Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

بچوں کی اسلامی تربیت اب بھی ممکن ہے!

ماہنامہ عبقری - جولائی 2016ء

صاحب اولاد والدین کے لئے ضروری ہے کہ بچپن ہی سے اپنے بچے کو اچھی باتیں سکھائیں، معصوم بچوں کا یہ حق ہے کہ مائیں اپنا دودھ پلائیں اور جب پلائیں تو بسم اللہ کہہ کر پلائیں تاکہ بچہ اس کو ہضم کرسکے اور صحت مند ہو۔ بچہ بولنا سیکھے تو اللہ اور بسم اللہ کے الفاظ سکھائیں

بچےدنیا کی حسین ترین مخلوق اور ایسے حسین پھول ہیں جن کی نزاکت اور مسکراہٹ روح پرور اور فرحت بخش ہوتی ہے۔ والدین کی محبت و شفقت کے زیر سایہ چلنے والے بچے اللہ کی امانت ہوتے ہیں۔ اس امانت کی پرورش میں جتنی زیادہ دیانت داری برتی جائے اتنی ہی مناسب ہے۔ بچوں کا ذہن ابتداء میں خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے جس پر جو لکھا جائے وہ ہمیشہ کیلئے ثبت ہوجاتا ہے۔ اس لئے والدین خصوصاً ماں کی یہ اہم ذمے داری ہوتی ہے کہ اس خالی سلیٹ پر ایسی چیز لکھی جائے جو اس کے دین و دنیا دونوں کے لئے فائدہ مند ہو۔ قرآن اللہ کی طرف سے بندوں کیلئے ایک انعام ہے، جس میں سراسر ہدایت اور رہنمائی ہے۔ قرآن کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کو سمجھ کر پڑھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ صاحب اولاد والدین کے لئے ضروری ہے کہ بچپن ہی سے اپنے بچے کو اچھی باتیں سکھائیں، معصوم بچوں کا یہ حق ہے کہ مائیں اپنا دودھ پلائیں اور جب پلائیں تو بسم اللہ کہہ کر پلائیں تاکہ بچہ اس کو ہضم کرسکے اور صحت مند ہو۔ بچہ بولنا سیکھے تو اللہ اور بسم اللہ کے الفاظ سکھائیں کیونکہ یہ اس خالق حقیقی کا انسان پر سب سے پہلا حق ہے کہ وہ اس سے آشنا ہو۔ مائوں کو چاہیے کہ خود بھی بچے کے سامنے ہر کام کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھیں اور ان کو بھی تاکید کریں۔ اللہ کے نام سے شروع کیا جانے والا ہر کام صحیح سمت اختیار کرتا ہے اور اس کام میں تائیدایزدی شامل ہوجاتی ہے اور کام پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے۔ بچوں کو اس بات کی بھی عادت ڈالیے کہ گھر سے نکلتے وقت لّٰہِ پڑھیں۔ اللہ کے بھروسے پر اس کا نام لے کر گھر سے نکلنے سے بچہ بوڑھا، جوان، دنیاوی حادثات، آفات اور بلائوں سے محفوظ رہتا ہے اور اللہ کے فرشتے اس کے محافظ بن جاتے ہیں۔ یہ اس دعا کا دوسرا جزو ہے ۔ یقیناً اللہ کی توفیق کے بغیر کسی انسان کی مجال نہیں کہ وہ نیکی کرسکے۔ یہ اسی کی طرف سے دی گئی ہدایت ہے جو بندے کی زبان سے ادا ہوتی ہے۔ بچہ جب اچھی طرح بولنا سیکھ جائے تو اسے سورہ ٔفاتحہ یاد کرائیں۔ آپ یقیناً جانتی ہوں گی کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’قرآن کی تمام آیات میں سورۃ فاتحہ سب سے اعلیٰ اور بلند ہے‘‘۔ اس سورۃ کو سورۃ شفاء بھی کہا گیا ہے اور یہ سورۃ جسمانی، نفسیاتی، روحانی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ ’’اللہ‘‘ معبود حقیقی کا ذاتی نام ہے جس کی بڑی فضیلت ہے اور یہ کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اپنے ہر کام کا آغاز اس کے نام سے کرے۔ اس لئے جب بچہ اپنی توتلی اور معصوم زبان سے کہتا ہے تو اللہ سراپا رحمت بن جاتا ہے۔ اس کی رحمتیں ہر لمحہ برسنے لگتی ہیں۔ کہہ کر دراصل بندہ اس رحیم کی رحمت کو آواز دیتا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اکرام و انعام سے نوازتا ہے۔’’الحمدللہ‘‘ کلمہ شکر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ہر کھانے اورپینے پر اللہ کی حمد کی جائے۔ اس رب العالمین کے لئے تمام بڑی سے بڑی تعریفیں بھی کم ہیں۔ اس کائنات کی ہر شے اس خالق حقیقی کا شکر ادا کرتی ہے۔ جن و بشر، نباتات، جمادات، حیوانات، حشرات الارض، چاند تارے سب اللہ کی مخلوق ہیں اور اپنی تخلیق پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ بچوں کو الحمدللہ کہنے کی عادت ڈالیں تاکہ اللہ کے شکر گزار بندے بنیں۔ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے، کھانے کے بعد ہاتھ دھونے اور الحمدللہ کہنا صحت مندی کی علامت ہے۔ صفائی کی عادت اپنانے سے بچہ یقیناً بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہے گا اور ماں بہت سی پریشانیوں سے بچ جائے گی۔ قیامت کا دن یقیناً ایک ہولناک دن ہوگا۔ ہر مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ ایک دن ہر بندے کو اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور زندگی میں کئے ہوئے ہر ہر عمل کا حساب اس مالک حقیقی کو دینا ہے۔ اپنے بچوں کو بچپن سے نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی عادت ڈالیے۔ ان کو بتائیے کہ جو کسی کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے اللہ اس کو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کی سزا دیتا ہے کیونکہ وہ اس دن کا تنہا مالک ہے۔ ان کو روز مرہ زندگی میں بھی اچھے کاموں پر انعام دیجئے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔ برے کام پر سزا بھی دیجئے لیکن ایسی سزا نہ دیں کہ بچہ آپ سے متنفر ہو جائے۔ بچوں کو اچھائی اور برائی کا بتائیں، جھوٹ بولنا، غلط بیانی کرنا، چغل خوری کرنا، چوری کرنا یہ سب رذائل اخلاق ہیں۔ بچوں کو بچپن ہی سے ان برائیوں سے دور رکھیں۔ ان کے سامنے خود بھی جھوٹ نہ بولیں۔ سچ کی اہمیت سے آگاہ کریں اور سچ بولنے پر ان کو انعام بھی دیں۔ قیامت کے واقعہ کی اہمیت کو آپ سونامی کی مثال دے کر سمجھا سکتی ہیں۔ چند لمحوں میں بارہ ممالک کے ساحل تلپٹ ہوگئے، قیامت یقیناً اس سے بہت زیادہ خوفناک دن ہوگا۔ کراماً کاتبین دو ایسے معزز لکھنے والے ہیں جو اللہ کے حکم سے ہمارے ہر عیب و ثواب کا ریکارڈ اپنے پاس محفوظ کرتے جارہے ہیں۔ اپنے معصوم بچوں کو وقتاً فوقتاً اس بات کا احساس دلاتے رہیے کہ وہ چھپ کر کوئی غلط کام نہ کریں۔ اگر انہوںنے ایسا کیا تو کراماً کاتبین اس کو لکھ لیں گے اور اللہ کے حضور پیش کردیں گے۔ یوں بھی اللہ تو سب کچھ دیکھتا ہے۔ ہم کتنا ہی چھپ کر کوئی کام کیوں نہ کریں۔ وہ ہر جگہ موجود ہے، ہر انسان کو ہر وقت نظر میں رکھتا ہے۔ بچوں کو سات سال کی عمر سے نماز سکھائیے، چھوٹی چھوٹی سورتیں ترجمے کے ساتھ یاد کرائیں، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں، سورۃ فاتحہ کی یہ آیت اس سورۃ کی روح ہے۔ مدد ہمیشہ اس سے مانگی جاتی ہے جس کے متعلق یقین ہے کہ وہ ہماری مدد کرے گا۔ اللہ تو ہر بندے کی مدد کیلئے ہر وقت تیار ہے، بشرطیکہ بندہ اس سے مدد طلب کرے۔ ہم اس کی عبادت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ بچوں کو بچپن سے اس بات کا احساس دلائیے کہ اللہ ہمیشہ اس کی مدد کرتا ہے جو خود بھی کوشش کرتا ہے جو بچے نمازپڑھتے ہیں پڑھائی میں محنت کرتے ہیں وہ اللہ سے پاس ہونے کی دعا مانگتے ہیں اللہ ان کو ہمیشہ کامیاب کرتا ہے، ہر مشکل وقت میں وہی ہماری مشکل کو آسان کرتا ہے اس کے دربار میں جانے کیلئے کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ دینے کیلئے ہر وقت تیار ہے۔ اگر بچوں کی کسی بھی بیماری کی صورت میں اکتالیس مرتبہ (سورہ فاتحہ پانی پر دم کرکے پلائیں) اس سے کوئی گڑگڑا کر اپنی حاجت پیش کرے۔ اس کے دروازے پر کوئی دربان نہیں ہوتا۔ ہر بندہ ہر وقت اپنی درخواست پیش کرسکتا ہے۔ صرف اخلاص نیت شرط ہے۔ ہدایت اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سب سے اہم ترین نعمت ہے، اس سے اپنی نعمت کے لئے ہر وقت خواہش کرتے رہنا چاہیے اور دعا کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں سیدھا راستہ دکھائے۔ اپنے بچوں کو اس آیت کا مفہوم سمجھائیں کہ زندگی میں ذریعہ معاش کے بہت سے راستے ہیں مگر ان میں سیدھا اور سچا راستہ وہی ہے جو رحمٰن کا راستہ ہے۔ جو کٹھن تو ہے مگر اس کا انجام جنت ہے۔ چوری، ڈکیتی، اسمگلنگ، فحاشی،یہ سب راستے شیطان کی طرف جاتے ہیں جو انسان کا 

سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ وہ اس کے بندوں کو بہکاتا رہے گا اس لئے وہ اپنے کام میں پوری تندہی سے مصروف ہے۔ معصوم بچوں کو غلط غلط راستے دکھاتا ہے۔ ان راستوں سے بچانا ماں کی ذمہ داری ہے۔ ’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ دراصل وہ اہم دعا ہے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ ہمارے لئے پورا قرآن مجید پیش کردیتا ہے۔ یہی وہ ہدایت کا راستہ ہے جو نبیوں، صدیق، شہداء کا راستہ ہے اور جن پر اللہ کا انعام نازل ہوا ہے۔ گمراہ لوگوں سے بچنے کی دعا ان کو سکھائیے۔ یہودیوں اور نصاریٰ کے مکروفریب سے ان کو آگاہ کیجئے کہ مغضوب علیہم یہی ہیں جو اللہ کے نافرمان ہیں۔ اپنے بچوں کو روز مرہ زندگی میں سورہ فاتحہ کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ بچوں کی کسی بھی بیماری کی صورت میں اکتالیس مرتبہ سورہ فاتحہ پانی پر دم کرکے پلائیں، اس سورۃ کو سورہ شفاء اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ بہت سی جسمانی، روحانی اور نفسیاتی بیماریوں کا علاج نوزائیدہ بچوں کو ہمیشہ سورہ فاتحہ پڑھ کر دودھ پلائیں۔ دودھ ہضم بھی ہوگا اور ان کے لئے صحت کا باعث بھی بنے گا۔ نزلہ زکام، کھانسی، نمونیہ کے مریضوں کو دوا کے ساتھ ایاک نعبدو ایاک نستعین پڑھنا چاہیے۔

پوٹی ٹریننگ، کوئی مسئلہ نہیںبچوں کو فارغ ہونا تو سکھائیں
بچوں کی پرورش کیلئے بہت سے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ کوئی ایک اصول لاگو کرتے ہی بچے پل نہیں جاتے۔ چھوٹی چھوٹی ہزاروں ضرورتوں اور مشقوں کی ایک طویل فہرست ہوتی ہے جنہیں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ وقت اور ضرورت کے حساب سے اپنے فیصلوں اور حکمت عملی میں لچک لانی پڑتی ہے اور خود والدین کو اکثر موقعوں پر بچہ بننا پڑتا ہے اور نئی صلاحیتیں بروئے کار لانی پڑتی ہیں۔ ڈائپر باندھنے کی عمر جوں ہی مکمل ہو والدین کیلئے ٹوائلٹ ٹریننگ کا دور شروع ہوتا ہے۔ بچہ اس نئی سرگرمی میں نہ محو ہوتا ہے نہ دلچسپی لیتا ہےتاوقتیکہ گھر میں اس کے ہم عمر یا چند اور بچے بھی اس نئی سرگرمی کو اختیار کئے ہوئے ہوں۔ بازار میں نت نئے رنگوں اور ڈیزائنوں کی متبادل ٹوائلٹس موجود ہیں، کوئی کرسی کی شکل کا ہے تو کوئی گاڑی کی شبیہہ لئے ہوئے ہے مائیں کھیل ہی کھیل میں انہیں اس متبادل ٹوائلٹ کو استعمال کرنا سکھاتی ہیں۔
تربیت کا نیا عمل صبرو استقامت کا متقاضی: شروع میں بچہ لباس ہی میں فارغ ہوجاتا ہے لیکن اچھے منتظم والدین پاؤں پاؤں چلنے والی عمر سے اس کا ذہن بناتے ہیں تاکہ وہ حوائج ضروریہ کا بروقت اعلان کرے۔ آپ اسے صفائی ستھرائی کا احساس دلائیں گی تو لامحالہ بچہ گندا ہونا پسند نہیں کرے گا۔ اچھی مائیں بچوں کی عزت نفس کا خیال رکھتی ہیں۔ انہیں وقت بے وقت پشی یا پوٹی کرنے پر ڈانٹیں ڈپٹیں نہیں بلکہ دوستانہ انداز میں ان کی صفائی کردیں اور رفتہ رفتہ انہیں طہارت کرنا سکھائیں، شرم و حیا اور پردے کا اہتمام ضرور کریں تاکہ بچے کو بھی اخلاقی اقدار سیکھنےمیں مدد ملے۔
تربیت کا عمل کب شروع کیا جائے؟: تربیت کا مناسب وقت وہی ہے جب بچہ والدین کی بات سمجھنے لگتا ہے اور یہ عمر دس ماہ سے پہلے برس پر مشتمل ہوتی ہے۔ آپ واش روم میں اس کی پوٹی چیئر رکھ دیں اور بچہ کے تاثرات میں جہاں دباؤ اور تبدیلی دیکھیں خود پوچھنا شروع کریں کہ ’’کیا پوٹی آرہی ہے؟‘‘ یقیناً بچہ ہاں یا نہ میں اپنی کیفیت ظاہر کردے گا۔ ڈٓئپر گیلا ہونے پر بچہ بے چین ہوتا ہےاور وہ کھیلنا بند کرسکتا ہے۔ آپ اسے معمول کی سرگرمیوں سے کٹا ہوا دیکھیں تو اس سے مزاج کی تبدیلی کی وجہ جاننے میں تاخیر نہ کریں۔
رفتہ رفتہ ٹائم شیڈول بنتا ہے: تربیت کے آغاز پر کوئی طے شدہ وقت نہیں دیا جاسکتا کہ فلاں بچہ اس وقت تک حوائج ضروریہ سے فارغ ہوجائے گا تاہم رفتہ رفتہ گھر کے دوسرے افراد کی طرح اس کے شیڈول کی تربیت واضح ہوجائے گی اور بچہ اپنے دیگر معمولات کے ساتھ اس ضرورت کی تسکین بھی بروقت کرے گا۔ تربیت کا یہ عمل بچے کے ذہن کو تحریک دیتا ہے اور دماغ نئی ضرورت کیلئے بروقت اطلاع دینے لگتا ہے۔
کچھ مائیں بچے کے بیدار ہونے پر انہیں فوراً ٹوائلٹ لے جاتی ہیں اور پوٹی چیئر پر بٹھا دیتی ہیں۔ یہ ان بچوں کیلئے مناسب فیصلہ ہوتا ہے جو فوری طور پر اپنی ضرورت نہیں سمجھتے یا اطلاع نہیں دے سکتے اس تربیت میں چھ سے آٹھ ماہ بھی صرف ہوسکتے ہیں۔ رات کے وقت مائیں کیا کریں؟: بچہ ماں کو جگائے تو اسے فوراً اس کی ضرورت کو سمجھنا چاہیے اہم اگر بچے دوسرے کمرے میں سوتے ہیں تو اپنے کمرے کے اندر سے لاک نہ کیا جائے تاکہ بچہ ماں تک فوری رسائی کرسکے۔ ڈھائی یا تین سال تک کے عمر کی بچوں کو ماؤں کے جذباتی سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اپنی نیند اور آرام کا اس قدر ایثار ضرور کریں۔ فوراً بیدار ہوکر بچے کو واش روم تک لے جائیں۔ روشنی جلائیں اور پوٹی چیئر پر بیٹھنے کو ترجیح دیں۔باتھ روم کی صفائی: بچے کومکمل فراغت تک واش روم میں بیٹھنا ہے لہٰذا کوشش کرکے اس جگہ کو صاف رکھیں تاکہ بچہ کراہت محسوس نہ کرے۔ حفظان صحت کے اصول: لڑکیوں کی تربیت کرتے وقت خاص طور پر پردے اور حفظان صحت کے اصولوں کا پابند رہنا ضروری ہے۔ دروازہ اندر سے لاک کرنا سیکھیں یا اگر مکمل طور پر بند نہ کرسکیں تو گھر والوں خصوصاً ماؤں یا بڑی بہنوں کو علم ہونا چاہیے کہ واش روم میں اس وقت کوئی موجود ہے؟ طہارت کرنے کے بعد بدن کو سکھانا بھی سیکھیں اور اگر ٹائلٹ پیپر استعمال کررہے ہیں تو یہ گندے نہ ہوں اور انہیں حفاظت سے ضائع بھی کردیں۔ ہر کام سے فارغ ہوکر کسی اچھے صابن یا ہینڈواش سے ہاتھ ضرور دھولیں۔ یاد رکھیں کہ آپ نے پوٹی کی تربیت کرتے وقت بچے کا اعتماد بھی بحال رکھنا ہے اور مائیں جان لیں کہ فوری طور پر مثبت نتائج حاصل نہیں ہوا کرتے۔ یہ تربیتی عمل ہے کوئی جادو کا چراغ نہیں کہ ادھر حکم دیا اور ادھر مقصد کی تکمیل بھی ہوجائے۔
(ام حیاء فاروقی)

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 892 reviews.