اشاروں اشاروں میں بات ہو گئی:مالک بن دینا رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ کشتی میں سفر کررہے تھے ۔دوران سفر ایک بندے کا لعل گم ہوگیا اس نے سب کشتی والوں پرنظرڈالی اورنظر ڈالنے کے بعدمالک بن دینا رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ: اس شخص نے میرا لعل چوری کیا ہے۔وہیں ایک جوان اور دانا آدمی بھی بیٹھا تھا۔رب کریم جس کو چاہے جوانی میں اپنی معرفت عطا کردے اور یاد رکھیئے گا! میرے سیدو مرشدی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ مجھے ایسے لوگ اپنی زندگی میں ملے ہیں جن کو جوانی میں اللہ کی معرفت اور اللہ کا عشق عطا ہوا ہے ۔اگر شیخ کے بارے میں مرید کا اعتماد اوراعتقاد کامل ہے تو اللہ جوانی میں وہ سب عطا کردیتاہے جو بڑھاپے میں اور اسّی سال میں بھی ایسی ولایت نہ مل سکے ‘یہ تجربہ اور مشاہدہ بھی ہے۔ اس دانا آدمی نے جوکشتی میں ہی بیٹھا تھا۔ مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :اس جوان سے پوچھنے تو دیں ایسانہ ہوکہ کہیں اس جوان نے لعل چوری ہی نہ کیا ہو؟ پھر اس دانا نے مالک بن دینا ررحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ جوان سچ بتاتو مجھے ایسا نظر تو نہیں آتا،میں نے بھی دنیا دیکھی ہے اور قدرت نے مجھے بھی کچھ سمجھ عطا کی ہوئی ہے الحمد للہ!۔ کیا تجھ سے ایسی غلطی ہوئی ہے؟کیا اس کا موتی تونے چوری کیا ہے؟مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی جواب نہ دیا۔مالک بن دیناررحمۃ اللہ علیہ چونکہ اللہ کی معرفت کی تلاش میں تھے اور اللہ جل شانہٗ کی معرفت کی تلاش میں انہوں نے ساری زندگی گزار دی تھی اوراس طرح زندگی گزارنے کا عہد کچھ ایسا کر رکھا تھا کہ اللہ اگر سو سال کی زندگی بھی دے گا تب بھی میںان سو سالوں میں تیری معرفت کو تلاش کروں گا اور مالک بن دیناررحمۃ اللہ علیہ نے ساری چاہتوں کو چھوڑ کر رب کو اپنا ساتھی بنالیا تھا۔ اس لیے وہ کچھ نہ بولے ،بس آسمان کی طرف دیکھا۔۔۔!جب محبت زیادہ ہوتی ہے تو آنکھوں ہی آنکھوں بات ہوجاتی ہے۔ زبان خاموش رہتی ہے اور دل ہی دل میں بات ہوجاتی ہے۔مجھے ایک دوست جو کونسلر تھے بتانے لگے کہ دورانِ انتخاب پولنگ اسٹیشن میں امیدوار کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی، صرف ووٹرز ہی پولنگ سٹیشن کے اندر جا سکتے تھے۔ ایک بندہ ووٹ ڈالنے کیلئے آرہاتھا میں نے قریب کھڑی سائیکل کی طرف اشارہ کردیا۔ وہ کونسلرمجھ سے کہنے لگے کہ بس آنکھ سے آنکھ ملی تھی اس نے سائیکل پر مہر لگادی۔پھر بعد میںوہ ووٹرمجھے کہنے لگا کہ ایسا تعلق کی وجہ سے کرنا پڑا ۔ادھر مالک بن دینا ررحمۃ اللہ علیہ کا آنکھ سے آنکھ ملانا دیکھئے اور اِدھر سائیکل پر مہر لگانا دیکھئے تو مالک بن دیناررحمۃ اللہ علیہ نے بھی بس آسمان کی طرف دیکھا اور زبان سے کچھ نہیں کہا بس اللہ نے اپنے دوست کی لاج رکھی اور کشتی کے چاروں طرف پانی کے اوپر مچھلیاں اپنے منہ میں لعل لے کر آگئیں، مالک بن دینا ر رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں سے ایک کے منہ سے لعل لیا اور پھراس شخص سے پوچھاکیا یہی تمہارالعل ہے ؟یہ منظر دیکھ کر وہ شخص جس نے لعل چوری کیا تھا کھڑاہو کرکہنے لگا بس تو نے مجھے رب کی محبت سکھادی ،تیراتو رب سے اتنا تعلق ہے۔۔۔! میں کیسی گمراہیوں میں پڑا ہوا ہوں۔۔۔!اس کا لعل میں نے چوری کیا تھااورالزام تجھ فقیرپرآیا۔تیرے پاس جو لعل ہے وہ اس کا نہیں ہے‘ لعل یہ ہے۔معاملہ طے ہوجانے پرمالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ نے وہ لعل پھر واپس سمندر میں ڈال دیا۔
اللہ والو۔۔۔! یہ داستانیں پرانی نہیں ہیں بلکہ ہم نے توآج کل بھی ایسے عبداللہ مجذوب جن کا اصل نام عبد الحمید تھا تو ان کی ایسے کئی لعل والی کہانیاں دیکھیں ۔بس بات اتنی سی ہے کہ کوئی معرفت کاسچا متلاشی ہو ۔کوئی معرفت کوسچا تلاش کرنے والاہو۔ رب سے سچی محبت کرنے والا ،رب سے سچی چاہت چاہنے والا ہو ۔آج بھی وہی رب ہے۔۔۔! آج بھی اس کی عطائیں وہی عطائیں ہیں ۔۔۔!آج بھی اس کی وہی شفقتیں ہیں ۔۔۔! آج بھی اس کی وہی محبتیں ہیں ۔۔۔!آج بھی وہی رب ہے جو پہلے تھا۔بس بات صرف اتنی ہے کہ ہماری چاہت میں کمی آگئی ہے ۔۔۔! ہمارے مانگنے میں کمی آگئی ہے ۔۔! ہماری محبت میں کمی آگئی ہے ۔
ماواں ٹھنڈیاں چھاواں: ام ایمن رضی اللہ عنہاجو حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی خادمہ تھیں۔فرماتی ہیں کہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی شادی انیس سال کی عمر میں ہوئی اور چوبیس پچیس سال کی عمر میں ان کاوصال ہوا۔انیس سال کی عمر میں قدرت نے ان کی مبارک گود میں اپنانور بھر دیا تھا۔آپ کے وصال کے وقت سرورکونین ﷺ صرف چھ سال کے تھے ۔حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ تو آپ ﷺکی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوگئے تھے ۔حضرت آمنہ، سرورکونین ﷺ اورام ایمن رضی اللہ عنہا پرمشتمل یہ مختصر سا قافلہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی قبر کی زیارت کے بعد واپس مکہ مکرمہ جاتے ہوئے ابواء کی سنگلاخ وادیوں میں پہنچا تو وہاں حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا واصل بحق ہوگئیں۔ام ایمن رضی اللہ عنہا کچھ اعرابی بدوؤں کو بلا کر لے آئیں جن کے ساتھ کچھ عورتیںبھی آئیں، انہوں نے آپ کو غسل دیا ،تجہیزو تکفین کرکے آپ کو دفن کر دیا۔ام ایمن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میںواپس ایک چھوٹی پہاڑی سے نیچے اتری تو مجھے سسکیوں کی آوازیں آئیں،میں نے سوچاپتہ نہیںکون ہے۔ وہاں جاکر دیکھا تو عجیب منظر کہ چھ سال کا معصوم بچہ ماں کی قبر سے لپٹا ہوا ہے اور وہ عظیم بچہ تو محمد ﷺ ہی ہے جو اپنا حال دل قبر میں لپٹی ماں کو سنارہے ہیں کہ اماں آپ کا اور میرا تو جینے مرنے کا ساتھ تھا۔۔۔! آپ ساتھ چھوڑ گئیں۔۔۔! اب میں اماں کس کو کہوں گا؟(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں