میں نے مراقبہ کا طریقہ سیکھا‘ پھر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوکر دعا کی اور مراقبہ کا آغاز کردیا۔ پہلے روز مراقبےسے قبل ہی کافی بے چینی اور بے سکونی رہی۔ابھی آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوا تو فوراً آنکھیں کھول دیں‘ پورا جسم پسینے سے شرابور ہورہا تھا۔
ایک واقعہ میرے ساتھ پیش آیا‘ جس نے مجھے شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا تھا۔ وہ حادثہ جس نے میرا چین و سکون چھین لیا تھا‘ جب بھی یاد آتا میرے دل کو دہلا دیتا پھر میری نیند اُڑ جاتی اور بھوک ختم ہوجاتی۔۔۔وہ ایک سرد اور تاریک رات تھی ‘ہماری ٹیکسی بارش میں بھیگتی ہوئی تیزی سے گھر کی جانب جارہی تھی۔ میری بیوی اور دو سالہ بیٹی نازو بھی ہمارے ہمراہ تھی ہم ایک شادی میں شرکت کے بعد گھر لوٹ رہے تھے ابھی گھر تین چار کلومیٹر دور تھا کہ چند نقاب پوش افراد نے اسلحہ کے زور پر ٹیکسی روک لی‘ گاڑی کا دروازہ کھول کر ایک نقاب پوش شخص نے نازو کو اٹھالیا اور کرخت آواز میں بولا جلدی کرو جو کچھ تمہارے پاس ہے ہمارے حوالے کردو‘‘ وہ میرے تلاشی لیتے رہے اور جو کچھ ہمارے پاس نقدی اور زیورات تھا چھین لیا۔۔۔ شاید ان کو توقع یا ضرورت کچھ زیادہ کی تھی اور انہیں بہت کم مال مل سکا تھا‘ اس لیے وہ سب سخت غصے میں آگئے تھے‘ جب میری بیوی کے گلے سے لاکٹ کھینچنے لگے تو میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی ایک نے میرے سر پر پستول کا دستہ دے مارا‘ میری بیوی بہت کمزور دل کی ہے اس کی گھگھی سی بندھ گئی تھی‘ نازو مسلسل روئے جارہی تھی۔۔۔ میں چیخا کہ ’’ہماری بیٹی ہمیں واپس کردو‘‘ جس نقاب پوش نے نازو کو گود میں اٹھایا تھا اس نے جلدی جلدی میں اسے گود سے گرادیا‘ دو سالہ معصوم بچی جب گری تو سر پر فٹ پاتھ کا کنارا لگا اور اس کا سر پھٹ گیا‘ نازو کی چیخ نے کلیجہ چھلنی کردیا‘ جلدی سے ناز و کو اٹھایا تو وہ بے ہوش ہوچکی تھی اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا بھائی ہمیں ہسپتال لے چلو۔۔۔ وہ بھی نیک آدمی تھا‘ ہمیں ہسپتال لے گیا۔ اللہ نے کرم کیا اور نازو جلد صحت یاب ہوگئی۔ میرے ذہن پر اس حادثے نے انتہائی بُرے اثرات مرتب ہوئے۔ راستہ چلتے خوف محسوس ہونے لگا‘ سردرد‘ ٹانگوں میں درد اور چڑچڑاپن رہنے لگا۔ جب ڈیپریشن زیادہ بڑھا تو میں نے ملازمت سے چھٹیاں لے لیں۔ ایک روز میرے پڑوسی مجھ سے ملنے آئے۔ ان سے میری اچھی دعا سلام تھی۔ انہوں نے میری خیریت پوچھی تو میں نے سردرد اور طبیعت کی خرابی کا بتایا تو پوچھنے لگے کہ اس کی شروعات کب سے ہوئی؟ میں نے انہیں گول مول جواب دیا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ میرے ایک ڈاکٹر دوست ہیں کل تم میرے ساتھ چلو‘ تمہارا ان سے چیک اپ کروالیتے ہیں۔۔۔ تھوڑی ردوکد کے بعد میں ان کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جانے کو راضی ہوگیا۔ وہ مجھے اگلے روز ڈاکٹر کےپاس لے گئے۔ یہ ڈاکٹر صاحب نفسیات اور مختلف آلٹرنیٹسیو تھراپی سے علاج کرتے ہیں جن میں مراقبہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ میرے ہمسائے نے بھی مراقبہ پر کافی تحقیقی کام کیا ہے۔ انہوں نے ایک نشست کے ذریعے میرے تمام حالات سے واقفیت حاصل کی اور مراقبہ کا مشورہ دیا۔ ان کی زبان سے مراقبہ کا مشورہ سن کر حیرت ہوئی۔ میں نے ڈاکٹرصاحب سے معذرت کرتے ہوئے کہا ’’دیکھئے! ڈاکٹر صاحب میں اس قسم کے علاج پر یقین نہیں رکھتا۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا: ’’آپ میرے دوست کے ساتھ آئے ہیں اسی لیے میں نے آپ سے پہلی ہی ملاقات میں آپ کا بالکل درست علاج تجویز کردیا ہے۔ سچ پوچھئے تو میں آپ کے مسائل کا حل مراقبہ میں دیکھ رہا ہوں‘‘ میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ ’’مراقبہ کس طرح مریض کی ذہنی صحت کی بحالی میں معاون ثابت ہوسکتا ہے؟‘‘ ڈاکٹر مسکرا کر بولے’’آپ جانتے ہیں کہ انسانی جسم میں بے حد اہم نظام‘ معدہ‘ جگر اور آنتوں کا ہے۔ ہضم و جذب کے عمل میں غذا سب سے پہلے معدے میں پہنچتی ہے جس کی دیواریں سکڑ کر غذا کو اچھی طرح مکس کرکے نرم کردیتی ہے۔ اگر بعض خرابیوں کی وجہ سے اس نظام میں خلل واقع ہوجائے اور غذا درست طور پر ہضم نہ ہو تو پھر زہریلی ہوکر اتنی زیادہ مقدار میں آنتوں کے اندر جمع ہوجائے کہ قدرتی مسہل یعنی صفرا آنتوں کو فاسد مواد سے خالی کرنے کی ناکافی ثابت ہونے لگے تو انسانی صحت طرح طرح کے مسائل کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس نظام کو ہم ذہنی عمل پر قیاس کرسکتے ہیں۔ انسانی ذہن روزمرہ زندگی میں خارجی ماحول سے مختلف اطلاعات و معلومات اکٹھی کرتا ہے۔ پھرذہن کے شعوری خانے میں ان معلومات کا تجزیہ کیا جاتا ہے‘ اس کے اجزا کا باہمی ربط معلوم کیا جاتا ہے گزشتہ تجربات سےا س کا موازنہ کیا جاتا ہے ان اجزا میں جو ہمارے مقاصد‘ مسائل یا رجحانات سے متعلق نہیں ہوتے انہیں فاسد قرار دے کر شعور سے نکال دیا جاتا ہے۔
لیکن بعض غیرمعمولی پریشانیوں اور ناخوشگوار تجربات کی وجہ سے شعور کو ایسی معلومات وصول ہوتی ہیں جن کا وہ تجزیہ تحلیل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو انہیں اسی حالت میں حافظے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ یہ خیالات و جذبات چونکہ تجزیہ وتحلیل کے عمل سے نہیں گزرے ہوتے ہیں اس لیے ان کی توانائی حافظے کی نچلی تہہ میں جاکر بھی برقرار رہتی ہیں۔ چنانچہ بیداری کے اوقات میں یہ مواد ذہنی علامات کی صورت میں سر ابھارنے لگتا ہے اور انسان ذہنی پژمردگی ڈیپریشن اور دوسرے کئی ذہنی امراض کا شکار ہونے لگتا ہے۔ مراقبہ اس قسم کی صورتحال کا ازالہ یوں کرتا ہے کہ اس میں ارتکاز توجہ کے ذریعے سے مریض کے شعور کو منجمند کرکے لاشعور کو فعال ہونے کا موقع دیتا ہے جس سے مریض ذہنی طور پر پرسکون ہوجاتا ہے اور مرض کی علامات رفع ہوجاتی ہیں۔‘‘
میں نے مراقبہ کا طریقہ سیکھا‘ پھر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوکر دعا کی اور مراقبہ کا آغاز کردیا۔ پہلے روز مراقبےسے قبل ہی کافی بے چینی اور بے سکونی رہی۔ابھی آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوا تو فوراً آنکھیں کھول دیں‘ پورا جسم پسینے سے شرابور ہورہا تھا۔ دباؤ میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگیا تھا۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات گردش کررہی تھی کہ مراقبہ میرے مسائل کا حل نہیں ہے۔ میں نے کچھ عرصے کیلئے مراقبہ کی مشق ترک کردی۔ میری چھٹیاں ختم ہونے والی تھیں لیکن میری ذہنی کیفیات برقرار تھیں بلکہ ڈیپریشن بڑھتا ہی جارہا تھا۔ ایک روز سونے سے پہلے خیال آیا کہ دوبارہ مراقبہ شروع کروں ‘ شاید کچھ بہتری پیدا ہو۔ دوران مراقبہ میں نے اپنے اوپر نیلے رنگ کی روشنیاں برسنے کا تصور کیا‘ نیلے رنگ کی روشنیوں کے تصور سے ذہن ہلکا پھلکا محسوس ہونے لگا۔ پھر ذہن اس واقعے کی طرف چلا گیا جس کی وجہ سے میں شدید ڈیپریشن میں مبتلا ہوگیا تھا۔ کچھ دیر بعد ذہن میں یہ خیال ابھرا کہ اللہ تعالیٰ انسان پر اتنا ہی بوجھ ڈالتے ہیں جتنا وہ برداشت کرسکتا ہو۔ دوسرے دن نیلی روشنیوں کا تصور جلد قائم ہوگیا اور پندرہ منٹ بہت جلد ہی گزر گئے۔ دوران مراقبہ جب مجھے اس حادثے کا خیال آتا تو میں دعا کرتا کہ یااللہ مجھے اور میرے اہل خانہ کو ہر قسم کی آفات سے محفوظ فرما اس دعا سے میرے دل کو نہایت سکون ملتا۔ ایک روز نماز میں یکسوئی بہت زیادہ رہی‘ اس سے قبل کبھی مجھے نماز میں اتنا انہماک نہیں ہوا تھا۔ چھ ماہ پابندی کے ساتھ مراقبہ کرنے سے مجھے ذہنی سکون کے ساتھ ایک ایسا اعتماد بھی حاصل ہوا جسے شاید میں ابھی الفاظ میں بیان نہ کرسکوں لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میرے اندر کی توانائی زیادہ لوٹ آئی ہے۔ مزاج میں ایک ٹھہراؤ آگیا ہے۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ڈیپریشن کی نوعیت سنگین نہ ہو تو اس کا علاج ورزش‘ سانس کی مشقوں اور مراقبہ سے کیا جاسکتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں