سر ہمارے یونٹ کی پچھلی سائیڈ پر جو نہر(نالہ) ہے‘ سب سپاہی اس میں الرٹ ہوکر بیٹھ جائیں۔ کرنل صاحب کہنے لگے نہر میں گندا پانی‘ کیچڑ اور طرح طرح کے جانور ہیں۔ صوبیدار کہنے لگے سر اس ملک کیلئے کیچڑ میں اترنا تو کیا ہم آگ میں بھی اتر جائیں گے۔
یہ 1978ء کا واقعہ ہے جب میرے ابو پاک آرمی میں حاضر سروس تھے۔ ابو کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کرنل اکرم صاحب نے سب فوج کو آرڈر دیا جو فوجی اس یونٹ سے لنگر کہتے ہیں۔ آج سب نہر میںپیراکی کریں گے۔ نہر کی اٹھارہ فٹ گہرائی اور پچاس میٹر چوڑائی تھی۔ سب افسروں اور سپاہیوں نے جیکٹ پہن کر تیراکی کی۔ آخر میں کرنل صاحب فرمانے لگے کوئی آدمی ایسا ہے کہ جو میرے ساتھ بغیر جیکٹ کے تیراکی کا مقابلہ کرے‘ گیارہ سپاہیوں نے ہاتھ بلند کیا‘ ان گیارہ سپاہیوں میں سے ایک سپاہی جناب غلام حسین بہت موٹے‘ قد آور اور وزنی آدمی تھے۔ کرنل صاحب حیرانگی سے غلام حسین کو فرمانےلگے کیا آپ بھی میرے ساتھ مقابلہ کریں گے؟ ہاں! سر میں آپ سے مقابلہ کروں گا! کرنل صاحب نے کہا: ریڈی اینڈ گو۔۔!!!
ابو کہتے ہیں کہ کرنل صاحب اور غلام حسین نے نہر میں جمپ لگایا‘ جونہی غلام حسین نہر میں اترے تو فوراً پانی میں گم ہوگئے‘ کرنل صاحب نے غوطہ خوروں کو حکم دیا کہ وہ غلام حسین کو ڈھونڈیں‘ شاید ہوسکتا ہے کہ وہ کسی جھاڑی میں پھنس گئے ہوں۔
کرنل صاحب تیزی کے ساتھ اپنے ہدف کی جانب رواں دواں تھے‘ ابھی ہدف کے قریب ہی تھے کہ غلام حسین نے پہلے ٹارگٹ پرپہنچ کر پانی سے اپنا منہ نکالا۔ غلام حسین مقابلے میں کرنل صاحب سے جیت گئے تھے۔ غلام حسین میں بہت دم تھا‘ غلام حسین پورے یونٹ میں واحد آدمی تھے جو تیس روٹیاں ایک وقت میں کھاجاتے تھے‘ اس وقت کرنل صاحب نے باورچی کو حکم دیا کہ غلام حسین کو انعام کے طور پر تیس روٹیاں‘ قورمے کی دیگچی‘ ایک تربوز اور دو کپ چائے فوراً عنایت کیے جائیں۔ آج غلام حسین پورے یونٹ کے سامنے کھانا کھائیں گے۔ ابو کہتے ہیں کہ غلام حسین روٹی کے تین لقمے کرتے تھے اور فوراً روٹی ہڑپ کرجاتے تھے۔ غلام حسین نے بیس منٹ کے اندر تیس روٹیاں‘ آٹھ کلو وزنی تربوز‘ قورمے کی دیگچی‘ دو کپ چائے کے نوش کرگئے اور تمام سپاہیوں نے تالیاں بجانا شروع کردیں اور نعرہ لگایا کوئی ہے بہادر جو پاک فوج کے غلام حسین سے مقابلہ کرے؟
1976ء کی بات ہے‘ ابو کہتے ہیں کہ ہمارے یونٹ میں روزانہ گوالا دودھ دینے آیا کرتا تھا‘ ایک دن اس نے یونٹ میں دودھ دیا‘ باقی پانچ کلو اضافی دودھ بچ گیا تو ہمارے چھوٹے استاد حوالدار ابراہیم صاحب جو بظاہر بالکل کمزور سے آدمی تھے۔ انہوں نے دودھ والے سے کہا کہ اگر میں یہ پانچ کلو دودھ تین سانس میں پی جاؤں تو آپ مجھ سے پیسے نہیں لیں گے۔ دودھ والے نے کہا: سرجی! یہ آپ کاکام نہیں ہے‘ پانچ کلو دودھ پینا۔۔!! حوالدار صاحب کہنے لگے دودھ مجھے دو‘ اور انہوں نے تین سانسوں میں پانچ کلو دودھ پی لیا۔ گوالہ کی آنکھیں یہ سب دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ جب دودھ والا شکستہ قدموں کے ساتھ واپس جانے لگا تو حوالدار صاحب نے اسے واپس بلایا اور پوچھا دودھ کہ کتنے پیسے‘ دودھ والے نے کہا دس روپے بنتے ہیں۔ (1976ء میں دودھ دو روپے کلو تھا) حوالدار صاحب نے دودھ والے کو دس روپے دے دئیے اور کہا یہ نہ کہنا کہ پاک فوج کے جوان نے دودھ پی لیا اور پیسے نہیں دئیے۔ پھر وہ گوالہ پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا خوش خوش چلا گیا۔
ابو کہتے ہیں کہ جب 1982ء میں اندراگاندھی نے پاک فوج کو دھمکی دی کہ انڈیا رات کے ایک بجے پاکستان پر حملہ کررہا ہے۔ پاک آرمی تیار ہوجاؤ۔ ابو کہتے ہیں کہ کرنل صاحب نے صوبیدار سے کہا کہ سپاہیوں کو حکم دیں کہ وہ فوراً مورچے کھودیں۔ صوبہ دار کہنے لگے کہ ہوا میں انڈین طیارے اڑرہے ہیں ان کے پاس دوربین ہے وہ ہم کو دیکھ رہے ہیں۔ مورچے کھودنا ٹھیک نہیں۔ پھر کرنل صاحب نے کہا کہ اس وقت کیاکیا جائے۔ صوبیدار صاحب کہنے لگا: سر ہمارے یونٹ کی پچھلی سائیڈ پر جو نہر(نالہ) ہے‘ سب سپاہی اس میں الرٹ ہوکر بیٹھ جائیں۔پر)
کرنل صاحب کہنے لگے نہر میں گندا پانی‘ کیچڑ اور طرح طرح کے جانور ہیں۔ صوبیدار کہنے لگے سر اس ملک کیلئے کیچڑ میں اترنا تو کیا ہم آگ میں بھی اتر جائیں گے۔ابو کہتے ہیں کہ ہماری تمام ٹیم (فوج) نہر میں اتر گئی۔ رات ایک بج کر پندرہ منٹ ہوگئے لیکن بزدل دشمن نے کوئی کارروائی نہ کی تو صوبیدار نے فوج کو حکم دیا کہ سب سپاہی نہر سے باہر آجائیں۔ کرنل صاحب کہنے لگے یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ انڈین فوج حملہ نہ کردے‘ صوبیدار صاحب کہنے لگے انڈین فوج نے اگر حملہ کرنا ہوتا تو ایک بجے کردیتی‘ اب ایک بج کر پندرہ منٹ ہوچکے ہیں۔ اب وہ بزدل کبھی بھی ہم پر حملہ نہیں کریں گے۔ اس وقت ان کو اپنی پڑی ہوگی۔ صوبیدار صاحب کے حکم کے باوجود سپاہی ایک گھنٹہ مزید اسی کیچڑ بھڑی خطرناک نہر میں بیٹھے ملک کا دفاع کرتےرہے۔ مگر بزدل دشمن نے حملہ نہ کیا۔صبح چھ بجے خبر آئی کہ رات کے گیارہ بجے کسی نے اندراگاندھی کو قتل کردیا ہے۔ صبح کے وقت کرنل صاحب کہنے لگے صوبیدار صاحب آپ نے رات کو ٹھیک کہا تھا کہ انڈیا والوں کو اپنی پڑی ہوگی اور پھر کرنل صاحب نے نعرہ لگایا ہے کوئی ہے بہادر جو پاک فوج کے ساتھ مقابلہ کرے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں