کچھ بچے والدین کی طرف سے زبردستی کرنے پر ہوم ورک کرنے تو بیٹھ جاتے ہیں‘ مگر بار بار اٹھ کر ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگتے ہیں۔ اس کا علاج پڑھائی کے دوران آرام کے وقفے ہیں۔ پڑھائی لکھائی بلکہ کسی بھی ذہنی کام کے دوران آرام کے وقفے لازمی ہیں
بچوں میں خوداعتمادی کی کمی کی وجہ!
والدین جب اپنے بچوں سے شفقت کا معاملہ کرتے ہیں تو بچوں کو اس سے بڑھ کر کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے والدین کو خوش رکھیں اور کسی معاملے میں شکایت کا موقع نہ دیں ایسے بچوں میں فرمانبرداری اور خوداعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اس کے برعکس وہ والدین جو اپنے بچوں سےسختی کامعاملہ کرتےہیں تو ایسی صورت حال میں بچے باغی ہوجاتے ہیں اور خوب بدتمیزی کرتے ہیں‘ بچوں پر سختی صرف ان کی اصلاح کے لیے کرنی چاہیے۔ بے جاروک ٹوک بچوں کو ضدی اور ہٹ دھرم بنادیتی ہے۔ یہی پودے جب تناور درخت بن جاتے ہیں تو ان کو سیدھا کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ والدین اس بات پر توجہ دیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ باپ معمولی بات پربچوں کے سامنےشور شرابا کرنا شروع کردیتا ہے یا بچوں کی غلطی پر بجائے نرمی اور اصلاح سے کام لینے کےانہیں سب کے سامنے خوب بے عزت کیا جاتا ہے‘ اس طرح بچے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ احساس محرومی بچوں میں خوداعتمادی کے پرخچے اڑا دیتا ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بچے سکولوں میں صرف ڈر کی وجہ سے سبق بھول جاتے ہیں تو اس میں ان معصوم بچے بچیوں کا کوئی قصور نہیں ہوتا کیونکہ سبق سناتے وقت ان کامعصوم ذہن صرف اس بات میں اٹکا ہوتا ہےکہ جسے والدین معمولی غلطی پر سختی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کیا معلوم یہ اساتذہ بھی ایسے ہی کریں۔ ایک خوف ہوتا ہے جو ان کے دلوں میں بھرا ہوتا ہے‘ بہت سے ایسے بچے غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں لیکن خوداعتمادی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی صلاحیتوں کو یوں زنگ لگ جاتا ہے‘ ایسے بچے بچیاں جب احساس محرومی کے سائے تلے پلتے بڑھتے ہیں تو یہ احساس ان کی زندگی کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔ وہ کبھی کھل کربات نہیں کرسکتے۔ دور حاضر میں بچوں میں خوداعتمادی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے ’’والدین کے آپس میں مزاج نہ ملنا ہے‘‘ والدین جب بچوں کے سامنے جھگڑتے ہیں تو بچوں کے بچپن سے ہی دلوں میں خوف بھرجاتا ہے وہ گھبرا جاتے ہیں‘ سکولوں میں بہت
سے ایسے بچے شامل ہیں جن سے اساتذہ کی صرف یہی شکایت ہوتی ہے‘ بچے بدتمیز ہیں‘نافرمان ہیں اس کی بڑی وجہ یہی ہے جب ٹیچرز بچوں کو الٹے سیدھے اور بُرےکاموں سے منع کرتے ہیں تو بچے سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ جب والدین ہمیں غلط کاموں سے نہیں روکتے جب وہ ہمارے خیرخواہ نہیں تو کوئی دوسرا کیسے ہمارا خیرخواہ ہوسکتا ہے؟ یہ بات سوچے سمجھے بغیر کہ والدین اور استاد میں کیا فرق ہے؟ والدین ہمیں آسمان سے زمین پرلاتے ہیں لیکن استاد زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے مگرجب ان پر حقیقت ظاہر ہوتی ہے وہ غلطی تسلیم کرتے ہوئے دل سے معافی مانگ لیتےہیں پرحقیقت میں ایک ایسا احساس ندامت پیدا ہوجاتا ہے جو ان کےدلوں سے کبھی نہیں جاتا اور وہ خود کو نظریں ملانے کے قابل نہیں سمجھتے۔ میں تمام والدین سے درخواست کرتی ہوں اپنے معصوم بچوں خاص طورپر بیٹیوں کو کبھی نہ دھتکاریں‘ کبھی انہیں تنہا نہ چھوڑیں‘ یہ تو اللہ کی رحمت ہوتی ہے‘ ان سے نفرت نہ کریں۔ وہ بہت معصوم ہوتی ہیں‘ بڑی مظلوم ہوتی ہیں۔ آپ والدین علیحدگی جیسا بڑا فیصلہ کرتے وقت بچوں کے مستقبل کے بارے میں ضرور سوچا کریں کیونکہ آپ کا ایک غلط/صحیح فیصلہ بچے کے مستقبل کو بگاڑ/ بنا سکتا ہے۔
(زیتون شہناز‘ چشتیاں)
بچوں کے لیے ’’گھر کاکام‘‘ اور آپ
والدین کیلئے توشہ خاص
ایک مغربی ماہر تعلیم کے مطابق گھر کاکام دینے کا مقصد بچے میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ تعلیم کا عمل محض سکول تک محدود نہیں بلکہ گھر کے اندر بھی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ سرے سے والدین کا درد سر ہے ہی نہیں‘ ان کا کام صرف نگرانی ہے اور اصل کام بچے کو تنہا مکمل کرنے دیا جائے۔ کچھ بچے والدین کی طرف سے زبردستی کرنے پر ہوم ورک کرنے تو بیٹھ جاتے ہیں‘ مگر بار بار اٹھ کر ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگتے ہیں۔ اس کا علاج پڑھائی کے دوران آرام کے وقفے ہیں۔ پڑھائی لکھائی بلکہ کسی بھی ذہنی کام کے دوران آرام کے وقفے لازمی ہیں‘ کیونکہ ایک کام پر مسلسل توجہ دینے کے بعد دماغ کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ پڑھائی لکھائی کے تیس منٹ بعد پانچ منٹ آرام یا کچھ کھاپی لینے سے حیران کن فائدہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب یہی وقفہ طویل ہوجائے یا بار بار کیا جانے لگے تو بچے کی توجہ پڑھائی پر سے ہٹ کر مکمل طور پر تفریحات کی جانب مائل ہوجاتی ہے۔ کچھ بچے گھر کے کام سے جان چھڑانے کے لیے جھوٹ بھی بول دیتے ہیں اور جب ان کے والدین ان سے اس بارے میں دریافت کریں تو بڑی صفائی سے جواب ملتا ہے ’’آج گھرکاکام نہیں ملا‘‘ اس لیے والدین کو بطور خاص بچوں کی ہوم ورک ڈائری دیکھنی چاہیے تاکہ اس بات کا اندازہ کیا جاسکے کہ ان کے بچے کو کتنا کام ملا ہے۔ اکثر اوقات بچے صرف اس لیے گھر کاکام نہیں کرتے کہ انہیں سکول میں پڑھایا جانے والا سبق سمجھ میں نہیں آیا ہوتا۔ حالانکہ گھر کے کام کی تکمیل ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اساتذہ اور والدین بچے کے نصاب پر دسترس کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ والدین کیلئے بھی یہ لازمی ہے کہ وہ بچے کیلئے گھر کے کام کی اہمیت سمجھیں۔ جو بچہ سکول سے گھر آتا ہے تو اس پر اس سلسلے میں دو ذمے داریاں ہوتی ہیں: اول تو یہ کہ اسے ہوم ورک کرنا ہے اور دوم یہ کام اسے اپنے استاد کی مدد کے بغیر کرنا ہے۔ اس عمل میں بچہ’خود تنظیمی‘ سیکھتا ہے۔
چندکارگر ترکیبیں: اگر آپ والدین کی حیثیت سے یہ محسوس کریں کہ گھر کاکام کرنے کے سلسلے میں بچے کو آپ کی ضرورت ہے اور بچہ توجہ کے ساتھ گھر کاکام نہیں کررہا تو درج ذیل تدابیر اختیار کیجئے۔گھر کاکام کرنے کیلئے بچے کو کافی وقت دینا چاہیے اگر آپ یہ محسوس کریں کہ اسے ابھی بہت سے کام کرنے ہیں تو اس کو ان کاموں کی فکر سے آزاد کرکے صرف گھر کے کام پر توجہ مرکوز کرنے کو کہیے۔ بچے کو اُس کی من پسند جگہ پر بٹھا کر لکھائی پڑھائی کرانے سے بھی بچہ گھر کے کام میں دلچسپی لیتا ہے۔ کچھ بچے کرسی میز پر پڑھنا پسند کرتے ہیں اور کچھ بچوں کو زمین پر بچھے قالین پر بیٹھ کر گھر کے کام کرنا اچھا لگتا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ پڑھائی لکھائی کی جگہ گھر کے کسی ایسے گوشے میں ہو جہاں دیگر افراد خانہ کی آواز نہ پہنچ سکے اور ٹیلی ویژن بھی نہ ہو۔والدین کو بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ہی اپنی پڑھائی لکھائی کاکام بھی کرلینا چاہیے‘ دفتر کاکام ہے‘ گھر کا بجٹ ترتیب دینا ہے یا کوئی کتاب زیرمطالعہ ہے۔ یہ سب کام ایسے ہیں جو بچے کے ساتھ بیٹھ کر نمٹائے جاسکتے ہیں۔ یوں بچوں میں بھی شوق اور یکسوئی پیدا ہوتی ہے۔ یادرکھئے! آپ کا بچہ وہی کام شوق سے کرے گا جو وہ آپ کو بھی کرتے ہوئے دیکھے گا۔(عالیہ بیگم‘ لاہور)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں