Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

پیارے بچو! ایمانداری کا صلہ ایسے بھی ملتا ہے

ماہنامہ عبقری - مارچ 2014

کرمو مہمان کے سونے کا انتظار کرنے لگا تاکہ اس کے سامان پر قبضہ کرلے۔ جب مہمان سوگیا تو کرمو نے اس کی گردن دبا کر اس کی لاش کو دبا دیا۔ یہ کام اس نے رازداری اور بغیرآوازپیدا کیے ہوئے یا اور سوگیا۔

(محمدشاہد حفیظ)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام احمد تھا۔ احمد بہت غریب ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا‘ اس کا باپ محنت مزدوری کرتا تھا جس سے بمشکل گھر کا خرچہ چلتا تھا لیکن پھر بھی احمد کے باپ نے احمد کوسکول میں داخل کروادیا۔ احمد نہایت ایماندار اور عقلمند لڑکا تھا۔ ایک مرتبہ احمد کو بازار میں سے ایک تھیلی ملی‘ احمد نے وہ تھیلی اٹھائی اور اپنی جیب میں ڈال لی۔ اسی دوران اُس سے ایک پریشان حال شخص نے پوچھا ’’تمہیں یہاں گری ہوئی کوئی تھیلی ملی ہے‘‘ آپ کی تھیلی کیسی ہے؟ احمد بولا۔ اس شخص نے اپنی تھیلی کی چند نشانیاں اسے بتائیں تواحمدنے جیب سے تھیلی نکال کر اس شخص کے حوالے کردی۔ وہ شخص تھیلی پاکر بہت خوش ہوا اور بولا۔ بیٹا تمہارا بہت بہت شکریہ‘ تم نے مجھے تباہی سے بچالیا۔ اس تھیلی میں میری سال بھر کی کمائی جمع ہے یہ کہہ کر اس شخص نے احمد کو چاندی کا ایک سکہ انعام کے طور پر دیا۔ احمدنے سکہ لینے سے انکار کیا لیکن اُس شخص کے بے حد اصرار پراحمد سکہ لیکر واپس گھر کی طرف چل دیا۔ راستے میں ایک آدمی کودیکھا جو شہر سے سبزیوں کے بیج فروخت کرنے آیا تھا۔ احمد نے چاندی کے سکے سے سبزیوں کے بیج خرید لیے‘ گھر آکر اس نے زمین تیار کی اور سبزیوں کے بیج بو دئیے۔چند دن بعد ننھے منے پودے نمودار ہوگئے تو احمد بہت خوش ہوا۔ وہ اپنے پودوں کا بہت خیال رکھتا تھا۔ اس لیے اس کی فصل بڑی اچھی ہوئی‘ ایک دن وہ گھر بیٹھا تھا کہ سامنے سے وہی شخص گزرا جس کی تھیلی احمد نےلوٹائی تھی۔ احمد نے بھاگ کر اس شخص کو سلام کیا اور اسے اپنے گھر لے آیا‘ اس کی خاطر مدارت کی جب وہ جانے لگا تو احمد نے ایک ٹوکری میں تازہ سبزیاں بھر کر اسے پیش کیں۔ وہ شخص یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور پوچھا احمد بیٹا یہ کیا؟ ’’آپ کے دئیے ہوئے چاندی کے سکے سے میں نے یہ بیج خریدے تھے۔ ابھی بیجوں سے یہ سبزیاں تیار ہوئی ہیں۔ یہ میرے ننھے سےکھیت کی پیداوار ہیں اور یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ میری طرف سے آپ یہ حقیر تحفہ قبول فرمائیں۔‘‘ احمد نےجواب دیا۔
وہ شخص یہ سن کر بہت خوش ہوا اور بولا بیٹا میں زمیندار ہوں۔ مجھے ایک ایسے نوجوان کی ضرورت ہے جو ایماندار اور عقل مند ہو۔ اللہ کے فضل سے یہ دونوں خوبیاں تمہارے اندر موجود ہیں۔ آج سے میں نے تمہیں ملازم رکھ لیا ہے۔ تم دن کو تعلیم حاصل کیا کرنا اور شام کو میرے کاروبارکا حساب کتاب کیا کرنا۔ میں تمہیں اس کے عوض ہر ماہ 200 چاندی کے سکے دیا کروں گا۔ احمد یہ سن کر بہت خوش ہوا اور کام کرنے کی حامی بھرلی۔ اب وہ دن کو تعلیم حاصل کرتا اور رات کو کام کیا کرتا اور شام کو کام کیا کرتا۔ اس طرح تعلیم کی منزلیں طے کرتا ہوا احمد بڑا آدمی بن گیا۔ اس نے غریبوں کیلئے کئی سکول اور ہسپتال قائم کیے اور آرام سے زندگی بسر کی۔
اور چاندہمیشہ کیلئے ڈوب گیا
(عبداللہ‘ کراچی)
