Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

حال دل-ایڈیٹر کے قلم سے(ہرن اور جانوروں کے شکاری ضرور)

ماہنامہ عبقری - اپریل 2015ء

میں اپنے آپ کو صحرا نشین کہوں یا صحرا گرد بہرحال ویرانوں‘ تنہائیوں اور ان جگہوں پر جہاں انسانی زندگی نہیں ہر طرف ہو کا عالم ہے مجھے کچھ نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی ان جگہوں سے پیار، محبت، الفت اور شناسائی ہے۔ جاتا ہوں اور بہت جاتا ہوں۔ صحراؤں میں کہیں دور ایسی جگہ جہاں انسان نہیں ہوتے تاحد نظر ریت ہی ریت۔۔۔۔ ٹیلے ہی ٹیلے ہاں۔۔۔۔ صدیوں آباد قدرتی تالابوں (ٹوبوں) پرآباد وہ صحرا نشین جو نسل در نسل یہاں رہ رہے ہیں جنہیں ابھی تک جدید معاشرے کی وہ تہذیب، خوشبو، ہوائیں اور بے وفائی نہیں پہنچی۔ ان بادہ نشینوں کے درمیان بیٹھ کر حق اور ہو کی آوازیں جب دل سے نکلتی ہیں تو دل پکار اٹھتا ہے کہ ذرہ ذرہ اس حق اور آواز دل کا ساتھ دے رہا ہے بلکہ ذرہ ذرہ بھی اس آواز میں میرے ساتھ شامل ہے۔ ویرانوں نے مجھے کچھ پیغام بھی دئیے وہ پیغام پھر میں آبادیوں میں آکر اپنے درس میں بالمشافہ اور غائبانہ یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے بھی پوری دنیا تک پہنچاتا ہوں اور وہ آوازیں لوگ بہت دلچسپی سے سنتے ہیں۔ ان میں سبق بھی، منزل بھی، راستہ بھی اور عبرت بھی۔۔۔۔ اگر بات عبرت کی چلی تو ایک بات بتاتا چلوں میں پاکستانی صحراؤں کی ان پٹیوں تک جاتا ہوں جہاں سوائے پرندوں شکاری اور ہرن کے شکاری کے اور کوئی ذی روح جا نہیں سکتا۔ میرے پاس شکاریوں کے بے شمار واقعات ہیں ایک نہیں کئی۔۔۔کیونکہ انسان جب شکار کیلئے بندوق تانے رات کے اندھیرے میں طاقتور جیپوں کے ذریعے صحرا میں گردش کررہا ہوتا ہے‘ اس کی آنکھوں میں شکار کے نشے کی ایک پٹی ہوتی ہے جو اس وقت کھلتی ہے جب تڑپتا ہوا ہرن اس کے سامنے ہوتا ہے اور اس کی باچھیں پھٹی ہوئی ہوتی ہیں‘ اس کی آنکھوں میں چمک ہوتی ہے لیکن اسی وقت اس ہرن کی آنکھوں کی چمک زائل ہوچکی ہوتی ہے‘ جاتی وہ چمک ایک پیغام ضرور دیتی ہے کہ تجھے خیال آیا۔۔۔ کہ تو نے صرف یہ شکار ضرورت کے لیے نہیں خواہش کے لیے کیا ہے۔ ہاں! میں شکار کو حرام نہیں کہتا لیکن ضرورت اور خواہش کے شکار میں فرق ہے اور بے شمار شکاری گائیڈ مجھے ایسے ملے‘ کتنے لوگوں کو فالج ہوا‘ کتنوں کی ٹانگیں کٹیں‘ اکثر اندھے ہوجاتے ہیں اور کتنے ایسے تھے جو ارب پتی تھے آج وہ فقیر ہیں۔ مجھے خود شکاریوں نے اور ان کے گائیڈوں نے یہ بات بتائی کہ جب گولی چلتی ہے تو گولی یہ نہیں دیکھتی کہ سامنے ہرنی ہیں یا ہرن۔۔۔ حاملہ ہے یا بچوں کو دودھ پلانے والی۔ بس گولی چلتی ہے۔۔۔۔ اور یہ اس زخمی ہرن پر دوڑتا ہے اور جاکر اس کی گردن پر ذبیح کےنام پر چھری چلاتا ہے لیکن اس کے اندر سے نکلنے والی آہ جس کے بچے ماں کے دودھ کے پیاسے یا پھر جس کا پیٹ جب چاک کرتے ہیں اندر سے بچے جو ان کے کسی کام کے نہیں ہوتے وہ تڑپتے تڑپتے ان کے سامنے مرجاتے ہیں کیا انہیں کوئی پیغام نہیں ملتا‘ انہیں ملے نہ ملے عرش والے کو ایک پیغام دےکر یہ بیٹھے ان کی بوٹیاں نوچ رہے ہوتے ہیں اور ہر بوٹی کا ذرہ زرہ پکار رہا ہوتا ہے کہ خیال کر تیری قسمت کے فیصلے بدل چکے ہیں‘ تیرا نصیب اندھیری رات میں کھو رہا‘ تیری چاندنی ڈوب گئی ہے‘ تیری دولت چھن گئی ہے‘ تیری صحت کو زوال آگیا ہے اور ایسا ہوتا ہے میرےقریب کےرشتےدار جس کو دن رات بس شکار کا شوق تھا‘ وہ بڑےبڑے افسران کو ہرن کےبچے دینا اور ان کو گفٹ کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتا تھا مجھےپتا ہے آج وہ ایک کرائے کےمکان میں نہایت ذلت کی زندگی گزار رہا بلکہ پچھلے دنوں وہ ایک کرائے کے موٹرسائیکل پر جارہا تھا قرض لینے والوں نے موٹرسائیکل پکڑ لی اسے تھپڑ مارے اس کا موٹرسائیکل رکھ لیا بہت لوگوں نے اس کو دیکھا اور سنا ایک بار میں نےخود اسے کہا بہت اور مشغلے پڑے ہیں یہ ہرن مارنے کا مشغلہ چھوڑ دے۔ میری بات کو نہایت ذلت آمیز مذاق کے ساتھ اس نے ہواؤں میں اڑا دیا۔ میں خاموش ہوگیا لیکن وقت خاموش نہ ہوا وقت کے دھارے بدلتے گئے اور چھاؤں دھوپ میں اور حتیٰ کہ ایسی دھوپ کڑی دھوپ جس دھوپ میں ہرنوں کی آہیں‘ ان کے بچوں کی سسکیاں‘ ان کی پیاسیں‘ ریت میں تڑپنا‘ اس کے قہقہے‘ اس کی ہڈیاں چبانے کی آوازیں‘ گوشت نوچنے کی کیفیت۔۔۔ یہ سب کچھ اسی دھوپ میں شامل تھے لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد اس دھوپ نے دیکھا اور آسمان نے اس کی گواہی دی یہ سسک سسک کر رویا‘ یہ بلک بلک کر تڑپا لیکن اسے ہرن کی ماں‘ ہرن کے بچوں اور خود ہرن کی سسکیاں سنائی نہ دیں۔ اےکاش! اس کو پہلے سمجھ آجاتی مجھے کتنے لوگ ایسے ملے جن کی ٹانگیں کٹیں‘ بظاہر کسی بیماری کےنام پر لیکن بنیاد اس ہرن کی سسکیاں، تڑپ اور چبھن تھی۔ وہ آقا مدینے والےﷺ کا واقعہ یاد آیا کہ کسی نےہرن کو پکڑ کر درخت کے نیچے باندھا ہوا تھا اور مدینے والے ﷺ نے دور سے یارسول اللہ ﷺ یارسول اللہ ﷺ یارسول اللہ ﷺ کی آواز سنی۔ آپﷺ تشریف لے گئے۔ اس واقعہ کا مفہوم ہے اس ہرنی نے عرض کیا آپﷺ مجھے چھوڑ دیں میں بچوں کودودھ پلا کر واپس آجاؤں گی آپﷺ نے پوچھا اگر تو واپس نہ آئی تو ہرنی نے کہا مجھے وہ سزا دی جائے جو ٹیکس والوں کو قیامت کے دن ملے۔ میں جب بھی صحراؤں میں جاتا ہوں‘ مجھے وہ سزا یاد آتی ہے پھر وہاں مقامی لوگ مجھے واقعات سناتے ہیں۔ شکاری لوگ جو مجھے درد بھری کہانیاں سناتے ہیں مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمیں دوسروں کے انجام سے عبرت آخر کیوں نہیں ہوتی؟ دوسروں کا انجام آخر کیوں بھول جاتے ہیں؟ کیا شوق اور عشق آنکھوں پر پٹی ڈال دیتے ہیں؟ اگر جائز طریقوں سے شوق ہے تو میں اس کا خود روا ہوں لیکن میری درخواست ہے نہ سسکائیں‘ نہ تڑپائیں کوئی اور جائز شوق پورے کرلیں۔ لیکن۔۔۔! جانوروں کا شکار اور ہرن کے شکار کو شوق نہ بنائیں۔ ورنہ عرشی فیصلے تیرے خلاف ہوجائیں گے‘ فرشی نظام تجھ پر سمٹ جائے گا۔ دنیا تجھ سے روٹھ جائے گی‘ عزت کو کھوبیٹھے گا‘ شہرت سے گمنامی میں اور گمنامی سے ذلت کی طرف تیرے قدم اٹھنا شروع ہوجائیں گے۔آ۔۔۔!جلدی کر اپنی سوچوں کو بدل‘ اپنی سوچوں اور جذبوں کو بدل۔ میں بعض اوقات کسی راستے سے گزر رہا ہوتا ہوں‘ بظاہر کچھ نظر نہیں آتا لیکن مجھے کانوں میں کچھ سسکیاں محسوس ہوتی ہیں‘ میں ادھر ادھر دیکھتا ہوں کچھ نہیں ہوتا لیکن میرا وجدان اور میرے دل کی آواز مجھے اس کا جواب دیتی ہے یہ کسی ایسی حاملہ ہرنی کی سسکیاں ہیں یا کسی ایسی دودھ پلانے والی ہرنی کی آہیں ہیں جو نکلی تھی بچوں کی خوراک کیلئے کہ کچھ پانی اور گھاس کھا کر پھر جاکر انہیں دودھ پلاؤں گی اور کسی شکاری کی اندھی گولی کا شکار بن گئی اور وہ تڑپتے تڑپتے اپنی آہوں اور بے زبان بددعاؤں کے ذریعے اس گولی مارنے اور شوق سے سرشار شخص کا نصیب ڈبو گئی۔ تو کیا خیال ہے۔۔۔۔!!! نصیب بچانا ہے یا ڈبونا ہے۔۔۔۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 424 reviews.