(محمد حسین)
ہمارے ایک رشتہ دار تھے ‘انہیں کبوتر پالنے کا بڑا شوق تھا۔ انہوں نے اپنی چھت پر کبوتر رکھے ہوئے تھے۔ ایک دفعہ کسی بلی نے ان کا کبوتر کھالیا ان کو چونکہ کبوتروں سے بے انتہا محبت تھی انہوں نے غصے میں آکر ڈنڈا زور سے بلی کے سر پر مارا اور بلی وہیں تڑپ تڑپ کر مرگئی جب ان کی والدہ کو اس بات کی خبر ہوئی تو انہوں نے غصے میں آکر اپنے بیٹے کے منہ پر تھپڑ مارا کہ تو نے بلی کو کیوں ماردیا۔؟ تو بیٹے نے غصے میں آکراپنی والدہ کا بازو پکڑا اور مروڑ دیا‘ ان کی والدہ درد سے کراہنے لگیں اور کراہتے ہوئے اپنے بیٹے کو بددعا دی کہ جس ہاتھ سے تو نے میرا بازو مروڑا ہے ‘ ساری زندگی اس بازو کو لے کر روتا رہے گا۔اس کا بیٹا کہنے لگا:’’جاؤ اتنی تم بددعا دینے والی آئی۔‘‘
ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اُس کے بازو میں شدید درد شروع ہوگیا‘دو تین دن تو ایسے ہی گزر گئے مگر درد دن بدن شدت اختیار کرتا گیا۔پھر اس نے مختلف حکیموں‘ ڈاکٹروں‘ جراحوں کے چکر کاٹنے شروع کردئیے مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔اسی طرح درد سہتے چار ماہ گزرگئے۔ ایک دن حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تربت پر گیا‘ صبح فجر کی نماز کے بعد اس کی آنکھ لگ گئی اس کو خواب میں کسی نے آواز دی کہ’’ ہمارے پاس کیا لینے آیا ہے‘ ہمارے پاس تیرے لیے کچھ نہیں ہے‘ گھر جا تیرے پیر وہیں بیٹھے ہیں‘‘ اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کو ساری بات سمجھ آگئی۔ اسی وقت گھر کی راہ لی اور گھر جاکر اپنی والدہ کے پاؤں پکڑ لیے اور رو رو کر معافی مانگنے لگا۔ ماں نے روتے ہوئے کہا : بیٹا !جا میں نے تجھے معاف کیا اور اپنا تھوک نکال کر اس کی بازو پر مل دیا اور اس کی صحت یابی کیلئے اللہ کے حضور دعا کی۔کچھ ہی دیر کے بعد اس کا درد جو تین چار ماہ سے علاج کے باوجود ٹھیک نہیں ہورہا تھا وہ ایسے ٹھیک ہوا جیسے کبھی درد ہوا ہی نہیں تھا۔
سود سے صرف تباہی ہی تباہی
(ایک بیٹی)
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! اللہ رب العزت آپ کو لمبی عمر اور صحت اور عزت عطا کرے میں اپنے چچا کا مسئلہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتی ہوں۔ وہ کراچی میں ہوٹل چلاتے تھے‘ کام اچھا تھا‘ وہ دوسروں سے سود پر پیسہ لیتے تھے‘ انہوں نے بہت سے لوگوں سے لاکھوں کے حساب سے پیسہ لیا اور انہیں ماہانہ قسط وار پیسے لوٹاتے تھے۔ اگر کسی سے پانچ لاکھ لیا ہے تو وہ پانچ ہزار ماہانہ دیتے تھے‘ اسی طرح انہوں نے سود پر پیسے دینے بھی شروع کردئیے‘ کسی کو رقم کی ضرورت ہوتی تھی وہ پانچ پانچ لاکھ دے دیتے اور پھر سود سمیت رقم وصول کرتے۔ہم نے انہیں لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ چچا جان یہ سود ہے آپ یہ کام نہ کریں لیکن وہ کب کسی کی سنتے تھے۔ خیر کام چلتا گیا۔ 60،70 لاکھ کے قریب قرض لےلیا اور انہیں ہر ماہ سود دیتے رہے۔ آٹھ نو سال ہوگئے کراچی شہر میں اپنا گھر خریدا‘ گاڑی خریدی‘ دبئی گئے گھومنے کیلئے‘ عمرہ کیا‘ والد کو کرایا۔ پھربڑی دکان لی‘ بڑے ٹھاٹ باٹھ تھے۔ 9 سال بعد آکر حالات خراب ہونا شروع ہوگئے۔ ایک سال میں سب بک گیا‘ کچھ نہ رہا۔ جس مکان کے مالک تھے اب اسی مکان میں کرائے پر رہ رہے ہیں‘ خود چچا جان وزٹ ویزے پر ملک سے باہر بھاگ گئے ہیں‘ قرض دار دروازے پر آکر کھڑے رہتےہیں۔ بیوی‘ بچے الگ پریشان‘ چھوٹے چھوٹے 2 بیٹے ہیں۔
جب سودکاکاروبار کرتے تھے تو نہ آج تک بیوی نے پوچھا کہ اتنا پیسہ کہاں سےآرہا ہے اور نہ ہی باپ نے پوچھا بس سب خوش تھے کہ میرا شوہر یا میرا بیٹا اتنا کمارہا ہے‘ اب وہی سب منہ موڑ رہے ہیں۔ میرےچچا بیرون ملک بے روزگار ہیں‘ در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔۔۔ مگر ان میں اکڑ اب بھی وہی ہے‘ بس ان کی زبان پر ایک ہی لفظ ہوتا ہے کہ میرے پاس اب بھی بہت پیسہ ہے جبکہ گھر میں ان کے فاقے چل رہے ہیں۔ کہیں ان کا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا۔۔۔؟؟؟
مظلوم کی بددعا
(ڈ،ب)
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! کہتے ہیں کہ مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ مظلوم کی بددعا سیدھی عرش پر جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ قارئین کی نذر کرتا ہوں:۔
میرے ایک دوست اپنے سسرالی رشتہ داروں سے ملنے اپنے شہرسے دوسرے شہر گئے‘ دو تین دنوں بعد واپسی پر مجھ سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے: ڈاکٹر صاحب میں جب وہاں گیا تو جس محلے میں میرے سسرال رہتے ہیں اس کے ساتھ والے محلے میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔
ہوا یوں کہ ایک آدمی کے مکان میں ایک کرائے دار رہتا تھا‘ ان دنوں وہ بے روزگار تھا اور اس نےا یک یا دو ماہ کا کرایہ نہیں دیا‘ مالک مکان نے اپنے ایک ساتھی کی مدد سے اس کا سامان وغیرہ باہر پھینکا اور اس کو دھکے دیکر گھر سے باہر نکالا اور ساتھ محلے کے چوک میں کھڑے ہوکر اس کو خوب بُرا بھلا کہا۔ اس کرائے دار سے اور تو کچھ نہ ہوا اس نے مالک مکان کو خوب بددعائیں دینی شروع کردیں۔ مالک مکان جب خوب اپنا غصہ ٹھنڈا کرکے اور اسے دھکے دے دے کر باہر نکال کر اپنے ساتھی سمیت واپس آیا تو کسی کام کیلئے گیس کا چولہا جلایا‘ چولہا جلاتے ہی اتنا زور دار دھماکہ ہوا کہ دونوں کے جسم کے ٹکڑے ادھر اُدھر دیواروں کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب! پہلے تو میں سنتا آیا تھا کہ مظلوم کی بددعا فوری لگتی ہے مگر مجھے اس واقعہ سے یقین ہو گیا کہ واقعی ہی بددعا لگتی ہے اور فوری لگتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں