قبرستان میں زوردار دھماکہ اور دھول: ابھی یہ بات ہوہی رہی تھی کہ اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا اور بہت زیادہ دھول اڑی، اتنی دھول کہ نامعلوم کتنی دیر تک کچھ نظر ہی نہیں آرہا تھا۔ میں حیران و پریشان لیکن میرے قریب بیٹھی جنتی روحیں بالکل مطمئن، مجھے ان کے اس انداز پر حیرت ہوئی ایک تو یہ ہے کہ دھماکہ کیوں ہوا اور یہ تھا کیا؟ دوسرا ارواح کیوں مطمئن تھیں؟ میں تو کتنی دیر خاموش بیٹھا ‘اس حیرت کے جہان کو دیکھتا رہا نامعلوم اب کیا ہوگا؟ اور یہ تھا کیا؟ تھوڑی ہی دیر میں ایک روح بولی آپ اطمینان کریں یہاں یہ روز کا معمول ہے اور ہم ان چیزوں کے عادی ہیں ‘میں نے پوچھا کیا معمول ہے؟ وہ جنتی روح کہنے لگی دراصل یہ جنات کی آپس میں لڑائی ہے‘ دنگا فساد ہے ‘میں حیران ہوا کہ وہ کیسے؟ کہنے لگے: جنات جتنا زیادہ لڑتے ہیں ‘دنگا فساد مچاتے ہیں اور ایک دوسرے پر جادو ایک دوسرےکی غیبت اور ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں شاید انسانوں میں کوئی شریر سے شریر شخص اور بدمعاش سے بدمعاش شخص بھی ایسا کبھی نہ کرتا ہو۔ جنات کا آپس میں اختلاف اور جنگیں: یہ دھماکہ دراصل جنات کے ایک گروہ کے آپس میں اختلاف کا ایک انداز تھا جب یہ آپس میں کسی بات پر الجھ جاتے ہیں تو پھر ان کی جنگیں ہفتوں‘ مہینوں اور بعض اوقات سالوں چلتی ہیں اور کتنے بے شمار جنات ایک دوسرے کے مار دیتے ہیں پھر ان کا فیصلہ نہ کوئی کرسکتا ہے اور نہ کوئی کراسکتا ہے‘ ہاں صرف ایک ہستی ہے وہ صحابی جنات ہیں‘ جنات کا مردود سے مردود شخص حتیٰ کہ کافر تک بھی صحابی جنات کو بہت زیادہ مانتا ہے۔ روح کا نیاانکشاف اور پرانی جنگ: اس روح نے ایک نیا انکشاف کیا کہنے لگے: ابھی چند ماہ پہلے ہمارے قبرستان میں ایک بہت پرانی جنگ کا فیصلہ ہوا ‘جنات کا ہر گروہ اپنے کو حق پر کہتا تھا لیکن کوئی بھی ایک دوسرے کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا ‘بے شمار جنات اس جنگ میں مرگئے تھے اور بے شمار زخمی سسک رہے تھے۔ گھر اجڑ گئے‘ بچے یتیم ہوگئے‘ قافلے لٹ گئے‘ زندگیاں ویران ہوگئیں اور زندگیوں میں سوائے سسکنے سلگنے اور آہیں بھرنے کے کچھ نہ رہا لیکن ان کی جنگ ختم نہیں ہورہی تھی ۔آلِ رسولﷺ کی واقعہ کربلا میں مدد کرنے والی ہستی: آخر کار ایک ہستی شام سے تشریف لائی‘ ان کا نام شیخ ابوذر خیاطی تھا۔ یہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے واقعہ کربلا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ‘آلِ رسول ﷺ کی مدد کی‘ ان کے غم میں شریک ہوئے‘ ان کیلئے آنسو بہائے اپنا گھرانہ سارا ان کی مدد اور امداد کیلئے پیش کیا۔ حتیٰ کہ بعد از قتال واقعہ کربلا کے شہدا کو محفوظ کرنے اور ان کو بے حرمتی سے بچانے کیلئے بھی انہوں نے بہت زیادہ عظیم کردار ادا کیا۔جنات کی جنگ ختم نہیں ہورہی تھی ‘شیخ خیاطی بلائے گئے‘ وہ تشریف لائے‘ ایک خوبصورت نورانی چہرے والے‘ صدیوں پرانے بزرگ۔ جو سارا سال روزہ میں رہتےہیں اور رات بھر قیام کرتےہیں ‘صرف رات کا تھوڑا حصہ آرام اور دن کو دوپہر کا قیلولہ فرماتے ہیں باقی تمام وقت ان کا ذکر‘ اذکار‘ تلاوت‘ تسبیحات اور مخلوق کی خدمت میں صرف ہوتا ہے۔ مخلوق کی خدمت کیسے؟جب مخلوق کی خدمت کی بات سنی تو میں جنتی روح کی طرف متوجہ ہوا کہ مخلوق کی خدمت یہ کیسےکرتےہیں؟ تو فرمانے لگے: یتیم‘ مساکین‘ غرباء اور بے سہارا لوگوں کو ہر پل یہ تلاش کرتے رہتےہیں اور جب بے سہارا لوگ انہیں ملتے ہیں تو ان کو رزق، دولت، مال، صحت، رشتوں، بیماریوں، تکالیف، دکھوں، مشکلات، مسائل اور پریشانیوں میں کسی نہ کسی انداز میں مدد کا ذریعہ بنتے ہیں اور خوب جی بھر کے مدد کرتے ہیں۔ ان کی طبیعت میں شفقت محبت اور رحمت بھری ہوئی ہے اور ان کے مزاج میں کریمانہ انداز بہت زیادہ ہے۔ انہیں کچھ جنات نے ہمارے قبرستان میں بلایا اوریہ تشریف لائے جس دن وہ آئے تمام قبرستان والے بہت خوش تھے اور تمام قبرستان ان کی زیارت کرنے گیا۔وہ آئے اور ہرطرف خوشبو پھیل گئی: ان سے ملاقات ہوئی ‘وہ بہت عظیم جن تھے ان کے آتے ہی تمام قبرستان میں خوشبو پھیل گئی اور راحت اور مسرت کا انوکھا انداز ان کے ساتھ تھا۔ انہوں نے تمام گروہ اکٹھے کیے‘ مختصر مختصر ان کی بات سنی نامعلوم کیا ان کے پاس راز تھا کہ انہوں نے تمام کو اکٹھا کیا ‘صلح کرائی ‘گلے ملوایا حتیٰ کہ اسی دن بیٹھے بیٹھے انہوں نے ستر سے زائد رشتے اور نکاح کیے اور انہی کو آپس میں ملا کر کیے‘ مخالفین کی آپس میں رشتہ داریاں کروا دیں۔ شیخ خیاطی نے سب کو قریب کردیا:یہ منظر اس وقت دیکھنے کے قابل تھا ‘وہ مخالفین جنہوں نے ایک دوسرے کی جان ،مال اور سکون کو برباد کیا‘وہی زارو قطار رو رہے تھے۔ شیخ خیاطی نے انہیں اتنا قریب کردیا اور اتنا ان میں پیار ومحبت بھر دیا کہ خود ہمارے لیے وہ قابل رشک بن گئے حالانکہ اس سے پہلے وہی لوگ تھے جو ہمارے لیے قابل نفرت تھے۔90 دن تک عذاب سے راحت: شیخ خیاطی جاتے ہوئے بہت زیادہ دعا کرکے گئے ان کی دعا سے قبرستان میں نوے دن تک سخت سے سخت عذاب پانے والوں کو راحت ملی اور جن کا عذاب تھوڑا تھا انہیں ہمیشہ کیلئے نجات ملی اور بے شمار لوگوں کی بخشش ہوئی‘ ان کا آنا ہمارے لیے بہت زیادہ خیرو برکت کا ذریعہ بنا‘ میں جنتی روحوں کی باتیں سن رہا تھا اور جنتی روحیں مجھے بار بار دیکھ رہی تھیں اور میں حیران ہوا اب مجھے پریشانی اس بات کی ہوئی کہ وہ فیصلہ تو شیخ خیاطی نے کرا ہی دیا یہ ابھی جو دھماکہ ہوا یاخدایا اس جھگڑے کا کیا بنے گا؟ اور اس مشکل کا کیا بنے گا؟میرے جی میں آیا قبرستان چھوڑ دوں: میں انہی سوچوں میں تھا کہ بہت زیادہ چیخ و پکار کی آواز اور ایسی آواز جیسے سخت آندھی چلتی ہے اور سخت آندھی چلنے میں جوآواز آتی ہے اس سے بھی زیادہ چنگھاڑ کی شکل میں آوازیں آنا شروع ہوگئیں مجھے اور زیادہ حیرت ہوئی کہ آخر یہ کیا بنے گا؟ اور یہ انداز کب اور کتنا عرصہ چلے گا میرے جی میں تھا کہ میں واپس چلا آؤں اور قبرستان چھوڑ دوں۔ مجھے اکتاہٹ ہونا شروع ہوگئی، میری اکتاہٹ کو تمام جنتی روحوں نے بھانپ لیا اور کہنے لگے کہ آپ نہ جائیں اس کا حل ہمارے پاس موجود ہے جب بھی ایسا ہوتا ہے ہم سب اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور اللہ پاک ان کے دل میں رحم ڈال دیتا ہے۔ناقابل یقین اور اعتبار سے خالی واقعات: قارئین! میں آپ کے سامنے بعض جنات کی دنیا کے ایسے واقعات بیان کرتا ہوں جو بظاہر ناقابل یقین اور اعتبار سے خالی ہوتے ہیں میں نے پہلے دن ہی کالم شروع کرتے ہی آپ سے ایک بات کہی تھی کہ اگر آپ یہ پڑھتے ہیں تو اس کیلئے بہت بڑے حلم‘ حوصلے کی اشد ضرورت ہے بعض اوقات بعض واقعات ایسے ہوتےہیں جن واقعات کو انسان بظاہر جھوٹ یا دروغ گوئی محسوس کرتا ہے لیکن وہی واقعہ آنے والی زندگی میںیا تو پیش آجاتے ہیں یا پھر ایسے لوگوں سے سننے کو مل جاتے ہیں جن پر ہمیں اعتماد ہوتا ہے یا ہمارے قریبی عزیز یا دوست ہوتےہیں۔ پیدائشی دوست کو دھوکہ فریب سمجھنے والا: ‘ جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اس سےکچھ عرصہ پہلے ایک صاحب میرے پاس آئے‘ مجھ سے کہنے لگے میں کتنا عرصہ ایک جستجو میں رہا کہ یہ جنات کا پیدائشی دوست دھوکہ، فریب، جھوٹ، بازاری باتیں یا حقیقت؟ اس سلسلے میں‘ میں نے کتابوں میں موجود مسنون استخارے کی دعا پڑھنی شروع کردی اور نامعلوم کتنی پڑھی سینکڑوں یا ہزاروں مجھے خبر نہیں۔ بس میرے اندر ایک بے چینی تھی‘ بے کلی‘ بے قراری تھی اور میرے دل میں ایک جستجو تھی کہ کاش مجھے حقیقت کی خبر ہوجائے! میں پڑھتا رہا‘ پڑھتے پڑھتے آخر کار ایک دن میں بیٹھا درودپاک کی تسبیح پڑھ رہا تھا تو تسبیح پڑھتے پڑھتے میرے ہاتھ سے تسبیح گرگئی اور تسبیح کے تمام دانے بکھر گئے اس کا دھاگہ ٹوٹ گیا۔ میں حیرت سے یہ باتیں دیکھ رہا تھا میرے اعصاب سن لیکن آنکھیں اور دل بیدار۔ تھوڑی ہی دیر میں میں نے دیکھا ایک ہوا اڑی اور اس ہوا کے ساتھ پتے‘ تنکے‘ دھول‘ مٹی لیکن اس کے بعد ہوا تھم گئی‘ اور بہت سے نورانی چہرے میرے قریب آکر بیٹھ گئے۔ تمام جنات میرے سامنے:میں یکایک سہم گیا اور خوفزدہ ہوگیا لیکن وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہے تھے ان سب نے اپنے نام بتائے اور یہ وہی نام تھے جو میں ’’جنات کا پیدائشی دوست‘‘ میں پڑھتا تھا۔ مجھ سے فرمانے لگے آپ نے علامہ صاحب سےجو پڑھا ہےاللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انہیں جو نوازا ہے وہ آپ گمان نہیں کرسکتے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جتنا عطا کیا ہے وہ آپ سوچ نہیں سکتے۔ یہ تو انہوں نے اپنے وہ علم جو اللہ نے انہیں دیا ہے اس کا سواں حصہ بھی نہیں کھولا اگر وہ مزید کچھ کھول دیں تونامعلوم لوگ انہیں کن القابات سے اور کن الزامات سے نوازیں۔