اچھی امید نہیں
میری بات کوئی بھی توجہ سے نہیں سنتا‘ آخر میرے بھی مسائل ہیں۔ ایک کے بعد دوسری ناکامی ہورہی ہے۔ میٹرک میں تو پاس ہوگیا تھا مگر انٹرسائنس نہ کرسکا۔ مسلسل چار سال ہوگئے ہیں نمبر کم آتے ہوئے۔ اس مرتبہ بھی اچھی امید نہیں ۔ والد کہتے ہیں کہ پیسے کی فکر نہ کرو جتنا کہو گے خرچ کروں گا مگر تمہیں انجینئر بننا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا نہ کوئی مجھ سے ہمدردی رکھتا ہے۔ اعتماد سے محروم ہوتا جارہا ہوں۔ (عرفان احمد‘ فیصل آباد)۔
مشورہ: اگر آپ ہر ایک کو ہر وقت اپنے مسائل بتاتے رہیں گے تو ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ کوئی بھی آپ کی بات توجہ سے نہ سنے اور واقعی آپ کے ساتھ ایسا ہو بھی رہا ہے۔ دوسروں کو اپنے مسائل بتانا‘ مسائل کا حل نہیں بلکہ اس طرح تو آپ اپنی شخصیت کے کمزور ہونے کی نشاندہی کررہے ہیں۔ مسائل بیان کریں لیکن کسی ایک ایسے فرد کے سامنے جو صحیح حل بتاسکتا ہو جس پر اعتماد ہو اور جو سنجیدگی سے آپ کو وقت دے سکتا ہو‘ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں کے مسائل سے دلچسپی رکھیں اور انہیں اپنی مرضی سے مضامین کے انتخاب کی آزادی دیں اس طرح وہ زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ان سے کسی خاص فیلڈ میں مہارت حاصل کرنے پر دباؤ ڈالا جائے‘ آپ غور کریں کہ کیا کام بہتر کرسکتے ہیں اور پھر پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کریں۔ جو لوگ محنت کرتے ہیں اور یہ جان لیتے ہیں کہ وہ کیا بہتر کرسکتے ہیں تو ان میں چھپی صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور پھر وہ یکے بعد دیگرے کامیابی حاصل کرتے چلے جاتے ہیں اور اعتماد بھی بحال ہوجاتا ہے۔
بھائی کی سزا بہن کو۔۔۔؟؟؟
میں نے کسی کی معرفت سے اپنے بیٹے کا رشتہ غیروں میں طے کیا‘ لڑکی ماشاء اللہ پیاری اور بااخلاق ہے‘ والدین بھی نیک ہیں‘ ان کا گھرانہ ہمیں بظاہر اچھا لگا اس لیے مطمئن ہوکر رشتہ طے کردیا‘کچھ دنوں بعد ہمیں اطلاعات ملیں کہ لڑکی کا بھائی غلط لڑکوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔ ہم نے مکمل چھان بین کے بعد یہ بات ان کے گوش گزار کی۔ لڑکی اور اس کی والدہ ہم لوگوں کے سامنے رو پڑے اور انہوں نے کہا کہ ان کا سارا گھرانہ بہت شریف ہے مگر اس لڑکے کی دوستی محلہ کے بعض خراب لڑکوں سے ہوگئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ پوری کوشش کریں گے کہ وہ ان لڑکوں سے قطع تعلق کرلے‘ ہم مطمئن ہوگئے‘ مگر اب ایک ہولناک خبریہ آئی ہے کہ لڑکی کا بھائی ڈکیتی کے الزام میں پکڑا گیا ہے۔ اس لڑکے کا کہنا ہے کہ وہ بے قصور ہے۔ ڈکیتی میں شامل نہیں تھا۔ اب ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم کیا کریں ؟ ہمیں لڑکی اور اس کے والدین کی شرافت کا پورا یقین ہے لیکن لڑکی کے بھائی کی اس حرکت کی وجہ سے اس رشتہ کو قائم رکھنے کیلئے ہم مشکل کا شکار ہیں۔ میرے دونوں بیٹوں کے سسرال والے بھی نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ مہذب اور شریف لوگ ہیں۔ انہیں ابھی اس صورتحال کا علم نہیں ہے۔ اگر ہم نے رشتہ برقرار رکھا اور خدانخواستہ لڑکی کے بھائی کو سزا ہوگئی تو۔۔۔؟؟؟ اگر یہ رشتہ ختم کردیا جائے تو بے قصور لڑکی اور اس کے شریف والدین پر کیا گزرے گی‘ براہ کرم مشورہ دیں کہ ہم کیا کریں؟ (ش،ا)۔
مشورہ: ہماری نظر میں یہ معاملہ لڑکی والوں سے زیادہ خود آپ لوگوں کے تحمل اور وسیع القلبی اور فراست کی آزمائش ہے۔ اس لڑکے کے بگڑنے میں لڑکی اور اس کے والدین کا کوئی ہاتھ نہیں ہے‘ اس لیے بھائی کی غلط حرکتوں کی سزا بہن کو نہیں ملنی چاہیے۔ رسول اکرم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا کہ بیٹا باپ کے گناہ سے بری الذمہ ہے اور باپ بیٹے کے گناہ سے۔۔۔ بے شک لڑکے کی بے راہ روی میں اس کے والدین اور بہن کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا آپ کا ضمیر بھی یہی فیصلہ دے رہا ہے۔ جہاں تک شادی کرنے یا نہ کرنے کا تعلق ہے‘ شادی کے بعد خانگی زندگی کا محور شوہر اور بیوی ہوتے ہیں۔ لڑکی کے بھائی کی اچھائی برائی اپنی جگہ لیکن جب وہ لڑکی آپ کے گھر بہو بن کر آجائے گی تو آپ کا اور بیٹے کا معاملہ بہو کے والدین اور بہن بھائی سے نہیں بلکہ صرف بہو سے ہوگا اس لیے آپ کے بیان کردہ خاکے کے مطابق امید یہی کی جاسکتی ہے کہ وہ لڑکی مشرقی بہو کی طرح اپنے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزارے گی۔
سب سے بڑی دولت
میں ایک تجارت پیشہ آدمی ہوں‘ میرے چار بچے ہیں‘ عمر 55 سال ہے‘ پتہ نہیں کیوں مجھے اب اپنی ازدواجی زندگی میں کچھ کمی کا احساس ہورہا ہے۔ میرے ملنے والوں میں ایک 35 سالہ بہت اچھی خاتون ہیں جنہوں نے اب تک شادی نہیں کی۔ ان کے خاندان کا رکھ رکھاؤ اور سلیقہ طریقہ مجھے بہت پسند ہے۔ کروڑ پتی خاتون ہیں‘ گھر‘ گاڑی اور اچھا کاروبار ہے‘ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ مجھ سے بے حد قریب ہیں‘ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہ رہی ہیں‘ ان کی کوئی فرمائش بھی نہیں‘ مہر‘ گھر‘ روپیہ پیسہ کچھ بھی نہیں۔ میری بیوی خوبصورت‘ سمارٹ‘ پڑھی لکھی خاتون ہے اور مجھ سے پیار بھی بہت کرتی ہے لیکن نجانے کیوں اتنے عرصہ کی رفاقت کے بعد بھی وہ مجھے اچھی نہیں لگتی۔ مجھے بتائیے کہ میں کیا کروں؟(محمد عظیم‘ لاہور)۔
مشورہ: حقیقت یہ ہے کہ دوسری شادی کے بعد آپ کا سکون تباہ ہوجائے گا‘ میرا مشورہ ہے کہ تھوڑی سی ہمت کرکے اپنی بیگم سےاس مسئلے پر گفتگو کریں اور ان کا ردعمل دیکھیں۔ آپ کاروباری آدمی ہیں لہٰذا دوسری شادی سے اس لیے بھی خوش ہورہے ہیں کہ ان کے پاس سب کچھ ہے اور وہ آپ سے مہر تک نہیں لینا چاہتیں‘ آپ کو سراسر نفع ہی نظر آرہا ہے۔ لیکن خدارا! یہ سوچئے کہ آپ کے بچے کیا سوچیں گے؟ ان کا ردعمل کیا ہوگا؟ فوری مسرت کے حصول کی لگن میں شاید آپ ان کے جذبات کا صحیح اندازہ نہ لگاسکیں۔ قانوناً شرعاً آپ کو دوسری شادی کا حق حاصل ہے لیکن یہ خیال کریں کہ اتنے عرصے سے جو رفاقت چلی آرہی ہے اس میں دراڑیں پڑنے سے جو خلا پیدا ہوگا وہ کیسے پُر ہوگا؟ گاڑیاں بنانے والے مشہور ادارے‘ فورڈ کمپنی کے مالک ہنری فورڈ کی شادی کی 85 ویں سالگرہ منائی جارہی تھی۔ ان کے ایک عزیز دوست نے پوچھا: ’’آپ کی کامیاب ازدواجی زندگی کا راز کیا ہے؟‘‘ ہنری فورڈ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’ایک ہی ماڈل پر اکتفا‘ یہی کامیاب زندگی کا راز ہے‘‘ انسان کی سب سے بڑی دولت سکون ہے جو آپ کو میسر ہے‘ اس سکون کو تباہ ہونے سے بچائیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں