نماز میں دیر اور بچی کا سکول
بعد سلام عرض یہ کرنا ہے کہ میری پنسار کی دکان ہے اور میری بیٹی مدرسہ کی طالبہ ہے۔ اس کو چھٹی ایک بج کر45 منٹ پر ہوتی ہے۔ میں آپ کے عبقری رسالہ کا مطالعہ کر رہا تھا۔ تقریباً ایک بج کر 35 منٹ کا ٹائم ہو گامیں آپ کے رسالہ کامطالعہ ختم ہی کرنے والا تھا کہ اس میں یہ تحریر لکھی دیکھی کہ اپنی زندگی کا جو حال ہو اگر لکھ نہیں سکتے ہیں تو فون پر یا (Email) پر ہمیں بتائیں ۔ کیا معلوم آپ کے 2 دو الفاظ کسی کی زندگی بدل دیں۔ تو یہ واقعہ اسی وقت میرے ساتھ پیش آیا۔ اب آپ اس کو میرا سوال سمجھ لیں یا پھر آپ بیتی، جہاں چاہیں تحریر فرمائیں!
ہوا یہ کہ میں آپکے رسالہ کا مطالعہ کر رہا تھا کہ بچی کے سکول سے چھٹی کا ٹائم ہو گیا۔ میں رسالہ بند کرکے دکان سے نکلنے والا تھا کہ میرے کالج کے زمانے کا دوست مجھ سے ملنے اور مشورہ کرنے پہنچ گیا۔ ادھر بچی کے سکول کی چھٹی کا وقت بھی ہو رہا تھااور اُدھر ایک پرانا دوست ۔تو دل میں یہ خیال کرکے کہ چلو چھٹی کے بعد بچی نے سکول میں ہی تو رہنا ہے۔ چھٹی کا ٹائم ہے کون سا سکول لگنے کا ٹائم ہے۔ یہ سوچ کر دوست کے ساتھ بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا اور باتوں باتوں میں کافی ٹائم گزر گیا۔ تقریباً بچی کو چھٹی ہوئے 15منٹ ہو گئے۔ دوست نے کہا اب میں چلتا ہوں کہ اتنے میں ہمسایہ دوکاندار آگیا ، میں اور وہ ایک ساتھ نماز کیلئے مسجد میں جاتے تھے اور کہنے لگا علی بھائی چلیں نماز کا ٹائم ہو گیا ہے۔ تو میں نے بڑے جوش میں آکر کہا کہ آپ چلیں میں تو ابھی تک بیٹی کو سکول سے لینے نہیں گیا۔ میں وہیں نماز پڑھ لوں گا۔ خیر اس کے بعد میں بچی کو لے کر گھر گیا اور واپس دکان پر آکر دکان کے سامنے باغیچہ سا بنا ہے ادھر انفرادی نماز ادا کرنے لگا تو اچانک دل میں خیال آیا کہ دوست کی خاطر بچی کا رونا اور دیر ہونا برداشت کرلیا اور جب نماز کیلئے دوست نے دعوت دی تو اللہ کیلئے بلکہ 27گنا ثواب یعنی کمائی سب بھول گئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے اس کا تمہیں بالکل ڈر خوف نہیں ۔تم جہاں 20سے 25منٹ
دوست کو دے کر بچی کو رونے کیلئے چھوڑ سکتے ہو جو تمہیں ناتو کچھ فائدہ دے سکتا ہے اور نہ کچھ ذرہ برابر بھی نقصان، تو اللہ کیلئے بھی 10منٹ دے سکتے تھے۔ جبکہ تمہارا تو یہ ایمان ہونا چاہیے تھا کہ تم اللہ کے حضور حاضری دے رہے ہو اللہ تعالیٰ تمہاری بچی کی حفاظت اس کے سکول میں فرماتا ۔لیکن تم اتنے پرانے نمازی اور اس کے علاوہ اللہ نے تمہیں مختلف نعمتوں سے نوازا، والد کا حج بدل کروایا۔ چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، تمہارے کسی بھائی نے حج نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہلے والدہ کو حج کروانے کی سعادت دی پھر والد (مرحوم) کا حج بدل کی سعادت۔ اس کے باوجود تم اتنے کمزور ایمان نکلے یا اتنی جلدی شیطان کے بہکاوے میں آگئے۔بس نماز میں کھڑا تھا اور یہ تمام باتیں ذہن کے گرد گھوم رہی تھیں اور ندامت اور پشیمانی سے نماز پڑھتے ہوئے شرم آرہی تھی۔ یہ میرے دل کی آواز تھی اور میرا سوال اپنے آپ سے کہ تم اتنے خودغرض کیسے ہو سکتے ہو؟۔
(محمد علی انصا ری ۔ کو ئٹہ )
سلام کرنے کے احکام و آداب
حسب ذیل امو ر و حالات میں مشغول شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے اور کوئی شخص ایسی حالت میں اس کو سلام کرے تو ایسے شخص پر اس کا جو اب دینا واجب نہیں ۔
(1 ) حالتِ نما ز میں (2) حالتِ ذکر میں (3) حالتِ خطبہ میں(4 ) حالتِ درس میں (5)حالتِ تلا وت میں (6) حالتِ اذان میں(7 ) حالتِ اقامت میں (8)حا لتِ دعامیں (9 ) حالتِ تسبیح میں (10) مسائلِ شرعیہ کے مذاکرہ اور تحقیق کے دوران (11)فیصلے کے دوران (قاضی کو ) (12) کسی کے کھا نے پینے کے دوران (13) اجنبی عورت کو(14)برہنہ شخص کو (15)تلبیہ ( لَبَّیکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیکَ) پڑھنے کی حالت میں-(16) حالتِ امامت میں (17) قضا حاجت کے دوران(18)حمام میں (19) حا لتِ وعظ میں(20)مسجد میں نما ز کے انتظار میں بیٹھنے والو ں کو نیز درج ذیل لو گو ں کو بھی سلام کرنا مکروہ ہے اور اگر یہ لو گ کسی کو سلام کریں تو ان کے سلام کا جوا ب دینا وا جب نہیں ۔
(1)علی الاعلان فسق و فجو ر میں مبتلا شخص (2) بھیک مانگنے والا (3)غیبت کرنے والا (4) سونے والا (5) شطرنج اور جوا کھیلنے والا(6)گانے بجانے والا (7) کبو تر با ز(8) پاگل(9) اونگھنے والا (10)گالی بکنے والا (11) بات بات پر جھو ٹ بولنے والا (12) شرا بی (13) زندیق(14)کافر (از ردالمختار علی الدرالمختار )( شامی ) ) ج 1 ، ص،414،415) ( سجا د احمد بھٹی ۔ جڑانوالہ )
خالی گملا
بہت پرانے زمانے میں ایک با دشا ہ تھا ، اس کا کوئی بیٹانہ تھا ۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اسے فکر ہوئی کہ اس کے مر نے کے بعد تخت و تا ج کا وا رث کون ہو گا ؟ لہذا ایک دن اس نے اپنے ملک میں اعلا ن کرا یا کہ وہ ایک بچے کو گو د لینا چاہتا ہے جو بعد میں اس کے تخت و تا ج کا وارث ہو گا ۔ بچے کے انتخا ب کے لیے یہ طریقہ بتا یا گیا کہ ہر بچے کو بیج دیا جا ئے گا ۔ جس بچے کے بو ئے ہوئے پو دے پر سب سے خوبصور ت پھول کھلے گا ، وہ بادشا ہ کا وا رث بنا دیا جا ئے گا ۔ سونگ چن نامی کا ایک لڑکا تھا ، اس نے بھی بادشاہ سے ایک بیج لیا اور اپنے گھر آکر ایک گملے میں بو دیا ۔ وہ ہر روز اسے پانی دیا کر تا تھا ، اسے امید تھی اس کے پودے پر سب سے زیا دہ خوبصور ت پھو ل کھلے گا ۔ دن گزر تے گئے مگر گملے میں سے کچھ بھی نکلا ۔ سو نگ چن کو بڑی فکر تھی۔ اس نے ایک اور گملا خریدا اور دور سے جا کر مٹی لایا اور اس بیج کو دو با ر ہ احتیا ط سے لگا یا مگر دو مہینے گزر جانے پر بھی گملے میں سے کوئی پو د ا نہ نکلا ۔ پلک جھپکتے میں پھو لو ں کی خوبصور تی کا دن آ پہنچا ۔ سارے ملک کے بچے شاہی محل میںجمع ہوئے ۔ ہر ایک اپنے ہاتھو ں میں ایک گملا لیے ہوئے تھا ۔ گملو ں میںرنگ برنگے پھول کھلے ہوئے تھے ۔ وہ واقعی بڑے خوبصور ت تھے ۔ بادشا ہ پھو ل دیکھنے بچو ں کے پا س آیا۔ وہ ہر ایک خوبصورت پھول کو دیکھتا رہا مگر اسے کوئی پسند نہیںآرہا تھا ۔ چلتے چلتے اچانک اس کی نظر سونگ چن پر پڑی جو ایک خالی گملا لیے سر جھکائے کھڑا تھا ۔ سو نگ چن کے پاس جا کر رک گیا اور اس سے پو چھا : ”بیٹے ! تم خالی گملا لیے کیو ں کھڑے ہو ؟“ سونگ چن نے روتے ہوئے کہا : ” میں نے بیج گملے میں ڈالا تھا اور روزانہ پانی بھی دیتا تھا مگر اس سے اب تک کوئی پو دا نہیں اگا ، اس لیے خالی گملا لیے کھڑا ہو ں ۔“ بات سن کر باد شاہ ہنس پڑا ، اس نے کہا تم ایک سچے لڑکے ہو، مجھے اپنے تخت و تا ج کے لیے تم جیسے سچے لڑکے کی تلاش تھی ، تم ہی اس ملک کے با دشا ہ ہو گے ۔ “بات یہ تھی کہ با دشا ہ نے جو بیج بچو ں میں تقسیم کیے تھے وہ سب خرا ب تھے ، لہذا ان کے پھوٹنے یا ان پر پھول لگنے کا سوال ہی پیدانہیں ہو تا تھا ۔ دوسرے بچے اس لیے خوبصورت پھول کھلا نے میں کا میا ب ہو گئے تھے کہ انہو ں نے اس خراب کی جگہ اچھے بیج بو ئے تھے مگر سونگ چن نے یہ غلط حرکت نہیں کی تھی اور جھو ٹ سے کا م نہیں لیا تھا ، لہذا اسے سچائی کا انعام مل گیا ۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 506
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں