یہ غالباً 1960 ءکا وا قعہ ہے ، ہما را ایک سکول فیلو ، جو کہ مجھ سے ایک سال آگے تھا، میرے ایک کلا س فیلو کا دوست تھا، جس کا نام سر فرا ز خان تھا ۔ میٹرک کرنے کے بعد سرفرا ز خان ایک بھٹہ پر ( اینٹو ں کے بھٹہ پر) منشی بھر تی ہو گیا تھا ۔ بڑا پیار ا ، ہمدرد اور ہر دلعزیز قسم کا شخص تھا ۔
انہی کی زبانی سنئیے:
بھٹہ پر جو کہ اینٹیں پک چکی تھیں اب ان اینٹوں کو مزدور نکال رہے تھے کہ اس بھٹے پر کا فی گہما گہمی ہو گئی۔ کچھ اینٹیں ٹرکو ں میں اور کچھ سٹاک میں رکھی جا رہی تھیں۔ بھٹے پر پتہ نہیں کہا ں سے ایک بلی کا بچہ آگیاتھا ۔ اب وہ بچہ لو گوں سے مانو س ہو گیا تھا ۔سب مزدور اور کار کن اس بچے کی شرارتو ں اور کھیل کو د سے مشغول اور مسرور ہوتے تھے۔ بلی کے بچے کے لیے کوئی دودھ لا رہا ہے اور کوئی چھچھڑے ۔ سب ہی اس بچے کی حرکتو ں سے خوش ہو تے رہتے تھے ۔ اسی تر تیب میں اینٹیں ختم ہو گئیں اور بھٹہ بالکل خالی ہوگیا۔ اب دوسرا مر حلہ یعنی دوبا رہ کچی اینٹو ں کی بھرائی شروع ہو گئی۔ اب بچہ اپنی شرارتو ں اور عجیب و غریب حرکتو ں سے سب کی توجہ کا مر کز بنا ہو اتھا اور نیچے کچی اینٹو ں کی پھڑیوں ( قطا رو ں ) میں بھی گھس جا تا اور مزدور اسے بھگا نے میں بھی مصروف نظر آتے۔جیسا کہ بھٹھو ں میں ہو تا ہے کہ مٹی ڈال کر اوپر سے اینٹیں بند کر دیجا تی ہیں اور کوئلہ اور آگ کے لیے تھوڑے تھوڑے فا صلے پر لوہے کے توے کی طرح کا گہرا سورا خ ہو تا ہے ۔ اس کو تھوڑے سے فاصلے پر سے اٹھانے کے لیے ان مزدوروں کے ہا تھ میں ایک لمبی سیخ یا کنڈے والا لمبا سریا ہو تا ہے جس سے اس توے کو اٹھا کر کوئلہ اس میں ساتھ ساتھ ڈالتے رہتے ہیں تا کہ سارے بھٹے کی اینٹیں پک جائیں ۔یہ سلسلہ کئی دن تک چلتا رہتا ہے ۔ اب آتے ہیں اس بلی کے بچے کی طر ف جو کہ اس وا قعہ کا مرکزی کر دار ہے ۔ بچہ کھیلتے کھیلتے اس بھٹے میں گھس گیا۔ لوگوں نے ہر طر ف دیکھا مگر بے سو د۔ آخر دو تین دن انتظار کے بعد بھٹہ بالکل بند کر دیا گیا اور آگ لگا دی گئی۔ تما م لوگ اس بچے کے لیے پریشان تھے ۔ نا گاہ اس بچے کی میا ﺅ ں میاﺅں کی آواز آنا شروع ہوئی مگر اب یہ تو بالکل نا ممکنا ت میں تھا کہ بھٹہ کھولا جا ئے اور اس کو با ہر لا یا جا ئے ۔یہ تو ممکن ہی نہیں تھا ۔ تمام لو گ اب مزید افسر دہ اور غمزدہ ہو گئے ۔ شا ید 15/20 دن آگ چلتی رہی اور پتہ نہیں کتنے دن اس بھٹے کو ٹھنڈا ہونے کے لیے انتظار کرنا پڑا اور پھر اینٹیں نکالنا شروع کر دی گئیں ۔اسی طرح آہستہ آہستہ اینٹیں نکالتے ایک ایسے مقام پر جب لو گ (مزدور ) پہنچے تو تقریباًایک ہز ار اینٹیں بالکل کچی تھیں اور ان میں سے بلّی کا بچہ میا ﺅ ں میا ﺅ ں کرتا باہر آگیا ۔ سب لو گو ں کے منہ سے بیک وقت سبحان اللہ ۔ سبحان اللہ کی آواز نکلی۔ سب لوگو ں کے چہرے خو شی سے دمکنے لگے ۔ کوئی دودھ لے آیا ،کوئی پانی اورکوئی روٹی ۔بلی کے بچے نے دودھ تھوڑا سا پیا اور پھر کھیلتے کھیلتے گرا اور ہمیشہ کے لیے خا مو ش ہو گیا۔ یہ اللہ جل شانہ‘کامعجزہ تھا کہ بلی کے بچے کو بچانے کے لیے بھٹہ کی آگ کو اس طرف بڑھنے سے روک دیا گیا ۔حیرانگی کی بات تو ہے ہی مگر جیسا کہ اللہ مہر با ن نے آگ کو روکے رکھا اس طر ح اس بچے کو خوراک بھی ملتی رہی ہو گی ۔ یقینا خوراک زندہ رہنے کے لیے لا زمی جز ہے ۔ جہا ں پراینٹیں کچی تھیں وہا ں سے وہ توا جہاں سے کوئلہ ڈالا جاتا تھا،موجو د تھا ۔ مگر اس کے ساتھ ہی کچی اینٹیں شروع ہوتی ہیں کہ عقل حیران ہوگئی ۔مگر وہ وا قعہ جو کہ قرآنِ عظیم نے بیا ن فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوةو السلام پر آگ گلزار ہو گئی۔اسی طر ح اللہ پا ک جو قادر مطلق ہے ایک بلی کے بچے کے لیے اپنا فضل فرما تا ہے تواُس پر اتنی بڑی آگ کو گلزار کر دیا ۔ سبحان اللہ ۔
بے خطر کو د پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل تو محوِ تماشہ ہے لب بام ابھی
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں