Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

حلال اور حرام کا بچوں کی سیرت وکردار پر اثر

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2016ء

خالق کائنات نے حضرت انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، ان نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت اولاد ہے، یہی وجہ ہے کہ خالق کائنات نے اولاد کو بطور نعمت ذکر کرتے ہوئے کہیں پر فرمایا:کہ مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی نعمت ہیں۔’’ ہم نے تمہاری مدد کی مال اور بیٹوں کے ذریعے‘‘۔
اے میرے رب مجھے نیک اولاد عطا فرما:اولاد صرف جنت کے پھول اور گھر کی رونق ہی نہیں بلکہ صدقہ جاریہ اور باعث راحت و سکون بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام قرآن مجید میں جابجا اللہ پاک سے اولاد صالح طلب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں’’اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا فرمادے‘‘ کہیں پر حضرت زکریا علیہ السلام یہ فرماتے ہیں: تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا کردے جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو۔
جس اولاد کو اللہ پاک نعمت اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں اور جس کو نور چشم، لخت، جگر، رونق خانہ اور بڑھاپے کا سہارا کہا جاتا ہے، اگر اس کی صحیح تربیت نہ ہوئی تو یہ والدین کی زندگی اجیرن بنادیتی ہے اور ان کے دن کا سکون اور رات کی نیند حرام کردیتی ہے، بعض اوقات والدین تنگ آکر یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ کاش تونے جنم ہی نہ لیا ہوتا لیکن بددعا کرنے سے پہلے والدین یہ نہیں سوچتے کہ اولاد کا بگاڑ ان کی اپنی ہی غلط تربیت کا نتیجہ ہے اگر ان کی تربیت صحیح کی ہوتی تو آج یہ روز بدنہ دیکھنا پڑتا۔
اولاد کے حقوق:جیسے والدین کی محبتیں، شفقتیں اور احسانات بے شمار ہیں تو ان کے حقوق بھی بے شمار ہیں۔ اولاد ان کے حقوق تب ادا کرے گی جب وہ پہلے خود اولاد کے حقوق ادا کریں گے۔ والد پر اولاد کا پہلا حق یہ ہے کہ ان کیلئے اچھی ماں تلاش کرے اور ماں پر لازم ہے کہ وہ ایسے شوہر سے نکاح کرے جو اس کے بچوں کا اچھا باپ ثابت ہوسکے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ بچے کے کردار اور فکر سازی میں سب سے پہلے جس کا اثر ہوتا ہے وہ اس بچہ کی ماں ہے، اگر ماں نیک ہے تو بچے کی فطرت سلیمہ بڑی آسانی سے ترقی کرکے مراتب کو حاصل کرلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے نیک اور دین دار خاتون کا انتخاب کرنے کی نصیحت فرمائی ہے تاکہ بچوں کی تربیت اچھے طریقے سے کرسکے اور بچے کے دل میں اسلام سے وابستگی اور اچھے اخلاق کے بیج بوسکے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’عورتوں سے چار چیزوں کی بنیاد پر شادی کی جاتی ہے۔ (1) مال کی وجہ سے (2) حسن و جمال کی وجہ سے (3) نسب کی وجہ سے (4)دینداری کی وجہ سے، تو دیندار عورت کا انتخاب کرنے میں کامیابی حاصل کر۔‘‘ (مشکوٰۃ،ص: 267)۔نبی علیہ الصلوٰۃو السلام کے اس فرمان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ظاہری حسن و جمال، مال و متاع اور نسب دیکھ کر عورت کا انتخاب نہیں کرنا چاہئے کہ یہ چیزیں عارضی ہیں، بہرحال ختم ہونے والی ہیں، اگر ان ظاہری چیزوں کو ترجیح دے کر ایک بے دین یا برے اخلاق والی عورت کا انتخاب کرلیا تو جو اولاد پیدا ہوگی اس پر اس کا اثر ہوگا اور وہ بھی بے دین اور حب دنیا سے معمور ہوگی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ باوجود کوشش کے بھی اولاد کو باصلاحیت اور کام کا آدمی نہ بناسکے گا۔بچے کا نام کیسا رکھیں؟: اولاد کا دوسرا حق یہ ہے کہ ان کیلئے اچھا نام تجویز کیا جائے وجہ اس کی یہ ہے کہ نام انسان کی شخصیت پر دلالت کرتا ہے اور نام ہی سے انسان کا تعارف ہوتا ہے، اس لئے ایسا نام رکھنا چاہئے جو اپنے مسمیٰ کے مسلمان ہونے، اللہ کا بندہ ہونے اور حضور ﷺ کے غلام ہونے پر دلالت کرے، ایسا مبہم نام نہ رکھنا چاہئے کہ پتا ہی نہ چل سکے کہ یہ بچہ مسلم ہے یا غیر مسلم اور ایسا نام بھی نہ رکھنا چاہئے جو بدفالی پر دلالت کرتا ہو، اس لئے کہ رسول اللہﷺ بدفالی والے ناموں کو تبدیل فرمادیا کرتے تھے۔ نام رکھنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتو ساتویں دن اس کا نام رکھو اور اسی دن اس کے سر کے بال منڈوائو اور عقیقہ کرو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میری بیوی کے لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی کریم ﷺ کے خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور ایک کھجور چباکر اپنے لعاب مبارک کو اس بچہ کے منہ میں ڈالا اور اس کیلئے خیروبرکت کی دعا فرمائی اور میرے حوالے کردیا۔ اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بچوں کے نام حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صلحاء امت کے نام پر رکھیں۔محبت‘ شفقت اور ایثار کاسلوک: اولاد کا تیسرا حق یہ ہے کہ اس کے ساتھ محبت اور شفقت، پیار اور ایثار کا سلوک کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ بچے کائنات کا حسن ہیں، دنیا کی رونق ہیں، بچوں کی معصومیت پر ہزاروں کلیوں کا حسن قربان کیا جاسکتا ہے۔ وہ باپ کتنا بدنصیب اور سنگدل ہے جو اپنے بچوں سے محبت نہیں کرتا۔ ابودائود اور ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کے حق کو نہ پہچانے۔‘‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ الادب المفرد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بدونبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہاکیا آپ لوگ بچوں کو چومتے ہیں؟ ہم تو نہیں چومتے، تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دل سے رحم کو نکال دے تو میں تمہارے لئے کیا کرسکتا ہوں۔ (بخاری ، ص:317،ج 1)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو چوما، وہاں حضرت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، یہ دیکھ کر کہنے لگے میرے دس بچے ہیں، میں نے تو ان میں سے کسی کو پیار نہیں کیا۔ حضورﷺ نے ان کی طرف تعجب سے دیکھا اور فرمایا: جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔ (بخاری،ص:86، ج:4)۔ اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریمﷺ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو چومتے اور سونگھتے اور فرماتے: ھما ریحانی من الدنیا‘‘۔(رواہ البخاری و مشکوٰۃ،ص:569) اولاد کی پرورش حلال روزی سے کرو: اولاد کا چوتھا حق یہ ہے کہ ان کی پرورش حلال روزی سے کی جائے، وجہ اس کی یہ ہے کہ کتاب و سنت میں رزق حلال اختیار کرنے اور پاکیزہ غذا کھانے پر زور دیا گیا ہے، کیونکہ غذا کا اثر انسان کے قلب ودماغ پر پڑتا ہے، غذا کا اثر انسان کے جذبات و خیالات پر پڑتا ہے اور بطور خاص غذا کا اثر انسان کی اولاد پر پڑتا ہے۔ اگر غذا حرام اور ناپاک ہوگی تو دل سیاہ ہوگا، اس میں قساوت و ظلمت ہوگی، قبول ہدایت کی صلاحیت اور استعداد ختم ہوجائے گی، نیکی کرنا مشکل اور بدی کرنا آسان ہوجائے گا اور بطور خاص اولاد نافرمان ہوگی یہ بات تجربے میں آئی ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کو حرام کی روزی کھلاتے ہیں، ان کے بچوں میں اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور جو مائیں حلال پر اکتفا کرتی ہیں ان کی گود میں پلنے والے بچوں میں ان کی مائوں کا زہدو تقویٰ ضرور رنگ دکھاتا ہے اور تاریخ کے اندر ایسے واقعات بھرے پڑے
ہیں کہ والدین کی حلال یا حرام روزی کا بچوں کے اخلاق اور سیرت و کردار پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اولاد کا پانچواں حق جوکہ تمام حقوق میں سے اہم ترین ہے وہ یہ ہے کہ اولاد کی صحیح نہج پر تربیت کی جائے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ وہ آپ کی صحیح تربیت کی بدولت اچھا انسان، اچھا مسلمان، اچھا بیٹا اور اچھا باپ بن سکتا ہے اور آپ کی بے توجہی اور غفلت کی وجہ سے وہ انسان نما حیوان بن سکتا ہے۔ اس لئے آپﷺ نے فرمایا: کسی نے اپنے بیٹے کو اچھے ادب سے بہتر عطیہ اور ہدیہ نہیں دیا اور فرمایا کہ انسان کا اپنے بیٹے کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سےبہتر ہے اور جب ہم بچوں کی تربیت کے حوالے سے سیرت طیبہ میں غور کرتے ہیں تو ہم کورحمت دو عالمﷺ کے بہت سارے واقعات بچوں کی تربیت کرنے کے ملتے ہیں۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ جب بچے تھے، ایک مرتبہ صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لی، جب حضورﷺ نے دیکھا تو فوراً فرمایا: کخ کخ‘‘ عربی میں یہ لفظ ایسا ہے جیسے ہماری زبان میں لفظ ’’تھو تھو‘‘ کہتے ہیں۔ اگر بچہ کوئی چیز منہ ڈال لے اس کی شناخت کے اظہار کے ساتھ وہ چیز اس کے منہ سے نکلوانا مقصود ہو تو یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ بہرحال حضورﷺ نے فرمایا: ’’کخ کخ‘‘ یعنی اس کے منہ سے نکال کر پھینک دو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم یعنی بنو ہاشم صدقے کا مال نہیں کھاتے۔ ایک طرف حضورﷺ کی حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے اتنی محبت اور دوسری طرف جب آپ رضی اللہ عنہ نے نادانی میں ایک کھجور منہ میں رکھ لی تو آنحضرتﷺ کو یہ گوارا نہ ہوا کہ وہ اس کو کھائیں مگر چونکہ ان کو پہلے سے یہ تربیت دینا تھی اس لئے فوراً وہ کھجور منہ سے نکلوائی اور فرمایا کہ یہ ہمارے کھانے کی چیز نہیں ہے۔ حضرت عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺ کے سوتیلے بیٹے ہیں، یہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پہلے خاوند سے تھے اور نبی کریمﷺ آپ رضی اللہ عنہ سے بہت محبت اور شفقت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے، وہ اپنا واقعہ خود بیان فرماتے ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا اور حضورﷺ کے زیر پرورش تھا، ایک روز کھانا کھاتے ہوئے میرا ہاتھ ادھر سے اُدھر حرکت کررہا تھا یعنی کبھی ایک طرف پیالے میں سے لقمہ اٹھایا اور کبھی دوسری طرف سے اور کبھی تیسری طرف سے جب حضور ﷺ نے مجھے اس طرح کرتے دیکھا تو فرمایا: اے لڑکے! کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھو اور داہنے ہاتھ سے کھائو اور برتن کا جو حصہ تمہارے سامنے ہے وہاں سے کھائو‘‘۔ حضورﷺ اس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھ کر تنبیہ فرماتے تھے۔ ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے بچوں کو سب سے پہلے کلمہ ’’لاالہ الا اللہ‘‘ سکھائو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: اپنے بچوں کو تین باتیں سکھائو:1)اپنے نبیﷺ کی محبت۔2)اپنے نبیﷺ کی اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت۔3)قرآن کریم کی تلاوت ۔ حضرات گرامی! یہ بات ہم اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ یہ اولاد ہماری ملکیت نہیں اور نہ ہی ہم اسے مرضی سے حاصل کرسکتے ہیں۔ دینا یا نہ دینا بھی اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے لمبی اور مختصر زندگی بھی اسی کی مشیت پر منحصر ہے۔ یہ اولاد ہمارے پاس ایک خوبصورت اور قیمتی امانت ہے اس میں خیانت نہ کریں، بلکہ اس کا حق ادا کریں ۔(بشکریہ! ختم نبوۃ)
اور اس کا حق یہی ہے کہ اس کی صحیح تربیت کی جا ئے۔ ہم بڑے شوق سے اس کو ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئر، پائلٹ آفیسر بنائیں، لیکن اسے سب سے پہلے ایک اچھا انسان اور مثالی مسلمان بنائیں اور ہم ان کو ایسی مجالس میں بھیجیں جہاں ان کو والدین کا احترام سکھایا جائے اور بتایا جائے کہ جنت تیری ماں کے قدموں کے نیچے ہے اور تیرے رب کی رضا تیرے والد کی رضا میں ہے۔ اگر ہم نے ایسا کرلیا تو یہ ہماری زندگی میں بھی کارثواب اور مرنے کے بعد بھی صدقہ جاریہ ہوگا۔ اس لئے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا ہر عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین چیزیں باقی رہتی ہیں (1) صدقہ جاریہ (2) ایسا علم جس سے فائدہ حاصل کیا جائے (3) نیک اولاد جو اس کیلئے دعا کرے۔ اگر ہم نے اپنی اولاد کو غیرمہذب بنادیا تو کل اس کا ہاتھ ہمارے گریبان تک پہنچ سکتا ہے اور اگر ہم نے اسے دینی تعلیم نہ دی تو ہمارے مرنے کے بعد ہمارے لئے دعا کرنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ دنیا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے دوڑ لگ چکی ہے آج ہم نے اپنی اولاد کو ایسی تعلیم حاصل کرنے کیلئے سکولوں کو بٹھی میں جھونک دیا ہے جس سے وہ بڑے ہوکر چار پیسے کمائیں گے اور مدرسوں میں پڑھنے والی اولاد کو ہم سے سمجھتے ہیں کہ کھائیں گے کہاں سے؟ کیا ہوا اگر وہ اگر چار ٹکے کمانے میں پیچھے رہ جائیں گے؟ کیا رب کی رضا کی کوئی قیمت نہیں؟ کیا نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں قبولیت کی کوئی قیمت نہیں؟ ہم اس قدر زرپرست ہوچکے ہیں؟ ہم اپنی اولاد کو پی ایچ ڈی تو کرالیں گے، مگر دینی تعلیم سے نابلد رکھتے ہیں۔ آج یہ بات کی جاتی ہے کہ دین کے ساتھ سائنسی بھی پڑھنے چاہئیں بالکل ٹھیک ہے مگر سائنس کے ساتھ دینی علوم کی آواز بھی تو لگانی چاہئے۔ 95 فیصد اولادیں سکولوں میں پڑھتی ہیں، ان کی دینی تعلیم کی بھی فکر کرنی چاہئے۔ آج مساوات کی بات کی جاتی ہے برابری کا نعرہ لگایا جاتا ہے مگر جس کے 5 بچے ہیں کبھی اس نے سوچا کہ میرے چار بچے دنیاوی تعلمی حاصل کررہے ہیں تو ایک کو میں دینی تعلیم پر لگادوں تاکہ وہ میری آخرت کا ذخیرہ بن جائے۔ اے ماں! تو دین و دنیا برابر کے راگ الاپتی ہے، اے والد! تو دین و دنیا برابر کے فلسفے کو پسند کرتا ہے مگر تیرا ایک بچہ بھی مدرسے قرآن و حدیث پڑھنے نہیں جاتا، کیوں؟ اے ماں! تیرے دل میں یہ حسرت کیوں نہیں پیدا ہوتی کہ تیرا بھی کوئی ایسا بچہ ہوتا جو دامن میں قرآن لے کر بیٹھتا اور جھولی پھیلاکر محبوب ﷺ کے فرامین کو یاد کرتا اور دعائیں مانگتا، تاکہ تیری شفاعت کا سبب بنتا۔ قیامت کے روز یہی اولادیں پکاریں گی کہ اے اللہ! ہمارے والدین کو ہی دگنا عذاب دے انہوں نے ہمیں دین سے دور رکھا۔ اللہ رب العزت ہمیں سمجھنے کی توفیق دے، اولادوں کی صحیح دینی تربیت کرنے یک توفیق دے۔ آمین!  

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 303 reviews.