بھوک پیاس مٹانے والاپتھر: پھر انہوں نے مجھے ایک پتھر دیا اور پتھر دےکر کہنے لگے: جس وقت بھوک لگے منہ میں ڈال کر چوستے رہا کرو‘ بھوک ختم ہوجائے گی۔ دیکھنا اس کو نگلنا نہیں اور جس وقت پیاس لگے تو اس وقت اس کو منہ میں ڈالو چوستے چوستے پیاس ختم ہوجائے گی۔ کوئی بیماری ہو‘ تکلیف ہو‘ دکھ ہو‘ الجھن ہو یا کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہو اس کو ہاتھ میں لے کر صرف گیارہ بار سورۂ مزمل پڑھنا، تمہارا مسئلہ اسی وقت حل ہوجائے گا۔ یہ تم نے بہت وجدان‘ بے کلی‘ بے قراری اور کیفیت کے ساتھ جو پڑھا تھا ‘یہ اس کا صلہ ہے۔وادی جنات کا انوکھا تحفہ: ہم ہر کسی کے پاس نہیں آتے، لیکن تیری بے چینی‘ بے کلی‘ بے قراری نے ہمیں تڑپا دیا اور پھر تو نے ہمارے دوست علامہ صاحب پر بے یقینی اور بے اعتمادی کی‘ جس کو برداشت نہ کرسکے۔ بے یقینی اور بے اعتمادی کرنے والے تو اور بہت ہیں لیکن تجھ جیسے استخارے کی دعا کو بے چینی‘ بے قراری اور سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں پڑھنے والے بہت کم ہیں بلکہ نہیں ہیں۔ جا تجھے ہم نے یہ پتھر دیا ہے یہ کائنات کے رازوں میں سے ایک راز ہے‘ یہ جنات کی وادی کا ایک انوکھا تحفہ ہے یہ پتھر بڑے بڑے اولیاء جنات کے پاس رہا ہے اور انہوں نے اس کو بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔ تیرے اس مسنون عمل کی برکت ہے کہ ہم نے آتے ہوئے سوچا کہ آخر کون سا تحفہ اس کے پاس لے جائیں تو ہمیں یہی تحفہ نظر آیا اور اس تحفے کو ہم لے کر تیرے پاس آئے ہیں اور تجھے اس تحفے کی برکتوں سےنواز رہے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں انہوں نے میری ٹوٹی تسبیح کےموتی جوڑنا شروع کردئیے اور میں حیرت سے سب کچھ دیکھ رہا تھا میرے ہاتھ پاؤں شل تھے میری آنکھیں پھٹی اور کھلی ہوئی تھیں میرا دماغ بیدار‘ میرا دل بھی بیدار اور میرے حواس بھی بیدار تھے اور یہ سب کچھ اپنی کھلی اور سچی آنکھوں سےدیکھ رہا تھا وہ جنات جاتے جاتے مجھے پھونک مار کر گئے اور جاتے ہوئے کہہ کر گئے تو خوش قسمت انسان ہے تجھ سے ہم ملنے آئے ہیں‘ ورنہ ہمارا تعلق اس دنیا میں چند بزرگوں اور صرف علامہ صاحب کے ساتھ ہے اور حضرت علامہ ہی کی وجہ سے ہماری تسبیح‘ ذکر‘ دعائیں‘ وظیفے اور روحانی کمالات پورے عالم تک پہنچے ہیں۔ وہ شخص وہی پتھر میرے پاس لایا‘ میں نے اسے آزمایا، میں نے منہ میں ڈالا تو اس وقت مجھے کچھ پیاس محسوس ہورہی تھی‘ مجھے احساس ہوا کہ میں نے ایک انتہائی میٹھا ٹھنڈا مشروب پیا اور میں سیر ہوگیا۔ پھر کچھ دن پتھر میں نے اپنے پاس رکھا مجھے جب بھی پیاس اور بھوک کا احساس ہوتا تھا میں اس پتھر کو منہ میں رکھ لیتا۔نہایت چکنا‘ خوشبودار اور ملائم پتھر:قارئین! آپ کو میں کیسے یقین دلاؤں‘ وہ پتھر کیا تھا شاید جنتی پتھر ہوگا؟ کہ بس اس کے منہ میں رکھتے ہی وہ ہلکا سرخی مائل سفید پتھر ہے جو بغیر ٹوٹے بادام کے برابر ہے۔ نہایت چکنا، خوشبودار ملائم پتھر ہے۔ وہ صاحب میرے پاس جب یہ پتھر لائے تو زارو قطار رو رہے تھے اور بار بار معافی اور معذرت کررہے تھے کہ مجھے معاف کردیں۔ میں نے آپ کی شان میں بہت زیادہ گستاخیاں کیں لیکن مجھے مسنون استخارے کی دعا بچا گئی‘ ورنہ نامعلوم میرا انجام کیا ہوتا؟ کیونکہ جو اللہ کے دوستوں کو برا بھلا کہتا ہے‘ بدگمانی اور شک کرتا ہے وہ بہت نقصان اور گھاٹے پاتا ہے۔ مجھے شکر ہے وہ بار بار یہی لفظ کہے جارہا تھا کہ یہ مسنون دعا اور عمل بچا گئے اور میرے اوپر اللہ کا خاص فضل انعام اور احسان ہوا کہ میں بچ گیا اور مجھے نجات مل گئی۔ ہر سانس پرسکون اور پرکیف: قارئین! یہ دنیا بہت انوکھی ہے اور یہ دنیا بہت عجیب ہے‘ اس دنیا میں جو آگیا اس کو موجودہ دنیا خود ناگوار لگتی ہے اور جس نے اس روحانی دنیا کو پالیا اس کے دل میں اگر دکھ غم بھی ہے تو مطمئن ہوگا۔ اس کا من تسلی ہمیشہ پاتا رہےگا اس کی طبیعت ہر سانس پرسکون اور پرکیف رہے گی۔ آپ خوش قسمت ہیں عبقری کےذریعے علامہ صاحب کےکمالات‘ اعمال‘ کرشمات اور کرامات سے استفادہ کررہے ہیں جس کو ملا
ہے یقین سے ملا ہے۔ یَاقَہَّارُ کے جتنے زیادہ کمالات لوگوں پرکھلے ہیں شاید پوری انسانیت میں اس اسم کےاور کبھی بھی اتنے کمالات نہ کھلے ہوں اور جتنی زیادہ برکات اس نام کی کھلی ہیں اس نام کا آج تک اتنا کمال نہیں کھلا ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی جتنے وظائف جتنے اذکار اور جتنی تسبیحات اور جتنے وظیفے اس نام کے کیے گئے ہیں وہ کبھی بھی پہلے نہیں کیے گئے۔ یہ روح کی دنیا‘ جنات کی دنیا‘ لاہوت کی دنیا‘ مالاکوت کی دنیا بہت انوکھی دنیا ہے اگر آپ ساری دنیا ہی چھوڑ دیں صرف روح کی دنیا پر چند لمحے غور کرلیا کریں اور روح کی دنیا کو حاصل کرنے کیلئے اپنی طبیعت کو مائل کرلیں تو روح کی دنیا ایک سچی دنیا ہے روح کی دنیاایک انوکھی ا ور پیاری دنیا ہےکیوں کہ جسموں کو موت ہے‘ روحوں کو موت نہیں، اجسام کو فنا ہے اور روحوں کو فنا نہیں۔ روح ازل ہے ابد تک رہےگی۔ اس لیے اس کی دنیا میں سچ ہے دھوکہ نہیں، خوشبو ہے بدبو نہیں، اعتماد ہے خیانت نہیں، زندگی ہے موت نہیں، آئیے ہم روح کی دنیا کو پانے کیلئے اپنے احساسات اپنی کیفیات کو بیدار کریں یقین کی دنیا ہی روح کی دنیا کے قریب کرسکتی ہے‘ بے یقین شخص روح کی دنیا کے کبھی قریب نہیں آسکتا اور بے اعتماد شخص روح کی دنیا کو کبھی بھی نہیں پاسکتا۔ سچا دل ‘سچی آنکھیں ‘سچی زبان ‘سچا جذبہ ‘سچا وجدان ‘سچی تڑپ اور سچا ولولہ اور سچے اٹھنےوالے قدم اور سچی سانسیں روح کی دنیا کو پانے میں بہت مددگار ہوتی ہے اور روح کی دنیا کھلتی ہی صرف ان لوگوں پر ہے جن کے اندر یہ سچائی بھرا جہان ہو۔ دھوکہ، فریب، جھوٹ، دغا یہ جہان کبھی روح کی دنیا کا ساتھی نہیں بن سکتا۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں