا اور لوگوں کو پودے سجانے کامشورہ دینا شروع کردیا۔ واضح رہے کہ معالج صاحب نے جو تنبیہ کی تھی اس کو بیس برس ہوچکے ہیں۔
معالج صاحبان اب لوگوں کو باغ بانی کامشورہ دینے لگے ہیں۔ ایک معالج نے ایک خاتون سے کہاکہ اگر آپ کے پاس باغ نہیں ہے تو کسی میدان میں چلی جائیے اور وہاں ایک گڑھا کھود لیجئے پھر اسے مٹی سے بھر دیجئے بعد میں جب یہ خاتون ہسپتال میں تھیں تو انہوں نے اپنے کسی دوست سے کہاکہ مجھے ایک گملے میں مٹی لادوتاکہ میں اس میں اپنا ہاتھ ڈال لوں۔ ایک اور خاتون نے شادی نہیں کی تھی بات یہ تھی کہ وہ ایک اعصابی مرض میں مبتلا تھیں۔ لہٰذا کام نہیں کرسکتی تھیں‘ اتفاق سے کسی نے انہیں افریقہ کا بنفشہ دے دیا بس پھر کیا تھا انہوں نے اس سے پچاس اقسام کے پودے پیدا کرلئے چنانچہ ان کے دوست احباب ان سے وہ خریدنے لگے۔ اپنے پودوں سے لوگوں کو خوش دیکھ کر اس خاتون کو اتنی مسرت حاصل ہوئی کہ انہوں نے دیگر اقسام کے پودے خرید لئے‘ چنانچہ اور لوگ انہیں خریدنے آنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس خاتون کی اعصابی بیماری دور ہوگئی اور زندگی کے بارے میں اس کا رویہ نہایت خوشگوار ہوگیا۔ مٹی اور پودوں میں کام کرنے کی وجہ سے اس کے اعصاب میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ ایک صاحب نے بتایا کہ جب وہ اپنے باغ میں چہل قدمی کرتے ہیں تو طرح طرح کے خیالات ان کے دل میں آتے رہتے ہیں‘ چنانچہ وہ اپنی تمام تقریریں اکثر باغ کی چہل قدمی کے دوران تیار کرلیتے ہیں اس کے علاوہ وہ اپنے دوستوں کی پریشانیوں کا حل بھی اسی دوران میں تلاش کرلیتے ہیں۔ باغ کیلئے بہت زیادہ جگہ کی ضرورت نہیں ایک صاحب نے نہایت مختصر سی جگہ میں نہایت خوبصورت باغیچہ لگارکھا تھا تقریباً دس فٹ لمبا اور چودہ فٹ چوڑا ہوگا۔ اس میں انہوں نے سدا بہار قسم کے پودے لگارکھے تھے۔ وہ اپنے پھولوں کی شگفتگی کو دیکھ کر ہر قسم کے وسوسوں‘ شکوک و شبہات اور مایوسیوں سے دن بھر کیلئے محفوظ ہوجاتے تھے۔ بہت سے لوگ فلیٹوں میں رہتے ہیں وہاں بھی گملوں کے ذریعے سے چھوٹے چھوٹے باغیچے لگائے جاسکتے ہیں‘ ان میں ٹماٹر‘ ککڑی‘ پیاز اور دیگر چیزیں لگاسکتے ہیں ان باغیچوں کی بدولت بعض لوگ بے حد خوش رہتے ہیں۔ لہٰذا صحت و شادمانی حاصل کرنے کیلئے آپ بھی باغ بانی کرسکتے ہیں۔
ورزش اور صحت :ستر کے عشرے کے آخر تک انسان کی تندرستی کی تعریف صرف اس کی اس صلاحیت تک محدود تھی کہ وہ کتنی آکسیجن استعمال کرتا ہے‘ اسے اس شخص کی ’’ایروبک کنڈیشن‘‘ کہا جاتا ہے‘ اس تعریف میں جسمانی طاقت کا کوئی ذکر نہ تھا۔ 1978ء تک یہ کہا جاتا تھا کہ ایک عام فرد کو مطلوبہ قوت برداشت کیلئے ہر ہفتے تین سے پانچ دن 15 سے 60 منٹ تک ورزش کرنی چاہئے۔ اس دوران وقتاً فوقتاً رفتار قلب (دل کی دھڑکن کی شرح) بھی معلوم کرتے رہنا چاہئے۔ ورزش کے دوران میں اس بات کا بھی خاص خیال رکھنا چاہئے کہ دل کی دھڑکن کی یہ رفتار کے 60 سے 90 فیصد کے برابر ہوتی ہے لیکن اب امریکن کالج اوف سپورٹس مڈیسن نے نئی تحقیقات کے بعد ورزش کے ہفتہ وار پروگرام کیلئے چند نئے اصول وضح کئے ہیں‘ جو یہ ہیں:
٭بالغ افراد کو اپنے ہفتہ وار معمول (شیڈول) میں دوبار طاقت برآری (Strength Training) کی ورزشیں شامل کرنی چاہئیں۔ ٭ایروبک ورزش ہفتے میں تین سے پانچ روز کرنی چاہئے۔ تاہم ورزش کی شدت جانچنے کے رہنما اصول اب بدل چکے ہیں۔ ورزش کی شدت کو جانچنے کیلئے دو طریقے رائج ہیں: ان میں پہلا جانا پہچانا’’ رفتار قلب کا طریقہ‘‘ ہے‘ جس میں ورزش کے دوران نبض کی رفتار دیکھی جاتی ہے۔ اب بھی ورزش کرنے والے کو اپنے قلب کی زیادہ سے زیادہ رفتار کے 60 سے 90 فیصد پر کام کرنا چاہئے۔ ورزش کی شدت ناپنے کا دوسرا طریقہ وہ ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کتنی توجہ کے ساتھ آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ آپ ورزش کررہے ہیں ایروبک ورزش لگاتار کم از کم 20 منٹ تک کرنی چاہئے‘ بیس منٹ کی مسلسل ورزش ایک عام آدمی کی تندرستی کو برقرار رکھنے کیلئے بہت مناسب ہے۔ کچھ افراد اس میں پانچ منٹ کا مزید اضافہ بھی کرلیتے ہیں جو یقیناً صحت پر نمایاں مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایروبک ورزشوں کی فہرست کو سیڑھیاں چڑھنے اور مخصوص ایروبک رقص تک وسیع کردیا گیا ہے۔ نئی تحقیقات کے مطابق طاقت برآری کی ورزشوں کو بھی اہمیت دی گئی ہے کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ طاقت براری کی ورزش کرنے سے عضلات اور ہڈیوں کی صحت قائم رہتی ہے۔ ایک ماہر کے خیال میں ہم اپنے عضلات اور ہڈیوں کی صحت کو عمر بھر برقرار رکھ سکتے ہیں۔ تاہم معاشرے میں رہنے کیلئے یہ ضرورت محسوس ہوتا ہے کہ جہاں تک ہوسکے لوگ اپنی آخری عمر تک ایک متحرک اور خود مختار زندگی گزاریں جس میں ان کو کسی پر بوجھ نہ بننا پڑے اور انہیں کسی سہارے کی ضرورت نہ ہو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں