Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

پہلی صدی کے کاملین کی انوکھی کرامات

ماہنامہ عبقری - مئی 2015ء

ملائکہ کے ذریعہ مدد :حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہٗ نے بیان کیا کہ حضرت ابواُسید رضی اللہ عنہٗ نے جبکہ ان کی بینائی چلی گئی تھی، فرمایا: اے میرے بھتیجے خدا کی قسم! اگر میں اور تو مقام بدر میں ہوتے پھر اللہ میری بینائی کو واپس کرتا تو میں تجھ کو وہ گھاٹی دکھاتا جس میں سے فرشتے ہمارے اوپر نکلے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ حضرت عروہ رضی اللہ عنہٗ نے بیان کیا کہ حضرت جبریل علیہ السلام یوم بدر میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہٗ کی ہیئت میں اترے اور زرد رنگ کے عمامہ کا شملہ سامنے کندھے پر ڈالے ہوئے تھے۔حضرت عباد بن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہٗ پر زرد رنگ کا عمامہ تھا جس کے شملہ کو وہ کندھے پر ڈالے ہوئے تھے تو سارے فرشتے زرد عمامہ باندھے ہوئے اترے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ فرشتوں کے لباس یوم بدر میں سفید عمامے تھے جن کے شملوں کو اپنی پشت پر چھوڑ رکھا تھا اور یوم حنین میں سبز عمامے تھے اور سوائے غزوہ بدر کے اور کسی غزوہ میں فرشتے نہیں لڑے۔ یہ صرف تعداد میں اضافہ کرتے تھے اور امداد کرتے تھے کسی کو قتل نہیں کرتے تھے۔

حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہٗ بیان کیا کہ حضرت ابو رافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام نے بیان کیا کہ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ بن عبدالمطلب کا غلام تھا اور اسلام ہمارے اہل بیت میں داخل ہوچکا تھا چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اسلام لائے اور ام فضل رضی اللہ عنہ اسلام لائیں اور میں اسلام لایا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ اپنی قوم سے ڈرتے تھے اور ان کے خلاف کو مکروہ سمجھتے تھے اور اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھے‘ یہ مالدار تھے لیکن ان کا مال ان کی قوم میں بٹا ہوا تھا۔ ابو لہب جنگ بدر سے پیچھے رہا اور اپنی جگہ عاص بن ہشام بن مغیرہ کو بھیج دیا اسی طرح پر بہت سے کفار نے کیا کہ جب کوئی آدمی ان میں سے پیچھے رہا تو اپنی جگہ کسی دوسرے کو بھیج دیا تو جب ابو لہب کے پاس ان کے قریشی ساتھیوں کی مصیبت کی خبر آئی (اللہ اسے ذلیل اور رسوا کرے اور ہم مسلمانوں نے اپنے میں قوت اور عزت پائی اور ابو رافع رضی اللہ عنہٗ نے بیان کیا ہے کہ میں ایک کمزور آدمی تھا، پیالے بنایا کرتا تھا جس کو میں زمزم والے حجرہ میں تراشا کرتا تھا۔ پس خدا کی قسم! میں اس میں بیٹھا ہوا تھا اپنے پیالے تراش رہا تھا اور میرے پاس ام فضل رضی اللہ عنہ بیٹھی ہوئی تھیں اور ہم اس خبر سے جو ہمارے پاس آئی تھی خوش ہورہے تھے کہ اچانک ہمارے سامنے ابو لہب آیا اپنے دونوں پیر شرارت کے مارے کھینچتا ہوا یہاں تک کہ وہ حجرہ کی طناب کی طرف بیٹھ گیا اور اس کی پشت میری پشت کی طرف تھی پس اس حال میں کہ وہ بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک ایک شخص نے کہا یہ ابو سفیان آگئے۔ اس کہنے والے کا نام مغیرہ بن حارث بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہ) ہے۔
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تو ابو لہب نے کہا! میرے پاس آئو میری عمر کی قسم تیرے پاس صحیح خبر ہے۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابو سفیان اس کے پاس بیٹھ گئے اور تمام لوگ ان کے پاس کھڑے تھے۔ ابو لہب نے کہا اے میرے بھتیجے! مجھے بتاکہ ان لوگوں کی بات کیسی رہی؟ حضرت ابو سفیان نے کہا خدا کی قسم! بات اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اس قوم سے ملے اور ہم نے ان کو اپنے کندھے دے دئیے کہ وہ جس طرح پر ہم کو چاہیں قتل کریں اور جس طرح پر ہم کو چاہیں قید کریں اور خدا کی قسم! اس کرنے کے باوجود میں نے لوگوں پر ملامت نہیں کی، ہم ایسے آدمیوں سے ملے جو سفید رنگ کے تھے چتکبرے گھوڑے پر تھے آسمان و زمین کے درمیان، خدا کی قسم! انہیں کسی چیز کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جاسکتی اور ان کے مقابلہ کے لئے کوئی شے کھڑی نہیں ہوسکتی۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس خیمہ کا سرا جو میرے ہاتھ میں تھا اٹھایا پھر میں نے کہا یہ خدا کی قسم ملائکہ تھے۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںتو ابولہب نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور میرےچ ہرے پر بڑی زور سے مارا۔ ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں اس کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہوگیا اس نے مجھے اٹھایا اور زمین پردے مارا پھر میرے اوپر چڑھ بیٹھا اور مجھے مارنا شروع کیا اور میں کمزور آدمی تھا تو ام فضل رضی اللہ عنہا خیمہ کی لکڑی کی طرف اٹھیں اور اسے لیا اور اس کے ساتھ ابو لہب پر اس طرح مارا جس کی وجہ سے اس کے سر میں بری طرح شگاف پڑ گیا اور کہا تو نے اسی وجہ سے اسے کمزور سمجھا ہے کہ اس کا مالک اس سے غائب ہے۔ اس کے بعد وہ ذلیل ہوکر کھڑا ہوا اور پیٹھ پھیر کر چل دیا۔ پس خدا کی قسم! ابو لہب صرف سات رات زندہ رہا یہاں تک کہ اللہ پاک نے اس پر مسور کی برابر طاعون کی گلٹی نکالی اور اس کو ہلاک کردیا۔ یونس راوی نے ابن اسحاق سے اتنا زیادہ اور بیان کیا ہے کہ اس کے بیٹوں نے اس کے مرنے کے بعد تین دن تک اسے دفن نہیں کیا جب تک کہ اس میں بدبو نہیں آگئی۔ ہم نے اس کو دفن نہیں کیا اور قریش اس عدسہ کی بیماری سے جو ابو لہب کو لگی تھی اسی طرح بچتے تھے جیسا کہ طاعون سے بچتے ہیں۔ یہاں تک کہ قریش کے کسی آدمی نے کہا کہ تم دونوں پر بڑا افسوس ہے کیا تمہارے لئے حیا نہیں رہی کہ تم دونوں کا باپ گھر میں سڑ رہا ہے اور تم اسے دفن نہیں کرتے ہو تو اس کے دونوں بیٹوں نے کہا ہم اس زخم کے سرایت کرنے کا اندیشہ کرتے ہیں تو اس شخص نے کہا تم دونوں چلو میں تم دونوں کی اس کے اٹھانے میں امداد کروں گا۔ پس خدا کی قسم! لوگوں نے اسے غسل نہیں دیا مگر ان دونوں لڑکوں نے دور سے اس پر پانی ڈالا اس کے قریب نہیں جاتے تھے پھر اس کو مکہ کی اوپر جانب اٹھا کر لے چلے اور اسے ایک دیوار کے سہارے ڈال کر پھر اس پر پتھر ڈال دئیے۔
عوف بن عبدالرحمٰن جو اُم برثن کے غلام ہیں ان سے روایت ہے ۔ یہ ان صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت کرتے ہیں جو حنین کی لڑائی میں حاضر تھے جبکہ یہ کافر تھے۔ کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ آمنے سامنے ہوئے تو ہم آپﷺ کے پاس اپنی تلواریں آپ کے سامنے سونت کر آئے یہاں تک کہ جب ہم نے آپﷺ کو گھیرلیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے اور آپ ﷺ کے درمیان بڑے خوبصورت چہرے والے لوگ ہیں اور انہوں نے یوں کہا کہ آنے والوں کےچہرے قبیح ہوجائیں‘ پس لوٹ جاؤ چنانچہ ہم اسی کلام سے شکست کھاگئے۔ (حیاۃ الصحابہ ؓ، ج سوم، ص:۵۹۷تا۵۹۹)۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 628 reviews.