Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

قارئین کی خصوصی اور آزمودہ تحریریں

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2010ء

ہماری پریشانیوں اور مشکلات کا حل ذرا سوچئے قبر کا گھپ اندھیرا ہو گا۔ ہمارا مال وہاں کام آئے گا نہ اولاد۔ 1۔اس وقت ہماری چیخیں‘ ہماری تڑپ‘ ہماری فریاد کون سنے گا۔ ابھی وقت ہے سنبھل جائیں۔ یہ دنیا دارلعمل ہے۔ مرنے کے بعد دارالخیر ہو گا۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور چھوٹی سے چھوٹی برائی کو حقیر نہ جانیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاںہمارے لئے آخرت میں جنت کا اور چھوٹی چھوٹی برائیاں جہنم کا سبب بن سکتی ہیں۔ آئیے آج سے ہم اپنی زندگی کو نیکیاں کرنے اور برائیوں سے بچنے کےلئے وقف کر دیں۔ اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیئے گئے احکامات ہمارے لئے ہر حال میں مقدم ہیں اور ان کا ادا کرنا ہم پر فرض ہے۔ ان سے انکار کفر ہے۔ 2۔ راستے سے پتھر ہٹا دینا نیکی ہے۔ راستے سے کانٹا ہٹا دینا نیکی ہے۔ کسی کو صحیح راستہ دکھانا نیکی ہے۔ کسی سے مسکرا کر بات کرنا نیکی ہے۔ آپ کسی سے مسکرا کر بات کریں جواب میں وہ بھی مسکرا کر بات کرے گا۔ آپ بھی خوش‘ دوسرا بھی خوش‘ اللہ اور اللہ کا حبیب بھی خوش۔ 3۔ آپ دوسروں کےلئے اچھا سوچیں‘ دوسروں کی مدد کریں جہاں تک ہو سکے فعل و عمل سے دوسروں کی تکالیف دور کرنے میں مدد دیں۔ جواب میں اللہ تعالیٰ آ پ کو بھلائی عطا کرے گا اور آپ کی بھی تکالیف دور فرمائے گا۔ 4۔ کوشش کریں ( اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں) کہ آپ صبح اذان فجر سے پہلے اٹھیں اور نماز تہجد ادا کریں۔ اس وقت ماحول نہایت پر نور اور روح پرور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نور اور اس کی رحمتیں زمین والوں کے بالکل قریب ہوتی ہیں۔ کیوں نہ ہم اس کی رحمتوں اور انوار و برکات سے اپنے آپ کو مستفید کریں۔ 5۔ اس کے بعد نماز فجر ادا کریں۔ روزانہ قران مجید کی تلاوت ترجمے کے ساتھ کریں۔ صبح کا ناشتہ کریں اور جلدی روزی کےلئے نکل جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیںرزق حلال کمانے اور کھانے کی توفیق فرمائے۔ آمین۔ 6۔ ہر ملنے جلنے والے کو السلام علیکم ( سلام )کہیں۔ 7۔ کوشش کریں کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر زبان پر رہے۔ ظاہر ہے کہ آج کل کے حالات اور نفسانفسی کے عالم میں یہ بہت مشکل ہے۔ ایسے حالات میں جتنا بھی ہو سکے اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں۔ ایک ضروری کام(i) دو رکعت نماز صلوٰة حاجت روز پڑھا کریں۔ اس کو اپنی عادت بنا لیں۔ اس نماز کے بعد اپنی اپنے اہل و عیال کی صحت ‘ تندرستی‘ رزق میں ترقی‘ غیب سے مالی مدد اور دیگر ضرورتوں کے پورا کرنے۔ ہر قسم کی آفات و بلیات‘ بیماری‘ فتنہ و فساد‘ پریشانیوں ‘ مشکلات‘ تکالیف سے نجات اور مستقبل میں حفاظت کی دعا کریں۔ خصوصی دعا:- اے اللہ تو مجھے اور میرے اہل و عیال کو اپنے فضل سے دیئے جانے والے حصوں میں سے افضل ترین حصہ عطا فرما: (آمین) (غلام محمد یٰسین قادری) کتابیں پڑھنے کی عادت انسان کی لازمی ضرورت ترقی کرنے اور خوش گوار زندگی گزارنے کی خواہش ہر انسان میں موجود ہے لیکن اس راستہ میں چلنے کے تقاضوں سے مجرمانہ طور پر پہلو تہی کی جاتی ہے۔ دنیا میں جو لوگ کامیاب ہیں اور خوش باش روز وشب گزار رہے ہیں اگر ان کی زندگیوں کا نزدیک سے معائنہ اور مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ کتابوں سے والہانہ عشق ان کی ترقی کا راز ہے۔ پہلے ہم دنیا کی سب سے بڑی مادی ترقی کی حامل سپر پاور امریکہ کی مثال لیں گے وہاں درسی کتابوں کے علاوہ لوگ جو دوسری علمی کتابیں پڑھتے ہیں ان کی تعداد چالیس فیصد ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہمارے ہاں یہ تعداد صرف پانچ فیصد ہے وہ بھی صرف تین سے چار کتابیں سال بھر میں پڑھتے ہیں جبکہ امریکہ میں ہر شخص غیر نصابی کتابیں سال میں تقریباً دس کی تعداد میں پڑھ لیتا ہے۔ کتابوں کی اشاعت اور فروخت میں بھی امریکہ آگے ہے۔ اب ہم پاکستان کی کتابی سرگرمیوں کو لیتے ہیں۔ نصابی کتابوں کا نوے فیصد امریکہ اور دیگر یورپین ممالک سے آتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہاں جن لوگوں کے پاس مالی ذرائع وافر تعداد میں موجود ہیں وہ اپنے روپیہ کا زیادہ حصہ کپڑوں، زیورات، تقریبات، شادی بیاہ اور دیگر دکھاوے کی اشیاءپر صرف کر دیتے ہیں۔ ہم میں شعور ہی نہیں کہ قومیں علم وحکمت سے بنتی ہیں اور اس کا ذریعہ کتابیں ہیں۔ ٹیلیویژن کبھی کتابوں کا متبادل ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہ تو ایک سایہ ہے ایک شعاع ہے جو ہاتھ نہیں آتی صرف لمحہ بھر کا نظارا ہے۔ کتاب ایک بہترین اور ہر وقت ساتھ دینے والی ساتھی اور ہمدرد ہے۔ کتاب پڑھنے کی اتنی اہمیت ہے کہ قرآن حکیم کا پہلا حکم جو نازل ہوا وہ بھی اقراءیعنی پڑھ اور یہ ساری امت کو قیامت تک ہدایت ہے کہ پڑھنا پڑھانا ہی اس کا اوڑھنا اور بچھونا ہونا چاہئے۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے اس پر عمل کر کے دکھلایا اور انہی کی کتابوں کو بنیاد بنا کر آج کی سپر پاور فخر کر رہی ہے اور وہ اس کو تسلیم بھی کر رہی ہیں کہ بو علی سینا کے علوم کی بنیاد نہ ہوتی تو ہم یہ ترقیاں نہ کر سکتے۔ اسی لئے دنیا کے سائنسدانوں نے چاند پر ایک مطفے کا نام بو علی سینا کے نام پر رکھ دیا ہے۔ ہم مسلمان صرف پدرم سلطان بود کے نعرہ پر اکتفا کر رہے ہیں۔ جدید ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ چند گھنٹے روزانہ باقاعدگی سے کتابیں پڑھنے والے کی صحت اچھی رہتی ہے اور اوسط عمر بڑھ جاتی ہے۔ جسم کو خوراک ضروری ہے اور دماغ کو مطالعہ کی ضرورت ہے کیونکہ دماغ ہی جسم کو چلاتا ہے۔ آج سے آپ بھی باقاعدہ مطالعہ کو اپنے پروگرام کا حصہ بنائیں۔ کتابوں سے عشق کی حد تک لگاﺅ ضروری ہے ہم مسلمانوں کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب کا پہلا حکم اقراءہے یعنی پڑھو! جب تک مسلمان اس حکم پر عامل رہے دنیا پر حکمرانی کرتے رہے جب سے اس کو چھوڑا ذلیل وخوار ہوئے۔ امت مسلمہ کے زوال پر آج بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ بہت سی وجوہات پر روشنی ڈالی جا رہی ہے لیکن سب سے بڑی وجہ کتابوں کی جانب سے چشم پوشی یا کوتاہی ہے۔ دشمنان اسلام نے اس راز کو پا لیا ہے اسلامی تہذیب وتمدن کو مٹانے کے لئے اس کے کتب خانوں تہس نہس کرایا جائے چنانچہ بغداد، اسکندریہ اور سپین میں موجود کتابوں کوجلا کر دریا برد کر دیا گیا اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ حال ہی میں عراق میں حضرت امام اعظم کے روضہ پر موجود کتابوں کی الماریوں کو توڑ پھوڑ کر کتابوں کو آگ لگا دی گئی، یہ ایک بڑا المیہ ہے مسلمان قوم بے حسی کا شکار ہے اسے اپنے اس نقصان عظیم کا ذرا بھر احساس نہیں ہے چاہئے تو یہ تھا کہ مسلمان گھر گھر لائبریریاں کھول لیتے اور علم وفنون کی ریل پیل ہو جاتی اور ان مویتوں کی مالائیں پھر سے پرو لیتے۔ اگر ہم دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے اکابر نے کتابوں کو اپنی قومی زندگی میں بہت اعلیٰ مقام دیا۔ علم کی ترویج کے لئے کتابوں کے انبار لگا دیئے۔ ان کی نظر میں بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان تھا کہ ایک عالم کے قلم کی سیاہی ایک شہید کے خون سے برتر ہے۔ جاہل آدمی مردہ اور عالم ز ندہ شمار ہوتا ہے۔ کتابوں کے ذوق وشوق کے باعث دوسری صدی ہجری ہی میں ہزاروں پبلک لائبریریاں وجود میں آچکی تھی جن میں طب ‘علم کیمیا‘ نجوم‘ جغرافیہ جیسے موضوعات پر مشتمل کتب کے ذخیرے موجود تھے۔ دینی علوم تفسیر قرآن وحدیث فقہ اور قانون پر بھی بہت کام ہوا۔ حکومتوں کی سرپرستی نے بھی کتابوں کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کی علمی دوستی ضرب المثل ہے۔ دوسری زبانوں سے تراجم کے ذریعے علوم کا خزانہ بڑھایا گیا یہ موضوع خاصا طویل ہے صاحب علم لائبریریوں کو دنیا میں جنت سے تعبیر کرتے تھے۔ بعض کا مقولہ تھا کہ کتابیں ہیں چمن اپنا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ان سے دل کی دنیا آباد ہوتی ہے۔ ۔ زمانہ وسطیٰ میں کتابوں کی اتنی بھاری تعداد پائی جاتی تھی کہ سپین کے الحکم بادشاہ کے کتب خانہ میں چار لاکھ کتابیں تھیں۔ بعض کتابوں کی فہرست تقریباً ہزار صفحات پر مشتمل ہوتی تھی۔ کتابوں سے عشق کی حد تک پیار کرنے والے مسلمانوں نے سائنسی علوم میں بھی بہت سے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ ان کی گراں قدر دریافتوں کی بنیاد پر آج کی سائنس نے محل تعمیر کئے ہیں۔ افسوس مسلمانوں کے ہاتھ سے یہ رسی چھوٹ گئی۔ آج بہت سے مضامین مسلمانوں کی زبوں حالی کی وجوہات پر تحریر کئے جا رہے ہیں جن میں بہت سے پہلوﺅں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے لیکن ان میں سب سے بڑی وجہ اور کوتاہی کتابوں ہی سے غفلت ہے۔ کتابوں کو دل میں بسانے والوں کے حالات بیان ہوں تو آپ حیران رہ جائیں۔ ایک مفکر جاہز نام تھے چوبیس گھنٹے اپنی کتابوں ہی میں گم رہتے تھے۔ آخر کتابوں کا ایک ڈھیر ان پر گرا اور وہ جاں بحق ہو گئے۔ ہمایوں بادشاہ کو کتابوں کا بہت شوق تھا وہ اپنے کتب خانہ کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے پھسل گئے اور جان دیدی۔ کتابوں کے ایک رسیا بحری جہاز پر سفر کر رہے تھے کہ طوفان نے آلیا۔ ان کے بچنے کی ایک ہی تدبیر تھی یا وہ مال ودولت کے ڈھیروں کو بچا لیں یا وہ کتابوں کو۔ انہوں نے صرف کتابوں کو بچانا پسند کیا۔ شیخ الرئیس بوعلی سینا نے حاکم وقت کا علاج کیا اور وہ تندرست ہو گیا۔ شیخ کو جو انعامات دیئے گئے ان میں سب سے بڑا انعام خلیفہ کے شاندار کتب خانہ تک رسائی تھی۔ اس زمانہ میں یہ کتب خانہ اپنی نوعیت کا بے مثال ادارہ تھا۔ ابن سینا نے تقریباً ایک سو کتابیں تصنیف کیں۔ ”القانون فی الطب“ کو دوامی شہرت حاصل ہوئی۔ ہم اب زمانہ حاضر کی جانب رخ کرتے ہیں۔ فی زمانہ گو بہت سی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں لیکن افسوس حکم اول اقراءسے روگردانی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لوگوں کو اپنے گھروں میں ”منی لائبیریریاں“ کھولنے کی ترغیب دی جائے اس کے لئے سستی کتابوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے مطالعہ کی ضرورت اور فوائد پر مضامین کثرت سے شائع کئے جائیں۔ اخبارات اور رسائل اس موضوع کو ایک مستقل فیچر بنا دیں۔ حکومت پر زور دیا جائے کہ ڈرائیونگ لائسنس اور دوسرے ڈاکومنٹ صرف پڑھے لکھے لوگوں کو جاری کئے جائیں دیگر ذرائع بھی وضع کئے جا سکتے ہیں صرف ذہنوں میں اس مشن کی اہمیت کو جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ چائے پیجئے مگر اعتدال سے چائے دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے روایتی مشروبات میں ایک ہے۔ پانچ ہزار سال پہلے چائنہ میں دریافت ہونے والا یہ مشروب آج دنیا کے بیشتر ممالک میں روزمرہ کی زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ چائے کی کیمیائی خصوصیات ایک کپ چائے میں مندرجہ ذیل غذائی اجزا پائے جاتے ہیں پولی فینولز: چائے کا ذائقہ اس میں موجود پولی فینولز کے باعث ہوتا ہے ان پولی فینولز میں سب سے اہم catechins ہیں جو کہ بہت سی دافع اینٹی خصوصیات کا باعث ہیں مثلاً دافع تکسید (Anti-oxidant) محلل اورام (Anti-inflamotaxy) اور Anti mutagenix وغیرہ۔ فلوونائیڈز: یہ اجزاءچائے کی رنگت بنانے کا باعث ہوتے ہیں اہم فلوونائیڈز میں Thearubigens, Theaflavins, Flavonois شامل ہیں جو کہ انفیکشن کے اثرات کو کم کرنے اور خون کی باریک نالیوں کو صحت مند رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ تھیانن: یہ ایک ایسا امائینو ایسڈ ہے جو کہ ذہنی دباو ¿ کو کم کرتا ہے۔وٹامن: چائے میں کیروٹن، وٹامن بی (B6,B2,B1) نیامن‘ فولک ایسڈ اور پینٹوتھنک ایسڈ اور وٹامن سی پائے جاتے ہیں۔ مینرلز: چائے میں مینگانیز اور پوٹاشیم K کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ذینتھین (Xanthanes): ان میں کیفین اور تھینو فائلین شامل ہیں تھینوفائلین کا دمہ کے خلاف دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ چائے اور کیفین تحقیق سے جہاں کیفین کے منفی اور مثبت اثرات سامنے آئے ہیں وہاں سائنسدان اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اعتدال میں کیفین کا استعمال صحت کیلئے مضر نہیں ہے۔ امریکہ کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق روزانہ 300 ملی گرام کیفین کے استعمال سے صحت کوکوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ البتہ بچوں اور حاملہ عورتوں کو اس سے کم مقدار استعمال کرنی چاہیے۔ کیفین کے دلچسپ حقائق چائے میں کافی کے مقابلے میں 1/10 کیفین ہوتی ہے۔ سبز چائے میں دوسری چائے کی نسبت 1/3 کیفین ہوتی ہے۔ کیفین کی مقدار چائے بنانے کے طریقہ پر منحصر ہے۔ اسی لیے تیز چائے کے بجائے ہمیشہ ہلکی چائے پینی چاہیے۔ کیفین کے دماغ پر اثرات کیفین دماغ پر دو طرح سے اثرانداز کرتی ہے۔ 1۔ یہ دماغ میں اڈینولین کی جگہ لے لیتی ہے جس کے باعث اڈینولین کام نہیں کرسکتی۔ اڈینولین غنودگی طاری کرتے ہیں اسی لیے چائے پینے کے بعد نیند اڑ جاتی ہے۔ 2۔ یہ خون میں ڈوپامین کی مقدار کو کم کرتی ہے جس کے باعث موڈ بہتر ہوجاتا ہے۔ چائے پینے کے عادی لوگوں کی اکثریت اسی وجہ سے چائے کو پسند کرتی ہے۔ چائے اور انسانی صحت چائے کی افادیت اور نقصانات کا جدید سائنس کی روشنی میں جائزہ: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چائے وٹامن حاصل کرنے کا ذریعہ ہے جو کہ غلط ہے چائے میں وٹامن پائے ضرور جاتے ہیں مگر ان کی مقدار اتنی نہیں ہوتی کہ وہ جسم کی غذائی ضروریات کو پورا کرسکیں۔ ٭ چائے امائینو ایسڈ کا ایک بہترین ذریعہ ہے جن میں ایک تھایامین ہے جاپانی تحقیق کے مطابق یہ جسم کے تناو ¿ کو ختم کرتا ہے۔ ٭ چائے جسم میں آئرن کو جذب ہونے سے روکتی ہے چائے میں پائے جانے والے فلوونائیڈز جسم میں فولاد جذب ہونے سے روکتے ہیں۔ وٹامن سی کے استعمال کو بڑھا کر اس کے اثر کو کم کیا جاسکتا ہے۔ (محسن الفارابی‘ جھنگ صدر) مندرجہ بالا سائنسی تحقیق کی رو سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اعتدال میں چائے کا استعمال نقصان دہ نہیں ہے۔ اس لیے چائے کا استعمال ضرور کیجئے مگر اعتدال کے ساتھ........ (محسن الفارابی‘ جھنگ صدر)
Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 919 reviews.