مدرسہ سے چلے وہ دونوں نوجوان گاڑی کے قریب آئے‘ کہا مفتی صاحب نے حکم دیا ہے کہ ہم آپ سے اجازت لے کر آپ کی گاڑی میں بیٹھ کر آپ کے ساتھ کچھ وقت گزاریں‘ اس حقیر نے کہا:شوق سے تشریف لائیے‘ دو تین منٹ کے سکوت کے بعد ایک نوجوان بولا: ہم آپ سے کوئی سوال کرسکتے ہیں؟میں نے کہا: ضرور کیوں نہیں! بولا: اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ہم سے وعدہ کیا ہے مجھ سے سوال کرو میں پورا کروں گا تو کیا ہم اللہ سے جو خواہش ہو اس کا سوال کرسکتے ہیں؟ اس حقیر نے عرض کیا ہاں ضرور! بس عادت اللہ کے خلاف سوال نہیں کرنا چاہئے۔ وہ بولے: عادت اللہ کےخلاف تو نہیں بس یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی محمدﷺ جنت میں تشریف لے جائیں گے‘ اونٹنی پر سوار ہوکر تشریف لے جائیں گے آپﷺ کی نکیل پکڑنے والا تو طے ہے مگر پیچھے بیٹھنے والا تو طے نہیں ہے اگر ہم اللہ سے دعا کریں کہ ہمارے نبی ﷺ جب جنت میں تشریف لے جائیں تو اللہ میرے لیے یہ مقدر کردیں کہ آپ ﷺ فرمائیں کہ آبیٹے عبداللہ! تو میرے پیچھے سوار ہوجاؤ توکیا اللہ یہ بات پوری فرمادیں گے؟ میں نے عرض کیا‘ بالکل دعا کرسکتے ہو۔ پھر بولا اچھا جس سے بہت محبت ہو‘ آدمی اس کے ساتھ جنت میں رہے گا‘ تو انشاء اللہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کے قدموں میں ہمیں جنت میں جگہ ملے گی نا؟ میں نے عرض کیا جب محبت ہے تو ضرور ملے گی‘ اچھا حضرت! ہمارے پیارے نبی ﷺ وہاں ہم سے کچھ خدمت بھی لے لیں گے نا؟ عرض کیا: یہ جو دعوت کاکام کررہے ہو اس خدمت کے بدلہ میں جنت میں ہر خواہش انشاء اللہ پوری ہوگی۔ یہ دونوں نوجوان مندروں کے شہر جموں کے برہمن خاندان کے ہیں جنہیں چند سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ہدایت عطا فرمائی ہے۔ دو گھنٹے اس حقیر کے ساتھ رہے وہ بس جنت‘ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ذکر کرتے رہے۔ مجھے خیال آیا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں یہ پڑھتے آئے ہیں کہ وہ جسم سے دنیا میں رہتے تھے مگر دل و دماغ سے ہروقت آخرت میں رہتے تھے اور جنت ودوزخ کا یقین اس طرح کا تھا کہ آنکھوں سے دیکھ لیں تو کوئی اضافہ نہ ہو۔ ہم بے جان مسلمانوں اور پھسپھسے ایمان والوں میں یہ نیا خون بالکل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یاد تازہ کررہا ہے۔ بار بار وہ عاشقانہ طور پر معلوم کرتے کہ کیا ہمارے نبی ﷺ کو علم ہوگا کہ ہم ان کو کس طرح چاہتے ہیں؟ ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے؟ ایک بولا حضرت! میرے والد میرے بھائی دونوں مجھے نیچے لٹاتے ہیں‘ ایک طرف سے پاؤں میں دباتا ہوں دوسری طرف سے بڑے بھائی میرے سینہ پر پاؤں رکھ کر میرے نبی ﷺ کی سنت (ڈاڑھی) کے ساتھ ظلم کرتے ہیں مجھے رات کو تہجد پڑھتے دیکھتے ہیں تو کوئی چیز سر پر دے مارتے ہیں‘ میں تو صرف آپ کے حکم کی وجہ سے گھر رہتا ہوں‘ دعوت ہمارے نبی ﷺ کی سب سے بڑی سنت ہے‘ ورنہ میرے لیے میرا گھر دوزخ ہے جہاں میرے نبی ﷺ کی سنت کے مطابق زندگی گزارنا نصیب نہ ہو‘ تھوڑی دیر میں بولا‘ یہ تو سنا ہے کہ بزرگوں سے بڑے درجہ کی تمنا اور دعا نہیں کرنی چاہئے مگر پیارے نبی ﷺ کی محبت میں آپ ﷺ کی نقل تو کرسکتے ہیں‘ اگر میں اپنے دو دانت نکلوادوں تو کیسا ہے؟ میرا دل بہت چاہتا ہے‘ ہم اتنا تو کرسکتے ہیں۔ فلائٹ کا وقت قریب تھا مجھے پکڑ کر کمرے میں لے گیا اور دروازہ بند کرکے بولا! پیارے نبی ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اس طرح کرتے تھے‘ آپ پہلے ہمارے لیے دعا کیجئے میں آمین کہوں‘ پھر میں دعا کروں گا آپ آمین کہیں۔ میں نے کہا بتاؤ کیا دعا کروں؟ بولا یہ دعا کیجئے اللہ تعالیٰ مجھے ایسا نورانی مسلمان بنادے کہ جو مجھے دیکھ لے وہ مسلمان ہوجائے۔ میں نے دعا کی وہ داعی بن جائے‘ دل کی گہرائی سے آمین کہہ کر سبحان اللہ کہا‘ پھر دیر تک الحاح وزاری کے ساتھ دعا کرتا رہا میرے اللہ اپنی ایسی محبت‘ ایسا عشق‘ ایسی دیوانگی عطا فرمادے کہ بس آپ کے علاوہ کوئی دکھائی نہ دے۔ان دونوں نوجوانوں کے ساتھ کچھ وقت گزار کر ایسا لگا جیسے ایمان پر آب آگئی ہو‘ پرانا خون جب مردہ اور خراب ہوجائے تو اس کو نئی زندگی‘ نیا خون ہی عطا کرسکتا ہے۔ اسلام کے دسترخوان کے ان نووارد
مہمانوں میں سے ہر ایک کا حال ایک سے بڑھ کر ایک دکھائی دیتا ہے‘ ہم پرانے مسلمان جہاں مرکزی سنتوں کو اپنی غفلت کانشانہ بناتے ہیں وہاں ایک ایک سنت کاجذبہ رکھنے والے دنیا کو نبی رحمۃ اللعالمین ﷺ کی سنتوں کے سایہ میں لانے والے روز آتے جارہے ہیں۔ کاش! ہم نگاہ عبرت کھول کر اس سے سبق حاصل کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں