Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

میرے آقاؐ کی آزمودہ غذائیں اور جون کا رمضان

ماہنامہ عبقری - جون 2016

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’ جو شخص روزانہ صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھالیا کرے، اسے اس دن زہر اور جادو سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا‘‘

نبی آخر الزمانﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا مسلمانوں کیلئے ذریعہ عظمت و نجات ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات اس قدر کامل و مکمل ہیں کہ اس سے صحت مند اور لذیذ غذائوں تک کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے اور ان کو استعمال کرکے ظاہری و مادی فائدے کے علاوہ سنت رسول ﷺ کی ادائیگی کا ثواب بھی نصیب ہوسکتا ہے۔ وہ مسلمان بڑا ہی خوش نصیب ہے جو کسی چیز کو اس لئے پسند کرے کہ وہ چیز نبی کریم ﷺکو پسند تھی۔ اس طرح اس چیز کا استعمال عبادت اور ذریعہ ثواب بن جاتا ہے۔ شہد:’’عربی میں شہد کی مکھی کو نحل کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی ایک سورت کا نام’’النحل‘‘ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہوئے شہد کی مکھی اور شہد کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو حکم دیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں اور چھتوں میں، پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے کھا اور اپنے رب کی راہیں چل جو تیرے لئے نرم اور آسان ہیں۔ اس کےپیٹ سے ایک چیز پینے کی رنگ برنگ نکلتی ہے جس میں لوگوں کے لئے تندرستی ہے، بے شک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو غور کریں‘‘۔ (النحل: 69-68)
قابل غور یہ آیت کہ کسی طرح ایک مکھی پھلوں اور پھولوں کارس چوستی ہے اور جب وہ اس کے پیٹ میں رہ کر باہر آتا ہے تو میٹھا لذیذ بھی ہوتا ہے اور صحت بخش بھی۔ اللہ کی پیدا کردہ اس لذیذ و مفید نعمت کی اہمیت، افادیت اور لذت کا اندازہ نبی کریم ﷺ کے ارشاد سے مزید کیا جاسکتا ہے: ’’دو چیزوں سے صحت حاصل کرو شہد اور قرآن کریم سے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ 3452)اس حدیث میں شہد کے صحت بخش ہونے کے ساتھ قرآن کریم کو بھی ذریعہ صحت فرمایا گیا کیونکہ شہد تو جسمانی امراض کو ختم کرنے اور جسم کو صحت یاب کرنے والی ایک غذا ہے اور قرآن کریم روحانی امراض کو ختم کرنے اور روح کو جلابخشنے والی کتاب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’ اور ہم اتارتے ہیں قرآن میں وہ چیز جو ایمان والوں کیلئے سراسر شفا اور رحمت ہے‘‘۔ (الاسراء: 82)سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میرے بھائی کو اسہال (دستوں) کی شکایت ہے تو نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’اسے شہد پلادو‘‘۔ وہ شخص چلاگیا اور پھر واپس آکر عرض کرنے لگا کہ میں نے شہد پلایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے پھر شہد ہی پلانے کا حکم دیا۔ دو تین بار ایسا ہی ہوا۔ جب وہ چوتھی مرتبہ خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ اللہ نے سچ فرمایا اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے‘‘۔ اس ارشاد کو سن کر وہ شخص گیا اور پھر پلایا تو اس کا بھائی صحت یاب ہوگیا۔ (البخاری: 5657)
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ کو ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق شہد کی افادیت پر کس قدر یقین تھا۔ مریض گھبرایا مگر آپ ﷺ شہد ہی پلواتے رہے اور آخر کار اللہ کا ارشاد سچ ہوا اور مرض ختم ہوگیا۔ شہد کی یہ تاثیر آج بھی باقی ہے۔ شرط یہ ہے کہ شہد بھی اصلی ہو اور مسلمان بھی اصلی۔ شہد کا استعمال صحت کا ایک مستقل ذریعہ ہے۔ اس حقیقت کو طبی تحقیق نے بھی ثابت کیا اور اطباء نے تسلیم کیا کہ شہد بہت سی بیماریوں کی دوا ہے، مثلاً: جسم اور خاص طور پر پھیپڑوں کے لئے قوت بخش ہے۔ قلب کے لئے فرحت بخش ہے، کھانسی، دمہ اور ٹھنڈ سے ہونے والی بیماریوں کیلئے مفید ہے۔ لقوہ اور فالج کے لئے بھی مفید ہے، خون کو صاف کرتا ہے، اگر سرمہ کی طرح آنکھوں میں لگایا جائے تو آنکھوں کو بیماری سے بچاتا اور نظر کی حفاظت کرتا ہے۔ الغرض یہ کہ بے شمار امراض کا علاج ہے۔ کھجور: کھجور ایک بہترین میوہ بھی ہے اور غذا بھی۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کا ذکر موجود ہے۔ سورہ رحمٰن میں اس طرح ذکر فرمایا گیا: ’’ اس میں میوے ہیں اور غلاف والی کھجوریں‘‘۔ (الرحمن 10) میوئوں کے تذکرے کے بعد خاص طور پر نخل (کھجور) کا ذکر اس کی افادیت و اہمیت کو ظاہر کرتا ہے جس کی وضاحت نبی کریم ﷺ کے ان ارشادات سے ہوتی ہے: 1۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’ جو شخص روزانہ صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھالیا کرے، اسے اس دن زہر اور جادو سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا‘‘۔ (صحیح البخاری: 5445)کھجور کی بہت سی اقسام ہیں۔ ان میں سے ایک قسم عجوہ ہے جو درمیانے سائز کی ہوتی ہے اور اس کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ہر کھجور کو پسند فرمایا ہے لیکن عجوہ کی خاص طور پر افادیت بیان فرمائی اور اس کو بہت سے امراض کا علاج بتایا جیسا کہ اس مذکورہ حدیث میں فرمایا گیا کہ جو روزانہ صبح سات کھجوریں عجوہ استعمال کرے وہ دن بھر زہر اور جادو کے اثر سے بچا رہے گا۔ غور فرمائیے! زہر اور جادو کس قدر تکلیف دہ چیزیں ہیں اور اس کا علاج کتنا معمولی سا ہے۔ اس عجوہ کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ عجوہ جنت کا پھل ہے اس میں زہر سے شفاء دینے کی تاثیر ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 3455)سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ آپ ﷺ تازہ کھجوریں اور ککڑی ایک ساتھ تناول فرمارہے تھے۔ (صحیح البخاری 5447) کھجور اور ککڑی کا استعمال صرف ایک اتفاق نہ تھا بلکہ نبی کریم ﷺ نے اپنے اس عمل سے کھجور کی گرم تاثیر اور ککڑی کی سرد تاثیر کو ختم کرنے کا طریقہ سکھایا یا اس مقصد کے لئے آپ ﷺ کا ایک دوسرا عمل یہ تھا کہ آپ ﷺ تربوز تازہ کھجور کے ساتھ ملا کرکھاتے اور فرماتے: ’’ ہم کھجور کی گرمی کا تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 3836)نبی کریم ﷺ کا یہ عمل اس بات کو سمجھنے کیلئے کافی ہے کہ آپ ﷺ صحت کا کس قدر خیال رکھتے تھے اور مفید غذائوں کے استعمال کا کس طرح طریقہ تعلیم فرماتے تھے، بسر کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے تو آپ ﷺ کی خدمت میں مکھن اور تازہ کھجوریں پیش کیں اور آپ ﷺ مکھن اور کھجور پسند فرماتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ: 3837)تمر خشک کھجور کو کہا جاتا ہے جو مکھن کے ساتھ واقعی بہت لذیذ بھی ہوجاتی ہے اور مکھن اس کی گرم و خشک تاثیر کو ختم کردیتا ہے۔ الغرض یہ کہ کھجور نبی کریم ﷺ کی پسندیدہ غذا تھی۔ اب امت کیلئے اس کا استعمال فائدے کے علاوہ اتباع رسول اللہ ﷺ کی نیت سے ذریعہ ثواب بھی ہے۔ گوشت:گوشت صحت و قوت کیلئے ایک نہایت ہی مفید غذا ہے۔ مسلمانوں کے لئے جن جانوروں کا گوشت حلال کیا گیا وہ اس کو نہ صرف بطور غذا استعمال کرتے ہیں بلکہ بڑے شوق اور میلانِ طبع سے استعمال کرتے ہیں اور اگر یہ بھی خیال کرلیا جائے کہ اس مرغوب غذا کے متعلق نبی کریم ﷺ کا ارشاد اور عمل کیا ہے تو پھر اس کا استعمال سنت نبوی ﷺ پر عمل بھی ہوگا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سب حصوں کا گوشت مزے میں برابر نہیں ہوتا بلکہ، سر پائے، سینہ، ران وغیرہ ہر ایک کا علیحدہ علیحدہ مزہ ہوتا ہے۔ جو جس کو پسند ہوتا ہے وہ اسی
حصے کو استعمال کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کو بھی بعض حصوں کا گوشت خاص طور پر پسند تھا جو ان چند احادیث سے ظاہر ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا۔ اس میں سے دستی کا گوشت آپ ﷺ کو دیا گیا جسے آپ ﷺ پسند فرماتے تھے۔ لہٰذا آپ ﷺ نے اسے دانت مبارک سے نوچ کر تناول فرمایا۔ (صحیح البخاری: 4712، و مسلم 194)حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ہم (گائے یا بکری کے) پائے سنبھال رکھتے تھے۔ رسو ل اللہ ﷺ قربانی سے پندرہ دن بعد انہیں تناول فرماتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ:3313) سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ فرماتے تھے: ’’ سب سے عمدہ گوشت پشت کا گوشت ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 3308) حضرت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا: کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس بکری کے کندھے کا گوشت لے گئیں تو آپ ﷺ نے اس میں سے تناول فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ: 491)سیدنا عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ بھنا ہوا گوشت کھایا۔ (سنن ابن ماجہ: 3311) سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک رات میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک شخص کے ہاں مہمان ہوا، گھر والے نے بکری ذبح کی تو آپ ﷺ نے دستی بھوننے کی فرمائش کی، جو آپ ﷺ کے سامنے لائی گئی۔ پھر آپ ﷺ نے چھری لی اور اس سے میرے لئے دستی میں سے کاٹنے لگے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: 433/15) ان احادیث سے واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ کو گوشت بہت پسند تھا اور خاص طور سے کندھے، دستی پائے اور پشت کا گوشت اور وہ بھی بھنا ہوا پسندیدہ تھا۔ نبی کریم ﷺ کے اس بہترین شوق سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اگر اللہ وسعت عطا فرمائے تو بہترین غذا اور لذیذ کھانے بھی کھائے جاسکتے ہیں لیکن لذیذ کھانوں کے حاصل کرنے کے لئے حرام و ناجائز طریقے اختیار کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ یعنی مسلمان کی شان یہ ہے کہ اس کو اگر روکھی سوکھی ملے تو بھی اللہ کا شکر ادا کرکے کھائے اور خوش رہے اور اگر بہترین غذائیں میسر ہوں تو ان کو بھی استعمال کرکے اللہ کا شکر ادا کرے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا عمل تھا کہ آپﷺ کئی کئی دن بھوکے رہتے تھے۔ معمولی کھانا ملتا تو بھی خوش ہوکر کھالیتے اور جب عمدہ کھانے میسر ہوتے تو ان کو بھی خوش ہوکر استعمال کرتے۔ آپ ﷺ سے
مرغیوں اور خرگوش کا گوشت استعمال کرنا بھی ثابت ہے۔ سیدنا حضرت زید الجری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ میں نے اللہ کے رسول ﷺکو مرغ کا گوشت کھاتے دیکھا ہے‘‘۔ (مسلم 1649) سیدنا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے مرالظہر ان کے مقام پر ایک خرگوش کا پیچھا کیا لوگ اس کے پیچھے دوڑے دوڑتے تھک گئے مگر میں نے اسے پکڑ لیا اور اسے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس لایا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے ذبح کرکے اس کی رانیں نبی کریم ﷺ کے پاس بھیج دیں تو آپ ﷺ نے انہیں قبول کرلیا۔ (صحیح البخاری:5535 و صحیح مسلم1953)کدو: نبی کریمﷺ کو سبزیوں میں سب سے زیادہ کدو پسند تھا۔ سیدنا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ ایک درزی نے نبی کریم ﷺ کی دعوت کی۔ کھانے میں جوکی روٹی اور شوربہ پیش کیا۔ شوربے میں کدو اور گوشت تھا۔ میں نے دیکھا کہ اللہ کے نبی کریم ﷺپیالے کے کناروں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کرکے نکال لیتے اور تناول فرماتے تھے۔ اس دن سے ہی میں کدو کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری: 2092 و صحیح مسلم:2041)ثریدوحلوہ: نبی کریم ﷺ کو ثریدوحلوہ بھی پسند تھا۔ ثرید ایک تو اس کھانے کو کہا جاتا ہے جو شوربے یا پتلی دال میں روٹی بھگو کر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ ایک نرم اور جلد ہضم ہونے والا کھانا ہے۔ اس کو اللہ کے پیارے محبوب ﷺ پسند فرماتے تھے، ثرید کی ایک دوسری قسم بھی ہے جو میٹھی ہوتی ہے اس کو حلوہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ستو میں خشک کھجور، دودھ اور گھی ملاکر مالیدے کی طرح بنایا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کو دونوں ہی قسم کا ثرید پسند تھا جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ’’ روٹی کا ثرید اور حیس کا ثرید رسول اللہ ﷺ کو سب کھانوں سے زیادہ پسند تھا‘‘۔ (سنن ابی دائود: 3783) خاص طور پر حلوہ (میٹھا) کی پسندیدگی کا ذکر بھی موجود ہے جیسا کہ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: ’’ رسول کریمﷺحلوہ (میٹھا) اور شہد کو پسند فرماتے تھے۔ (صحیح البخاری: 5431)سالن روٹی:سیدنا حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے اہل خاندان سے دریافت فرمایا کہ کوئی سالن ہے؟ عرض کیا گیا: گھر میں سرکہ کے سوا کچھ نہیں تو آپ ﷺ نے وہی منگوایا اور اسی سے کھانا تناول فرمانا شروع کیا۔ آپ ﷺ کھاتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے ’’سرکہ کتنا اچھا سالن ہے، سرکہ کتنا اچھا سالن ہے‘‘۔ (صحیح مسلم: 2052) سیدنا یوسف بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے جوکی روٹی کا ایک ٹکڑا لیا
اور اس پر کھجور رکھ کر فرمایا: ’’ یہ اس کا سالن ہے‘‘۔ (سنن ابی دائود: 3830) سیدنا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: ’’ آپ ﷺ ہانڈی کی کھرچن کو پسند فرماتے تھے‘‘۔ (صحیح البخاری: 4979)ان احادیث سے واضح ہے کہ جہاں نبی کریم ﷺ نے بھنے ہوئے گوشت، کدو، شہد اور حلوہ جیسی نفیس غذائیں پسند فرمائیں، وہاں آپ ﷺ کی شان یہ بھی تھی کہ جب آپ ﷺ کو سالن کی جگہ سرکہ، حلوے کی جگہ کھجور اور جوکی روٹی کا ٹکڑا اور ہانڈی کی کھرچن میسر ہوتی تو آپ ﷺ اس کو بھی پسند فرما کر رزاق حقیقی کا شکر ادا کرتے اور اس پر خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ درحقیقت رحمۃ للعالمین ﷺ نے اس طرح انسانیت کے دونوں طبقوں دولت مندوں اور غریبوں کو سہارا عطا فرمایا کہ اگر گوشت والے سنت رسول ﷺ ادا کرنے کا ثواب پائیں تو سرکہ، چٹنی اور روٹی پر زندگی بسر کرنے والے بھی یہ سوچ کر اپنے دل کو تسلی دیں کہ یہ معمولی کھانے صرف انہی کی تقدیر میں نہیں بلکہ اللہ کے محبوب ﷺ نے بھی پسند فرمائے اور خوش ہوکر استعمال فرمائے۔ بلکہ ان کا تو اگر مزید حال معلوم کرنا ہے توبعض کتب جن میں سے ایک کا حوالہ دیاجارہا ہے میں لکھا ہے کہ ’’ نبی کریم ﷺنے سوائے اجتماع کے کبھی نہ روٹی سیر ہوکر کھائی اور نہ کبھی گوشت پیٹ بھر کر کھایا‘‘۔ (مختصر الشمائل المحمدیہ: 109)یعنی جب کوئی اجتماع ہوتا یا دعوت وغیرہ ہوتی تو تب اللہ کے رسول ﷺ سیر ہوکر کھانا تناول فرمالیا کرتے تھے۔ ورنہ حال یہ تھا کہ سیدنا حضرت مسروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ایک مرتبہ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ عنہا نے میرے لئے کھانا منگوایا اور فرمانے لگیں: میں جب بھی کھانا سیر ہوکر کھاتی ہوں تو مجھے رونا آجاتا ہے۔ سیدنا حضرت مسروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تو فرمایا: مجھے وہ زمانہ یاد آجاتا ہے جب اللہ کی قسم! نبی کریم ﷺ نے کسی دن دو مرتبہ روٹی اور گوشت پیٹ بھر کر نہیں کھایا۔ (جامع الترمذی: 2356)دودھ: نبی کریم ﷺ کو دودھ بھی بہت پسند تھا۔ آپ ﷺ نے اکثر بکری کا دودھ استعمال کیا اور گائے کا بھی استعمال کیا۔ گائے کے دودھ کے متعلق آپ ﷺ کا ایک ارشاد بھی موجود ہے جس کو سیدنا حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تم گائے کا دودھ استعمال کرو کیونکہ وہ دوا ہے اور ان  پر

کا گھی استعمال کرو، ان میں شفا ہے اور اسکے گوشت سے بچو کیونکہ اس کا گوشت بیماری ہے‘‘۔ (صحیح الجامع الصغیر: 373/1) یعنی گائے کا دودھ اور مکھن نہایت ہی مفید اور مقوی ہیں لیکن آپ ﷺ نے اس کا گوشت پسند نہیں فرمایا۔ واضح رہے کہ حدیث میں گائے کے گوشت کی حرمت نہیں بلکہ ناپسندیدگی کا اظہار ہے دیگر احادیث میں آپ ﷺ سے متعلق مروی ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے گائے ذبح فرمائی اور دوسری حدیث میں ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کی طرف سے حج میں گائے ذبح فرمائی۔ مذکورہ احادیث سے جہاں نبی کریم رحمت دو عالم ﷺ کی پسندیدہ غذائوں کا پتہ چلا وہاں کھانے کے لئے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اسلام ہر قسم کی حلال اور طیب غذائوں کے استعمال کی اجازت دیتا ہے چاہے وہ بکری اور مرغی کے گوشت جیسی اعلیٰ اور گراں قدر غذا ہو یا کھجور اور جوکی روٹی جیسی عام غذا ہو، پس یہ خیال ضرور کرنا چاہیے کہ عمدہ کھانے ملنے پر غرور و تکبر نہ کیا جائے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور معمولی کھانا نصیب ہونے پر ناشکری نہ کی جائے بلکہ اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ اعلیٰ نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے وہ نعمتیں جاری رہتی ہیں اور معمولی نعمتوں پر شکر ادا کرنا ان نعمتوں کے اعلیٰ ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔ (بشکریہ! ندائے امت)

 

Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 826 reviews.