بہت عرصہ پہلےایک گاؤں میں ایک آدمی اور اس کا بیٹا رہتا تھا‘ وہ مچھیروں کا گاؤں گا۔ آدمی کا نام کرمو اور بیٹے کا نام چاند تھا۔ چاند اب سولہ سترہ برس کا تھا۔ وہ ہرکام میں اپنی مرضی کرتا‘ لیکن فضول باتوں سے گریز کرتا تھا‘ چاند نے ایک دن اپنے والد سے کہا کہ آج ہم گہرے سمندر میں چلیں گے۔ اس نے ضد کی اور کرمو نے اس کی بات مان لی۔ پھر وہ گہرے سمندر کی طرف کشتی میں سوار ہوکر چل دئیے مگر جب وہ دس بارہ میل آگے آئے تو سمندر میں ایک خوفناک طوفان آیا۔ اس طرح دونوں ایک دوسرےسے بچھڑ گئے۔ کرمو نے بے شمار آوازیں دیں مگر کوئی آواز نہ آئی‘ اور آخر کار کرمو نے رو پیٹ کر صبر کرلیا کیونکہ اس کے سوا چارہ نہ تھا‘ وہ خوب رویا چیخا مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ جب کرمو آیا اور اپنی بیوی کوچاند کے متعلق بتایا تو اسی وقت اس کی بیوی کو دل کا اٹیک ہوا اور وہیں جاں بحق ہوگئی۔ اب کرمو سارا دن بیٹھا رہتا‘ کبھی کبھار کوئی دوست آجاتا تو اس سے اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا۔ ورنہ رونے دھونے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا۔ کرمو کا غم اسے گھن کی طرح ختم کررہا تھا اب وہ بوڑھا ہوچکا تھا۔ شام کا کھانا اسے اپنے پڑوسی فضلو سے مل جاتا۔ صبح کوئی اور روٹی دے جاتا۔ اس طرح وہ زندگی کے دن پورے کررہا تھا۔ بعض اوقات زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں کہ آدمی اپنے کیے پر پچھتاتا ہے۔ کرموں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ایک دن وہ بستر پر لیٹا تھا کہ السلام علیکم کی آواز آئی۔ آنے والے آدمی نے بتایا کہ میں مسافر ہوں‘ رات بسر کرنے دیں تو مہربانی ہوگی۔ کرمو نےہاں کردی‘ آنے والے ادمی نے اپنا بستر کرمو کو دیا اور کہا کہ اس میں ڈھیر ساری رقم ہے‘ رکھ لو میں صبح لےلوں گا۔ کرمو نے سامان لیا اور رکھ لیا بعد میں شیطان نے لالچ دیا اور مختلف ترکیں بتائیں۔ کرمو مہمان کے سونے کا انتظار کرنے لگا تاکہ اس کے سامان پر قبضہ کرلے۔ جب مہمان سوگیا تو کرمو نے اس کی گردن دبا کر اس کی لاش کو دبا دیا۔ یہ کام اس نے رازداری اور بغیرآوازپیدا کیے ہوئے کیا اور سوگیا۔
صبح کے وقت اس کا پڑوسی فضلو آیا اور مبارکباد دینے لگا کہ چاند رات کو آگیا تھا۔ بھائی! کون چاند؟ فضلو نے اسے بتایا کہ وہ کل شام مچھلیاں پکڑ رہاتھا کہ دور سے ایک کشتی آتی دکھائی دی کشتی قریب رک گئی جو آدمی اس سے اترا وہ چاند تھا؟ کشتی واپس چلی گئی اور چاند میری کشتی میں آگیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ سمندری لہروں میں گم ہوگیا تھا۔ پھر اسے کچھ ہوش نہیں رہا تھا۔ ایک جہاز ادھر سے گزر رہا تھا جہاز والوں نے چاند کی آواز سنی تو اسے جہاز پر کھینچ لیا۔ انہوں نے چاند کو ایک شہر میں اتار دیا اور وہ سخت محنت مزدوری کرنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ جب ڈھیر ساری رقم لے کر گھر جاؤں گا تو امی ابا خوش ہوں گے۔ چاند کو میں نے بتایا کہ تمہاری ماں کاانتقال ہوچکا ہے‘ باپ زندہ ہے‘ اب رونا نہیں‘صبر سےکام لو اور بوڑھے باپ کی خدمت کرو۔ اس کے بعد تمہاری طرف آیا مگر نظر نہیں آرہا ہے۔ کرمو کی دنیا اندھیر ہوچکی تھی وہ زور زور سے رونےلگا اور کچھ دیر بعد بے ہوش ہوگیا شاید ہمیشہ کیلئے۔۔۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 432 reviews.