ہمارے اردگرد ایک روحانی عالم ہے اور اس روحانی عالم کا مادی عالم سے حقیقی رابطہ ہے‘ مادی عالم کا قیام اس روحانی عالم کی بدولت ہے۔ ہماری باطنی قوت کا ماخذ بھی یہی روحانی عالم ہے جس طرح جسم عالم مادی سے غذا حاصل کرتا ہے
دعا بندہ کا اپنے خالق سے براہ راست مکالمہ ہے۔ جدید ماہرین نفسیات دعا کی معالجاتی اہمیت سے آگاہ ہورہے ہیں۔ احساس گناہ جو کہ تشویش‘ خوف اور ڈیپریشن کا موجب ہوسکتا ہے۔ اس کو فرد کے ذہن سے نکال پھینکنے میں دعا بحیثیت آلہ علاج بہت اہمیت کی حامل ہے۔ بقول ولیم جیمز ’’خارجی ماحول میں کوئی تبدیلی پیدا کرسکے یا نہ مگر باطن میں تبدیلی یقیناً ہوتی ہے‘‘ مذہب کے اندر یہ یقین واثق ہے کہ جو نتائج کسی اور طریقے (طبعی طریقے) سے پیدا نہیں ہوسکتے وہ دعا سے پیدا ہوسکتے ہیں (نفسیات واردات روحانی) فریڈرک مائزر ’’میرے لیے یہ ایک امر واقعہ ہے کہ ہمارے اردگرد ایک روحانی عالم ہے اور اس روحانی عالم کا مادی عالم سے حقیقی رابطہ ہے‘ مادی عالم کا قیام اس روحانی عالم کی بدولت ہے۔ ہماری باطنی قوت کا ماخذ بھی یہی روحانی عالم ہے جس طرح جسم عالم مادی سے غذا حاصل کرتا ہے باطن روحانی عالم سے فیض یاب ہوتا ہے۔ دعا اس کیفیت نفس کا نام ہے جس سے باطن روحانی قوت کو جذب کرتا ہے مگر اس عمل کی پوری ماہیت ہم پر واضح نہیں عمل ضرور ہوتا ہے۔ مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے ہوتا ہے نتائج ہمارے سامنے واضح رہتے ہیں تو ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں مطلوب تھا‘ دعا کی بدولت وہ ہمیں مل گیا۔ اس طرح یقین کی قوت ہمیں حاصل ہوتی ہے جس سے ہم میں مسائل کا مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا ہوجاتی ہے۔ ہدایت الٰہی کے شعور کے ساتھ ہر چیز کی نسبت انسان کا زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے۔ مسائل کے حل کرنے کے متعلق کامیاب طریقہ کار اس کے ذہن میں نقش ہوجاتا ہے جسے بروئے کار لاکر وہ اپنے مقاصد حاصل کرلیتا ہے مگر سائنس جس طرح یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ گائے کے تھنوں میں دودھ کیسے پیدا ہوتا ہے اسی طرح وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ دعا سے خیالات اور کیفیات کس طرح بدل جاتی ہیں۔
جب ہم سب چیزوں کو نور الٰہی سے دیکھنے لگتے ہیں اور ہر شے کو مشیت الٰہی سے وابستہ کرکے سوچتے ہیں تو ہر بات ہمارے لیے بلندمعنی کی حامل ہوجاتی ہے جس طرح ایک پھول کو دیکھ کر عام شخص ایک شاعر کے احساس کا سا احساس پیدا نہیں کرسکتا اسی طرح ہر شخص چیزوں کی ماہیت کو اس نظر سے محسوس نہیں کرسکتا جس طرح اہل ایمان‘ حامل تقویٰ محسوس کرسکتا ہے۔ ایک ہی کتاب پڑھنے والا ہر شخص اس کتاب سے مختلف بصیرت حاصل کرتا ہے بقول ایک دانشور کتاب کو بھی علم ہے کہ اسے کون پڑھ رہا ہے اور اسے کیا فیض عنایت کرنا ہے ہر شخص کو اس کے ظرف کے مطابق فیض ملتا ہے۔
ایک جرمن عورت اپنی سوانح میں لکھتی ہے ’’میں سمندر کے کنارے تنہا بیٹھی تھی کہ نفس کو وسیع کرنے والے اور زندگی میں موافقت اور ہم آہنگی پیدا کرنے والے خیالات دل میں موجزن ہونے لگے۔ میں نے بے بس ہو کر بحربے پایاں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے جو ہستی لامحدود کا مظہر ہے۔ میری روح دعا میں مشغول ہوئی اور زندگی میں پہلی مرتبہ دعا کی ماہیت مجھ پر منکشف ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ دعا انفرادیت کی تنہائی سے ہستی کل کی وحدت کے شعور کی طرف عود کر آنے کا نام ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں