Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جنات کا پیدائشی دوست - حصہ چہارم

ماہنامہ عبقری - جولائی 2015ء

اچانک کشتی سمندرمیں دھنسنا شروع ہوگئی: پاس نہ کوئی انسان‘ نہ کوئی جن نہ کوئی فرشتہ نہ کائنات کی کوئی مخلوق۔ میں حیرت زدہ بیٹھا ہوا تھا اسی دوران مجھے محسوس ہوا کہ سمندر کا پانی سکڑ رہا ہے اور سمٹ رہا ہے اور کشتی آہستہ آہستہ نیچے دھنس رہی ہے‘ میں خاموشی سے بیٹھا منظر دیکھ رہا تھا مجھے اپنے اردگرد سمندر کے پانی کی دیواریں نظر آنا شروع ہوگئیںا ور کشتی آہستہ آہستہ نیچے اترنا شروع ہوگئی اور میں حیرت سے یہ سارا منظر دیکھتا رہا‘ میلوں نیچے کشتی چلی گئی۔ اس کے بعد ایک جگہ کشتی رک گئی اور کشتی رکنے کےبعد مجھے کچھ لوگ آئے نہ وہ انسان تھے نہ وہ جن تھے‘ نہ فرشتے۔میں حیران یہ میرا نام کیسے جانتے ہیں؟ وہ اترے اور انہوں نے مجھے میرے نام سے پکارا۔ میں حیران ہوا یہ میرا نام کیسے جانتے ہیں؟ میں ان کی بات سن کر نیچے اترا‘ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا میں نے سلام کا جواب دیا‘ اس کے بعد وہ مجھے لے کر چل پڑے۔شاید اگلے قدم پر منزل مل جائے:  ایک جگہ پہنچے تو وہاں سیڑھیاں تھیں میں سیڑھیوں سے نیچے اترتا گیا‘ سیڑھیاں بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں لیکن ہرسیڑھی میری حیرت کو اور میری حیرانگی کو بڑھارہی تھیں اور ہرسیڑھی میرے اندر ایک انوکھا جذبہ پیدا کررہی تھی کہ شایداگلے قدم پر منزل ملے‘ یا خدایا اگلے قدم پر کیا ہوگا؟ میں ہرسیڑھی کےساتھ اپنے قدم اٹھاتے سفرکررہا تھا چلتے چلتے ایک جگہ ہم رک گئے۔ سمندر کی تہہ میں ہزاروں سال پرانا نظام: وہاں ایک بہت بڑا لوہے کا گیٹ ایسے جیسے کہ بادشاہوں کے پرانے قلعے ہوتے تھے کھلا اور کچھ مخلوق سامنے آئی‘ میں اس مخلوق کے ساتھ آگے بڑھا‘ وہاں بہت پرانے پرانے قلعے تھے اور بہت بڑے قلعے تھے جو اپنی اصلی اور اچھی حالت میں موجود تھے۔ ان میں فوجیں تھیں‘ تلواریں تھیں‘ آج سے ہزاروں سال پرانا نظام تھا‘ نئے نظام کی وہاں صورت اور نقشہ بھی نظر نہ آرہا تھا۔ سب پرانا نظام تھا ان کےپاس تلواریں‘ تیر‘ نیزے ‘ڈھالیں اور زرہیں تھیں مگر وہ سب اپنی ڈیوٹی پر متعین تھے۔ میں ان فوجوں کے درمیان سے چلا جارہا تھا شاید وہ منظر مجھے دکھانے کیلئے اس طرف لے جایا گیا۔ سمندر کی تہہ میں موجود بادشاہ کا محل:چلتے چلتے ایک جگہ میں نے محسوس کیا کہ جیسے بادشاہ کا محل آگیا اور میں بادشاہ کے محل کی طرف لےجایا جارہا ہوں‘ جیسے میں بادشاہ کے محل کی طرف پہنچا تو ایک بہت بڑا گیٹ آیا‘ اس کا دروازہ کھلا اس کا دروازہ کھلنے کے بعد میں اس دروازے کے اندر گیا‘ وہاں مجھے ایک طرف لے جایا گیا اور غسل کا کہا گیا‘ میں نےٹھنڈے اور میٹھے پانی سے غسل کیا۔غسل کرنے کے بعد مجھے خاص عمدہ لباس پہنایا گیا‘میرے سر پر ایک چاندی کا تاج سجایا گیا اور میں سب کچھ خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔ہرطرف شیر اور ہر شیر کے ہاتھ میں تلوار: پھر میں آگے گیا ایک اور گیٹ آیا اس دوران مسلسل فوجیوں کے درمیان سے مجھے گزارا گیا پھر ایک اور گیٹ آیا وہ گیٹ کھلا اور میں اس کے اندر داخل ہوا جہاں ہرطرف شیر تھے اور ہر شیر کے ہاتھ میں تلوار تھی اور ایسے محسوس ہورہا تھا ہر شیر اپنی ڈیوٹی اور ذمہ داری پر متعین ہے۔  میں شیروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک منزل پر رواں دواں تھا‘ آگے شیروں کی فوجیں ختم ہوئیں تو مجھے پھر ایک گیٹ دکھائی دیا۔ ہاتھیوں کی فوج اورہرہاتھی پر عجیب الخلقت مخلوق:وہ گیٹ کھلوایا گیا تو آگے ہاتھیوں کی فوج تھی جس کے اوپر کچھ عجیب الخلقت لوگ بیٹھےتھے‘ ان کے ہاتھوں میں نیزے تھے‘ وہ ایک پورا لشکر تھا جس کے درمیان سے میں گزرتا گیاگزرتے گزرتے پھر میں آگے پہنچا تو پھر ایک گیٹ ملا، اس گیٹ کے درمیان میں ایک چھوٹا سا دروازہ تھا‘ بس وہ دروازہ کھلا پورا گیٹ نہیں کھلا۔سونے جواہرات سے جڑے تخت پر بیٹھا بادشاہ: میں اس چھوٹے سے دروازے میں داخل ہوا تو سامنے راہداری تھی اس میں مجھے لے جایاگیا‘ دروازہ کھلا اور بہت بڑا مجھے تخت نظر آیا جو سونے اور جواہرات سے جڑا ہوا تھا‘ اس تخت پر ایک بادشاہ بیٹھا ہوا تھا میں نےاس بادشاہ کو سلام کیا۔ میں بادشاہ کی بات سن کر چونک اٹھا: ا نہوں نے مجھے سلام کا جواب دیا اور سلام کا جواب پاکر مجھے کرسی پر بٹھایا گیا اور کرسی پر بٹھا کر مجھے کہا گیا کہ آپ حیران ہونگے کہ ہم بھی جنات ہیں۔میں ان کی بات سن کر چونک اٹھا‘ میں نے سمجھا کہ شاید اکیلے ہم ہی جنات ہیں لیکن وہ کہنے لگے نہیں ہم بھی جنات ہیں اور ہم وہ جنات ہیں جو سمندر کی تہہ کے نیچے رہتے ہیں اور ہماری ذمے سمندر کی جتنی بھی مخلوق ہے ان کو غذائیں پہنچانا جو اللہ اپنی قدرت اور طاقت سے بندوں تک پہنچاتا ہے ۔جنات کے بادشاہوں کی نگرانی کرنے والے جنات: دوسرا ہماری ذمہ داری جنات کے اوپر جو بادشاہ ہوتا ہے ان بادشاہوں کی نگرانی کرنا ہے وہ خود بادشاہ نہیں تھے لیکن جنات کے اوپر بادشاہوں کے نگران تھے اور اس جن بادشاہ نے جو کہ سمندر کی تہہ کے نیچے کا بادشاہ تھا نے کہا آئیں ہم آپ کو اپنا محل پھرواتے ہیں میں ان کے ساتھ چلتے ہوئے محل دیکھنے لگا ایک جگہ مجھے لےجایا گیا جہاں صرف فوارے تھے اور وہ فوارے پانی کے نہیں تھے موتیوں کے تھے ان میں سے موتی اوپر نیچے مسلسل گررہے تھے کچھ سنہری موتی تھے‘ کوئی سیاہ موتی تھے‘ کوئی سفید موتی تھے کوئی سرخ موتی تھے ہر موتی کا اپنا رنگ اور ان موتیوں کے گرنے سے ایک ہلکی سی چھن چھن کی آواز آرہی تھی جو آواز مجھے بہت بھارہی تھی اور وہ آواز میرے دل میں اتر کر مجھے بھلی لگ رہی تھی۔ سورۂ قریش کی تلاوت اور سیاہ پتھر پر پھونک: آگے گیا تو مجھے ایک جنات کی بہت بڑی جماعت جو سینکڑوں میں نہیں تھی لاکھوں میں تھی دکھائی دی وہ جماعت مسلسل سورۂ قریش پڑھ رہی تھی اور ایک سیاہ رنگ کا بہت بڑا پتھر تھا‘ اس پر پھونک رہی تھی میں وہاں رک گیا‘ میں نے سوال کیاکہ آپ مجھے بتاسکتے ہیں کہ یہ جماعت کون ہے؟ سورۂ قریش کیوں پڑھی جارہی ہے اور سیاہ رنگ کے پتھر پر کیوں پھونکی جارہی ہے؟سمندر کی طغیانی سے زمین کے بچنے کا راز:زیرسمندر شہنشاہ مجھے کہنے لگے یہ پوری جماعت جو لاکھوں نہیں کروڑوں جنات پر مشتمل ہے۔ یہ مسلسل اپنی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں‘ یہ سورۂ قریش اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ سمندر اپنی طغیانی سے بسنے والے زمین پر انسانوں اور بے زبانوں کو ختم نہ کردے جس دن یہ سورۂ قریش پڑھنا چھوڑ دیں گے اس دن سمندر اپنی طغیانی کے ساتھ ساری مخلوق کو ڈبو دے گا۔ ہماری ڈیوٹی لگی ہوئی ہے اور یہ ڈیوٹی ہماری عرش سے لگی ہوئی ہے‘ عرش والے نے ہماری ڈیوٹی لگائی اور بس ہم دن رات صرف اور صرف یہی کام کرتے رہیں اور کوئی کام نہ کریں۔انسانوں کی مصیبتیں‘ مسائل ‘ مشکلات اور کالا پتھر: میں نے سوال کیا یہ بتائیں پتھر کیا ہے؟ اتنا بڑا پتھر جو ہماری دنیا کے پہاڑوں سے بھی بڑا ہے اور اس پتھر میں کیا ہے؟ اور اس کا راز کیا ہے؟ زیرسمندر شہنشاہ نے اس کا جواب دیا یہ پتھر دراصل انسانوں کی مصیبتیں‘ انسانوں کے مسائل‘ انسانوں کی مشکلات اور انسانوں کے اوپر جادو اور شریر جنات کے ذریعے جو آنے والے مسائل ہیں دراصل یہ وہ ہیں اور ان مسائل اور مشکلات کا یہ پتھر ہے۔ میں نے کہا اس پر پھونکیں کیوں مارہے ہیں؟ کہا یہ اس لیے مار رہے ہیں کہ انسان بھی اگر یہ عمل کرے تو ان کو بھی پریشانیاں، مشکلات اور مسائل ان کے اوپر سے ختم ہوجائیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ پتھر کیا آپ تک ہے یا ہمارے انسانوں اور جنوں تک جو کہ زمین پر آباد ہیں‘ وہ بھی اس کے فائدے اور تاثیر کو پاسکتے ہیں۔زیرسمندر بادشاہ نے دیا کالے پتھر کانورانی عمل: زیرسمندر بادشاہ نے مسکرا کر جواب دیا اگر آپ چاہتے ہیں تو ہم آپ کو بھی اس کی تاثیر دے سکتے ہیں لیکن اس کیلئے آپ کو ایک سیاہ پتھر تلاش کرنا ہوگا اور وہ سیاہ پتھر تلاش کرکے آپ اس کو ہمیشہ سامنے رکھیں گے اس پتھر کو اپنی مصیبتیں‘ پریشانیاں‘ بے اولادی‘ جادو جنات‘ اثرات‘ نظربد‘ بندشیں‘ سفلی چیزیں شمار کریں گے یعنی پتھر کے بارے میں تصور ہوگا کہ یہ وہ چیزیں ہیں جو کہ جادوئی جنات سفلی اور شیطانی چیزیں ہیں۔ لہٰذا میں جو سورہ قریش پڑھ رہا اور یہ پتھر پر نظر رکھ کر پڑھ رہا اگر پتھر سیاہ مل جائے تو اچھی بات ہے اگر پتھر سیاہ نہیں ملتا تو اس پر سیاہ رنگ کرلیا جائے پتھر چھوٹا ہو یا بڑا ہو اس کو کسی باکس یا کسی کپڑےمیں لپیٹ کر رکھ دیا جائے‘ روزانہ صرف ستر بار اول و آخر سات بار درود شریف ہردفعہ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کے ساتھ سورۂ قریش پڑھی جائے اگر دووقت نہیں پڑھ سکتے تو ایک وقت پڑھ لیں اور سورۂ قریش پڑھی جائے اور اس پتھر کو دیکھتے ہوئے پڑھی جائے اور یہ تصور کیا جائے جس طرح یہ پتھر میرے لیے سخت ہے اور میں اس کو اپنے ہاتھوں سے دانتوں سے نہیں توڑ سکتا تو اس لیےمجھے کسی ہتھوڑے کی ضرورت ہے اس لیے زندگی کے مسائل مشکلات الجھنیں اور پریشانیاں جادو جنات ناکامیاں بے روزگاری پریشانی یہ سب میرے لیے اس پتھر کی مانند ہیں‘ اسے میں ہٹانہیں سکتا توڑ نہیں سکتا تو اس کیلئے مجھے ایک ایسی مدد کی ضرورت ہے جس کی طاقت ہتھوڑے سے زیادہ ہو وہ مدد سورۂ قریش ہے لہٰذا میں اس لیے یہ سورۂ قریش پڑھ رہا ہوں کہ جس طرح ہتھوڑا پتھر کو توڑ دیتا ہے اس طرح سورۂ قریش ان میری مشکلات و ناکامیوں کے پتھر کے جو میری راہوں میں اور راستوں میں رکاوٹ ہے ان کوتوڑ کر رکھ دے گا۔ بس روزانہ ستر بار ورنہ صبح وشام لیکن تصور جتنا سخت ہوگا‘ توجہ جتنی سخت ہوگی‘ دھیان جتنا مضبوط ہوگا‘ اعتماد جتنا قوی ہوگا مدد اتنی زیادہ اور اتنا جلدی آئے گی اور تاثیر اتنی زیادہ اور اتنی جلدی ملے گی اور رحمت اتنی زیادہ اور اتنی جلدی ملے گی۔زیرسمندر بادشاہ کا شکریہ! میں زیرسمندر بادشاہ کی اس طاقتور چیز کو پاکر ان کا میں نے شکریہ ادا کیا اور وہ مجھے کہنے لگےکہ آپ کے زمین پر بسنے والے انسانوںاور جنات کیلئےجومسائل اور مشکلات اور پریشانیاں میں مبتلا ہیں ان سب کیلئے ایک تحفہ ہے آپ یہ لے جائیں میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر وہی واپسی کا سفر اور واپسی کا نظام سارادوبارہ سے چلا اور میں واپس زمین پر آگیا۔ جنات کا قبروں کے نیچے نظام:صحابی بابا فرمانے لگے کہ جنات سمندر کے نیچے رہتےہیں‘ قبروں کے نیچے رہتے ہیں۔جنات کا  قبروں کے نیچے رہنے کا ایک واقعہ خود ہی سنایا۔ فرمانے لگے کہ ایک دفعہ ہمارے ایک انسان دوست اس دنیا سے رخصت ہوئے‘ فوت ہوئے‘ میں ان کی تدفین میں ان کے ساتھ تھا‘ جب میں ان کی تدفین کیلئے وہاں گیا تو وہ دفن کردئیے گئے‘ دفن کرنے کے بعد میں بہت دیر تک قبرستان میں بیٹھا رہا۔ انسان تو نہیں دیکھ سکتے‘ جن تو جن کو دیکھ سکتے ہیں‘ میں وہاں جنات کو مسلسل دیکھتا رہااور جنات مسلسل وہاں اپنی زندگی کی بھاگ دوڑ میں مصروف تھے‘ ایک جن کو میں نے دیکھا کہ وہ ایک قبر کو کھود رہا ہے اور قبر کوکھودنے کے بعد اس میں داخل ہوگیا ۔میں خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا دوسرا جن آیا اس نے قبر نہیں کھودی بس وہ آیا زمین پھٹی اور وہ خودبخود قبر میں داخل ہوگیا‘ کچھ جنات قبر سے نکل رہے تھے‘ کچھ جنات قبرمیں داخل ہورہے تھے۔ یہ منظر میں بہت دیر تک دیکھتا رہا اور اس منظر کو مستقل میں پرکھتا رہا آخر یہ منظر کیا ہے؟ بہت دیر تک اس منظر کو دیکھنے کے بعد تھوڑی ہی دیر ہوئی تو ایک جن نکلا‘ صحابی بابا فرمانے لگے: اس جن کا میں نے ہاتھ پکڑ لیا اور میں نے پوچھا آپ کا نام اس نے مجھے اپنا نام بتایا اور میں نے اس سے اپنا تعارف کرایا کہ میں بھی جن ہوں اور میں قبرستان میں اپنے انسان دوست کی تدفین کیلئے آیا تھا پھر اس نے مجھے اپنے کچھ حال بتائے اور مجھ سےدعاؤں کی درخواست کی اور وہ چلا گیا۔ صحابی بابا فرمانے لگے قبرستانوں میں رہنے والے اکثر جنات نیک اور شریف ہوتے ہیں اگر وہ مسلمانوں کے قبرستان میں رہتے ہیں اگر وہ غیرمسلمانوں کے قبرستانوں میں رہتے ہیں ان میں اکثر جنات مسلمان نہیں ہوتے۔کھجور کے درخت کی عجیب شان: کھجور کے درخت میں رہنے والے جنات مسلمان اور نیک ہوتے ہیں کھجور کا درخت واحد درخت ہے جس کے اوپر کبھی بھی غیرمسلم بدکار جن نہیںرہ سکتا ہے نہ قیام کرسکتا ہے۔ اگر کسی کو کھجور کے جن سے تکلیف پہنچی ہے تو اس میں اس کا اپنا کوئی قصور ہوگا اور اس نے انہیں تنگ کیا ہوگا اور اس کی وجہ سے ان جنات کی قوم کو تکلیف پہنچی ہوگی اور وہ تکلیف مسائل اور مشکلات کا اس کیلئے ذریعہ بن گئی ہوںگی‘ ورنہ کھجور کے درخت کے اوپر کبھی بھی غیرمسلم جنات نہیں رہتے ۔ہمیشہ باوضو رہنے کی برکت:صحابی بابا نے مزید بتایا کہ میری زندگی دن رات نیکی اور عبادت میں گزری ہے میں نے تجربہ کیا ہے جو انسان باوضو رہتے ہیں جادو جنات مسائل اور مشکلات انہیں نہیں گھیرتے اور ان کے اوپر سے وہ بلائیں اور پریشانیاں ہمیشہ ٹلی رہتی ہیں۔سورۂ قریش سے ملے اولیاء جنات کی محبت:صحابی بابا ٹھنڈی سانس لیکر مزیدفرمانے لگے میرا تجربہ ہے جو لوگ سورۂ قریش باکثرت پڑھتے ہیں اگر وہ راتوں کو قبرستان میں رہیں نیک جنات‘ اولیاء جنات اور اللہ والے جنات ان کیلئے اپنی آنکھیں بچھاتے ہیں‘ دل بچھاتے ہیں اور ان کیلئے اپنا سب کچھ بچھاتے ہیں۔دمشق کا پرانا قبرستان اور عذاب میں مبتلا پانچ قبریں: صحابی بابا فرمانے لگے میں ایک بار دمشق کے ایک پرانے قبرستان میں تھا جہاں بے شمار صحابہ‘ تابعین‘ تبع تابعین‘ محدثین‘ اولیاء‘ صالحین اور بڑے بڑے حضرات کی قبور اور مزارات ہیں۔ میں بیٹھا مسلسل سورۂ قریش پڑھ رہا تھا‘ ساری رات میں سورۂ قریش پڑھتا رہا اور ساری رات سورۂ قریش پڑھتے پرھتے آخر کار مجھے احساس ہوا مجھے نیند آرہی ہے‘ میں وہیں تھوڑی سی ٹیک لگا کر اونگھ گیا اونگھنے کے بعد جب میں اٹھا تو میں نے محسوس کیا ہر قبر کے اوپر ایک بلب جل رہا وہ بلب نہیں تھا وہ نور کی ایک کرن تھی جو ہر قبر کے اوپر برس رہی تھی‘ہاں صرف پانچ قبریں ایسی تھیں جن کے اوپر وہ نور کی کرنیں نہیں تھیں میں حیران ہوا کہ یہ بلب کیا ہے اور اس سےزیادہ حیرت یہ نور کی کرنیں ان پانچ قبروں کے اوپر کیوں نہیں؟پانچ قبروں کے باسیوں سے انٹرویو: یہ بات سوچتے سوچتے مجھے خیال ہوا کیوں نہ ان پانچ قبروں کے اوپر مراقبہ کرکے ان کی روحوں کو متوجہ کروں اور ان کی روحوں سے پوچھوں کہ سورۂ قریش کی برکات اللہ کی رحمت کی شکل میں تمہاری قبروں پر روشنی بن کر آئی لیکن اس روشنی   سے تم محروم کیوں ہوئے؟ آخر تمہارا کون سا ایسا گناہ اور کونسی ایسی غلطی ہے جس کی وجہ سے تم نے اتنا بڑا جرم کردیا اور تم سے اتنی بڑی خطا ہوئی جس خطا کی وجہ سے نور سے تم محروم رہ گئے اور ظلمت تمہارے قریب آگئی ۔سورۂ قریش کا اتنا بڑا عامل ہوں کہ آپ گمان نہیں کرسکتے:ان میں ایک پرانی قبر تھی‘ میں اس پرانی قبر کے قریب جاکر بیٹھا اور چونکہ میں اب سورۂ قریش کا اتنا بڑا عامل‘ اتنا بڑا عامل‘ اتنا بڑا عامل بن چکا ہوں کہ آپ گمان نہیں کرسکتے۔ میں نے صرف وہاں بیٹھ کر سورۂ قریش پڑھی کیونکہ سورۂ قریش جو شخص لاکھوں سے بھی زیادہ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ یقین اعتماد لیکن شرط ہے تقویٰ کے ساتھ پڑھ لے بس پھر جس مقصد کیلئے چاہے پڑھے ‘وہی مقصد اس کو حاصل ہوجاتا ہے جس منزل کیلئے چاہے پڑھے وہی منزل اس کو مل جاتی ہے اور وہ چیز اس کےقریب آجاتی ہے۔بدبودار ‘ تھکی‘ بوسیدہ لباس پہنے روح حاضر:بس میں نے وہاں بیٹھ کر صرف اور صرف سورۂ قریش پڑھنا شروع کردی اور سورۂ قریش پڑھتے پڑھتے آخرکار وہ روح حاضر ہوئی‘ درد مند‘ تھکی ہوئی‘ بوسیدہ لباس پہنا ہوا جسم سے بدبو آرہی تھی۔ میں حیران! میں نے پوچھا تمہارا نام؟ اس نے مجھے اپنا نام بتایا ۔عذاب میں مبتلا روح کی آپ بیتی:کہنے لگے: پونے آٹھ سو سال ہوئے ہیں اس دنیا سے گئے ہوئے‘ میرا انگ انگ جوڑ جوڑ اور میری رگ رگ اب بھی دکھ رہی ہے اور اس کی دکھن میرے جسم کے ایک ایک حصے میں موجود ہے۔ میں نے پوچھا تمہاری قبر پر نورکیوں نہ آیا؟ کہا کیسے آسکتا ہے؟ مالدار نیک باپ کی بگڑی اولاد:میں پانچ بہنوں کا ایک بھائی تھا‘ میرا والد اپنے گاؤں کا ایک بہت بڑا سردار تھا‘ اس کی سرداری تھی‘ گھوڑے تھے ‘جاگیر تھی ‘بہت مال تھا‘ کھجوروں کے بہت بڑے باغات تھے اور فصلیں تھیں۔ خزانے بھرے ہوئے تھے ‘چمڑے کے مٹکے تھے جو اشرفیاں‘ درہم دینار اورجواہرات سے بھرے ہوئے تھے۔ بہنیں جوان ہوئیں ایک ایک کرکے سب کی شادی کی، آخر میں میں چھوٹا تھا‘ بعد میں پیدا ہوا تھا مجھ سے بہت زیادہ محبت تھی ‘باپ بوڑھا ہوگیا تھا ویسے بھی اس نے لمبی عمر نہیں پائی۔ آخری وقت میں باپ کی نصیحت:آخری وقت میں بلایا میںاس وقت بھرپور جوان اور شباب عروج پر تھا تو میرے والد نے مجھے بلایا اور بلا کر کہنے لگے بیٹا دیکھ! میں نے آج تک کسی کا حق نہیں کھایا اور کسی کو کھانے بھی نہیں دیا۔ میں اس پورے گاؤں میں اور اس کے اردگرد ظالم بن کر نہیں رہا لیکن مظلوم بن کر بھی نہیں رہا۔ اپنےآپ کو میں نے اتنا کمزور نہیں کیا کہ کوئی خواہ مخواہ آکر مجھے ظالم کہنا شروع کردے یا مجھے تکلیف دینا شروع کردے لیکن بیٹا خیال کرنا بہنوں کا حصہ پورا دینا۔ بہنوں کو حصہ نہ دیا تو میری روح تجھے معاف نہ کرے گی:مجھے محسوس ہورہا ہے میری زندگی وفا نہیں کررہی اور میں عنقریب اس دنیاسے رخصت ہونے والا ہوں‘ایک بات کا احساس ہے اگر تم نے بہنوں کا حصہ پورا نہ دیا تو میری تڑپتی روح تجھےمعاف نہیں کرے گی‘ تمہیں خبر ہے تمہاری ماں تمہارے پیدا ہونے کے کچھ عرصہ کے بعد فوت ہوگئی تھی‘ میں نے بیٹیوں کو ماں اور باپ دونوں بن کر پالا ہے اور بیٹیوں کی پرورش کی ہے۔ بیٹا بس میری اس نصیحت کا خیال کرنا اور میری اس نصیحت کو اپنے دل کی گرہ میں باندھ لینا کچھ ہی دنوں کے بعد والد فوت ہوگئے ۔مجھے سرداری ملی اور میں سب بھول گیا:والد کی وفات کے بعد برادری کے بڑوں نے مجھے سردار بنایا، بہنیں اپنا حق لینے کیلئے بالکل نہیں بولیں اور انہوں نے کبھی مطالبہ نہیں کیا میرے دل میں کبھی کبھی آتا تھا کہ ان کا حق دوں پھر ایک خیال آتا والد نے ساری عمر محنت کرکے جو مال دولت اور چیزیں جوڑی ہیں وہ کس طرح میں اپنے گھر سے نکال دوں اور اپنے بہنوئی کو دوں۔ بس یہ چیز چلتی رہی پھر میری اولاد ہوگئی ہاں ایک بہن نے ایک دفعہ سوال کیا کہ بھائی میری اولاد جوان ہوگئی ہے میں نے ان کےگھر بسانے ہیں اگر جائیداد میں حصہ مل جائے ؟میں نے کہا ہاں میں دوں گا۔ چار بہنیں وفات پاگئیں مگر حصہ نہ دیا:اسی چلتے چلتے میں نے اکہتر سال کی عمر پائی، اس دوران میری چار بہنیں فوت ہوگئیں۔ ایک تیسرے نمبر کی بہن زندہ تھی میں نے کسی کو اس کا حق نہ دیا اور مجھے ایک احساس تھا۔ والد کی خواب میں آکر ڈانٹ:  کبھی کبھی رات کو والد خواب میں آکر مجھے ڈانٹتے تھے تنبیہ کرتے تھے‘ ملامت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ نالائق بہنوں کا حق مار کر تو کیسے سرخرو ہوسکتا ہے اور بہنوں کا حق مار کر تو کیسے اپنی قبر کو ٹھنڈا کرسکتا ہے۔ میری روح تجھے کبھی معاف نہیں کرے گی‘ دیکھ! میں نے کبھی جانور کا حق نہیں کھایا ہمارے گھر ایک کتا ہوتا تھا میں پہلے کتے کو کھلاتا تھا پھر خود کھاتا تھا‘ ایک بلی ہوتی تھی میں پہلےبلی کو کھلاتا تھا پھر خود کھاتا تھا۔ میں گھوڑوں کے کھانے کا خیال رکھتا تھا‘ میں جانوروں کےکھانے کا خیال رکھتا اگر میرے کھیت میں پرندے دانہ چگ جاتے تھے اور میرے غلام ان پرندوں کا پیچھا کرتے تو میں انہیں پرندوں کا پیچھا کرنے سے روکتا تھا میں نے تو جانوروں کاحق نہ کھایا تو انسانوں کا اور پھر اپنے خونی رشتوں اور بہنوں کا حق کھارہا کئی بار بلکہ بار بار کوئی ہفتہ ایسا نہ گزرا ہو کہ میرے والد نے مجھے تنبیہ ملامت نہ کی ہو اور ڈانٹا نہ ہو۔افسو س کہ میں نے اپنی اولاد کو بھی حصہ کا نہ کہا:میں ارادہ بھی کرتا پھر شیطانی وساوس مال و دولت کی محبت مجھے اس کام سے روکتی‘ یوں دن رات گزرتے رہے اور میں اپنی زندگی کی بہاریں دیکھ کر اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے جوان ہوتا دیکھتا رہا‘ افسوس کی بات تویہ ہے کہ میرے والد نے مجھے بلا کر نصیحت کی‘ تنبیہ کی‘ خواب میں بار بار ملامت کی۔ میں نے اپنی اولاد کو تو اتنا بھی نہ کہا کہ اپنی پھوپھیوں کا حق دینا ان کا حق نہ دبانا۔ آخر ایک دن مجھے موت آگئی!!!: آخر ایک دن مجھے موت آگئی‘ اور میں مرگیا۔ بس وہ دن اور آج صدیاں گزر گئی ہیں۔ وہ روح سسکنے لگی‘ رونے لگی‘ اس کے سسکنے اور رونے سے گرم تیز ہوائیں جو میرے برداشت سے باہر تھیں اور کہنے لگی افسوس تو یہ ہوا کہ میرے مرنے کے بعد میرےاولاد کے پاس نہ گھوڑے رہے‘ نہ جانور‘ نہ رزق رہا‘ نہ مال‘ نہ چیزیں ‘نہ حویلیاں سب چیزیں ختم ہوگئیں اور سب کچھ لٹ گیا اورسب کچھ میرا ختم ہوگیا۔ بہنوں کا حصہ کھاکر خود آگ میں جل رہا:میں آگ  میں جل رہا ہوں، اپنی بہنوں کو حصہ نہ دینا وہ بھی محروم رہیں‘ میری نسلیں بھی محروم رہیں۔ صحابی بابا یہ بات سناتے ہوئے زارو قطار رو رہے تھے۔ ان کی آنکھیں ان کا دامن بھیگ گیا فرمانے لگے۔دوسری قبر کے باسی کی عجب کیفیت:  میں اس قبر سے اٹھا ‘میں دوسری قبر پر گیا‘ مراقبہ کیا میں سورۂ قریش پڑھ رہا تھا ‘سورۂ قریش کے پڑھتے ہی وہ روح اٹھی اور کہنے لگی کہ میرا حال کیا پوچھتے ہو؟ کوئی نیک تو آیا۔ اتنی مدت گزر گئی مجھے قبرمیں قیامت کا انتظار کرتے ہوئے افسوس کہ قیامت کا انتظار بہت برا انتظار ہے اور ویسے بھی انتظار بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔ بادشاہ کے خزانچی کی لالچ:میں وہ انسان تھا جو ایک بادشاہ کے پاس خزانچی تھا‘ اس کے خزانے کا جو امیر مقرر تھا میں اس کا نائب تھا‘ میں بادشاہ کے خزانے سے روز کوئی نہ کوئی چیز لاتا تھا جو کہ میری نہیں ہوتی تھی خزانے کی ہوتی تھی اوروہ خزانہ میں نے اپنا سمجھ لیا تھا حالانکہ جو امیر اس پر مقرر تھا وہ نہایت امین اورامانت دار تھا‘ اس نے آج تک ایک چیز نہ لی اور ایک ذرہ بھی اس نے اپنے اوپر حرام کردیا اور واقعی ایسا ہوا لیکن جو چیز مجھے ملتی تھی لے لیتا تھا میں نے آج تک اس کو اپنے لیے کیوں حلال سمجھ لیا؟ 

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 981 reviews.