Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جنات کا پیدائشی دوست

ماہنامہ عبقری - فروری 2014ء

وہ وظیفہ محمد رسول اللہ ہے: میری نانی بتاتی ہیں اس کے بعد میرے نانا سالہا سال زندہ رہے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی‘ اپنے وظیفے کو پڑھتے مشکل حل ہوجاتی‘ ان کی دور دور تک شہرت پھیل گئی‘ لوگ دور قریب سے آنا شروع ہوگئے۔ لوگ بہت زیادہ پاگل اوردیوانے تھے ان کے عشق میں۔ بہت سے نواب اور راجے اور رائیس صرف انہیں دیکھنے آتے تھے حتیٰ کہ نیک لوگ اولیاء اللہ والے علماء اور بزرگ ان سے آکر فیض پاتے تھے۔ روزانہ ہزاروں لوگ آتے‘ لنگر پکتا کہاں سے آتا‘ بس یہ خبر نہیں تھی‘ اور نانا جی سب کو اعمال کی تلقین کرتے‘ نماز‘ نیکی‘ حلال و حرام‘ پاکی ناپاکی‘ حقوق کی ادائیگی‘ فرائض میں توجہ ان سب کی تلقین کرتے۔ میری نانی اماں فرمانےلگیں اب بھی میں وہ وظیفہ پڑھتی ہوںجب بھی پڑھتی ہوں میری ہر مشکل ٹل جاتی ہے میری ہر پریشانی دور ہوجاتی ہے اور میری زندگی کے مسائل مسائل نہیں رہتے اور مجھے ایک یقین بھی ہے اعتماد بھی ہے اور بھروسہ ہے جو ملا ہے اس وظیفے سے جو ملے گا اس وظیفے سے اور آئندہ بھی اگر کوئی میری مشکلیں آئیں بھی تو اسی وظیفے سے ٹل جائیں گی۔
وہ وظیفہ محمدرسول اللہ ہے۔ یہی وظیفہ وہ جوگی پڑھتا تھا اور یہی وظیفہ میرا نانا پڑھتا تھا اور میرے نانا نے یہی وظیفہ نانی اماں کو سکھایا اور یہی وظیفہ مجھے سکھایا۔ آپ کے عبقری میں میں نے پڑھا تو میں حیران رہ گیا یہ راز تو صرف میرے نانا کے پاس تھا علامہ صاحب کے پاس بھی یہ راز ہےمیں حیران ہوں اور اس لیے آپ کو خط لکھ رہا ہوں میں آپ کو اپنےنانا کے حالات مزید لکھوں گا۔
چونکا دینے والے سفر کے حیران کن واقعات: قارئین! ابھی چند دن پہلے وہ صاحب مجھے خود ملنے آگئے کہ میں نے اس طرح آپ کے نام خط ادارہ عبقری میں لکھا تھا اور اپنے نانا کے حالات جوگی کے واقعات ان کی زندگی کے دن رات‘ حکیم صاحب نے مجھ سےرابطہ کرکے تفصیل سنائی تو میں نے اس صاحب کو ملاقات کا وقت دیا اور اس ملاقات میں انہوں نے جو واقعات اپنے نانا کے مزید بتائے میں چاہتا ہوں کہ قارئین تک پہنچاؤں تاکہ قارئین کو ان واقعات سے نفع پہنچے۔
میرا میرے نانا کے ساتھ پہلا سفر:کہنے لگے :مرنے سے تقریباً پونے دو سال پہلے ایک دن میرے نانا صبح صبح اٹھے کپڑے پہنے اور تیار ہونے لگے‘ سب نے پوچھا کہ کہاں جانے کا ارادہ ہے خاموش رہے‘ جو بھی پوچھتا خاموش رہتے اور تیاری کرکے مجھے بھی تیار کرایا اور پھر اپنے ساتھ لے کر چل پڑے۔

عجیب تانگے کے عجیب مسافر:مجھے فرمانے لگے دیکھ جو کچھ دیکھنا بولنا نہیں ‘اُسی وقت سوال نہیں کرنا‘ بعد میں چاہے جتنے سوال کرلینا۔ میں ان کے ساتھ چلتا گیا ہمارے شہر میں ایک پرانا تانگہ اڈا تھا اب ویران پڑا ہے وہاں پہنچے‘ حالانکہ وہاں کوئی تانگے اور نہ کوئی تانگوں کا وجود لیکن پہلے سے ایک تانگہ موجود تھا ہم دونوں خاموشی سے بیٹھ گئے تانگے والے نے ہم سے کوئی بات نہیں کی بس تانگہ چلایا اور بہت تیز چلاتا جارہا تھا اور گھوڑا ایسے تھا جیسے اڑ رہا تھا شہر کےمختلف کونوں سے نکلتےنکلتے آخر شہر کے آخر تک ہم پہنچ گئے۔ آگے کچھ لوگ تھے جیسے کہ وہ ہمارا انتظار کررہے ہیں وہ تین تھے اور دو ہم ‘وہ تین بھی تانگے میں بیٹھ گئے اور پھر تانگہ چلتا رہا‘ آگے کھیت آگئے اورتانگہ چلتا رہا تھوڑی ہی دیر میں مجھے غنودگی محسوس ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ میں کچھ گہرائی ہے اس میں ڈوب رہا ہوں اور مجھے ایک ایسا احساس ہوا کہ میں جھولے میں بیٹھا ہوں‘ جھولا جب اوپر جاکر نیچے آتا ہے‘ وہ جس اندازسےنیچے اترتا ہے مجھے وہی احساس محسوس ہوا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک گرج دار آواز جو کہ سلام کی شکل میں تھی مجھے آنکھیں کھولنے پر مجبور کرچکی تھی۔

دو منہ اور دو کاندھوں والی مخلوق سے ملاقات: میں حیران ہوا وہاں کائنات ہی کوئی اور تھی اور وہاں کی دنیا بھی اور تھی میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہاں کا ہر شخص ایسا تھا کہ اس کی ہاتھ پاؤں کی سات انگلیاں تھیں‘ پانچ آنکھیں تھیں‘ دو منہ تھے کندھے بھی دو دو بازو بھی دو دو‘ ٹانگیں بھی دو دو‘ اور ان کا جسم بہت بڑا بڑا تھا اتنے بڑے کہ جیسے کوئی مینار یا ٹاور ہوتا ہے۔ میں حیران خاموش اپنے نانا کے ساتھ چل رہا تھا کیونکہ نانا کی نصیحت یاد تھی نہ بولنا نہ پوچھنا۔ وہ تین لوگ ہمارے آگے تھے جو ہمیں تانگے کے ساتھ لائے تھےمیں اور نانا پیچھے تھے ہم چلتےجارہے تھے۔ ہم صدیوںپیچھے چلے گئے: میں نے دیکھا کچھ لوگ کھیتی باڑی کررہے ہیں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کپڑا بن رہے ہیں کچھ خواتین کو دیکھا وہ چرخہ چلا رہی ہیں ایک چیز جو میں نے محسوس کی ان کا رہن سہن ان کا اٹھنا بیٹھنا ایسا تھا جیسے آج سے کوئی ہم صدیوں پیچھے چلے گئےہیں اور مجھے اس پر حیرت ہوئی کہ ہم کتنی دور چلے گئے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کالباس میں نے کتابوں میں پڑھا تھا سنا تھا وہی صدیوں پرانا ان کی آپس میں بولی کیا تھی بس بولنا سنائی دیتا تھا لیکن سمجھ نہیں آتا تھا۔ کنویں سے پانی نکالنا‘ بیلوں سے ہل جوتنا‘ ہاتھ سے کپڑا بننا‘ ہاتھ سے روئی دھونکنا‘ ہاتھ کی چکی سے آٹا پیسنا‘ بیل کا کوہلوں کے ساتھ تیل نکالنا‘ وہ پرانے طرز کے بنے ہوئے مکان‘ پرانے طرز کے لباس‘ ان کی شکلیں ہر زندگی کا انداز پرانی طرز کا ہم چلتے چلتے آگے ایک محل نما مکان میں جو کہ بہت پرانی طرز کا لیکن نہایت عالی شان بنا ہوا سرخ اور سیاہ پتھر سے جس کا سارا فرش سفید پتھر کا تھا داخل ہوئے۔

محل میں ہمارا زبردست استقبال
محل میں ہمارا استقبال ہوا مجھے محسوس ہورہا تھا کہ ان میں میرا نانا سب سے جدا اور سب سے نمایاں تھا اور وہ سب میرے نانا کا بہت عقیدت و احترام کررہے تھے اور استقبال کررہے تھے۔میرے نانا سب سے نمایاں اور باکمال:میرے نانا سب سے نمایاں اور باکمال نظر آرہے تھے ایک جگہ تین کرسیاں پڑی تھیں دو کرسیوں پر وہ عجیب خلقت کے دو آدمی بیٹھے اور ایک کرسی خالی تھی میرے نانا کو وہ کرسی دی گئی میرے نانا کرسی پر بیٹھ گئے۔ خوبصورت پریوں کی آمد: تھوڑی دیر ہوئی ناقوس بجا اور چوبدار جیسے پرانے بادشاہوں کے دور میں آواز دیتے تھے نے آواز دی اور ہر طرف دروازے کھلنا شروع ہوگئے پریاں بہت خوبصورت لباس پہنے ہوئے ہر دروازے سے نکل کر تمام کرسیوں کے اردگرد جمع ہوگئیں۔ خوبصورت نوجوان جنات کی آمد: تھوڑی ہی دیر میں پھر ناقوس بجا اور پھر بہت خوبصورت جنات نوجوانوں کی شکل میں اردگرد آنا شروع ہوگئے اور ان سب کا وجود ایسے معطر اور خوبصورت کہ دیکھنے والے کی عقل دنگ اور حیران۔ ہیرےجواہرات سے لدی خوبصورت بلیوں کی آمد: پھر ناقوس بجا خوبصورت سی بلیاں‘ ہر بلی اپنے حسن و جمال میں نہایت باکمال‘ گلے میںہیرے اور جواہرات کے موتی ان کے کان چھیدے ہوئے اور کانوں میں قیمتی موتی‘ ان کے پاؤں میں بہترین موتی بندھے ہوئے وہ تمام پریوں اور دوسرے مجمع کے پاؤںمیں پھیل گئیں بلیاں لاکھوں تھیں نامعلوم کتنی زیادہ تھیں میں خود حیران یہ منظر دیکھ رہا تھا تھوڑی دیر ہوئی۔ پورا نظام معطر اور اچانک خاموشی: پھر ناقوس بجا اور ایک خوشبو نکلی ہردروازے سے منفرد خوشبو کے فوارے چلے‘ وہ خوشبو ہمارے اوپر پڑرہی تھی لیکن ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے ہمارے اوپر پڑتے ہی خشک ہورہی ہےا ور ایک نشان پھیلتا چلاجارہا تھا اورسارا نظام معطر ہوگیا اور پھر تھوری دیر میں خاموشی چھا گئی اور میں اس انتظار میں کہ نامعلوم اب کیا ہوگا ۔ محمد رسول اللہ کا وجد: تھوڑی دیر ہوئی پھر ناقوس بجا اور تمام بلیاں ‘تمام پریاں ‘میرے نانا اور وہاںموجود تمام لوگ محمدرسول اللہ بہت وجد سے اور ایک خاص لے سے کہ نامعلوم کونسی طاقت تھی کہ جس نے مجھے مدہوشی سے بچایا ورنہ جس کیفیت سے محمدرسول اللہ کہا اورپڑھا جارہا تھا کہ وہ کیفیت ایسی تھی کہ ہر سننے والا مدہوش ہوتا جارہا تھا۔ میں وہ سنتا رہا‘ بہت دیر تک وہ تمام محمدرسول اللہ کی آواز بلند لیکن وہ آواز تھی وہ دل سے نکلی آواز تھی ‘وہ زبان سے نکلی آواز تھی‘ وہ غیبی آواز تھی لیکن اس خوشبو اور ماحول میں وہ آواز بہت انوکھی محسوس ہورہی تھی اور میں مدہوش ہورہا تھا۔پریوںکا گرنا اور نورانی مخلوق کا ان کو اٹھانا: تھوڑی دیر ہوئی اس آواز کی مدہوشی سے پریاں آہستہ آہستہ گرنا شروع ہوئیں اور وہ گرتیں اور کوئی نورانی مخلوق تھی ان کو اٹھا کر دروازے کے اندر لے جاتی آواز اور بڑھتی گئی او اس کا ترنم اور خوبصورتی اور اس کے اندر وجد بڑھتا چلا گیا حتیٰ کہ سب پریاں مدہوش گرگئیں۔
شہزادوںاور بلیوںکا مدہوش ہوکر گرنا: اب وہ شہزادے گرنا شروع ہوئے اور حتیٰ کہ تمام شہزادے بھی مدہوش ہوکر گرگئے اور اس نورانی مخلوق نے انہیں وہاں سے اٹھا لیا اور بلیاں بھی اسی طرح مدہوش ہوکر گریں اور ان بلیوں کو بھی اٹھالیا گیا میں عقل میں حیران پریشان یاالٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟ اب مجھے اپنااحساس ہوا کہ میں بھی اسی طرح مدہوش کر گروں گا اور واقعی ایسا ہوا کہ تمام لوگ مدہوش ہوگئے۔ میں نقشہ نہیں کھینچ پارہا: اب میں اور صرف میرا نانا باقی تھا اور وہ آواز اپنی پوری کیفیت کے ساتھ مسلسل محمدرسول اللہ کے نغموں کے ساتھ رواں دواں تھی۔ ہم دونوں سن رہے تھے میں نیچے بیٹھا میرے نانا کرسی پر بیٹھے ہوئے اب وہ سارا محل خالی تھا کوئی بھی نہیں تھا خوشبو‘ آواز‘ ترنم‘ وجدان‘ وجد‘ کیفیات ‘سوز اور انوکھا ولولہ اور مدہوشی کی کیفیت۔۔۔۔ بس میں نقشہ نہیں کھینچ پارہا کہ وہاں کیا تھا اور کس طرح تھا لیکن یہ سب کچھ تھا۔اور آخر آواز بند ہوگئی۔۔۔!: بہت دیر ہوگئی یہ سب کچھ چلتا رہا اور میںمدہوش سب کچھ سنتا رہا اب آواز کچھ آہستہ ہونا شروع ہوئی اور مدہوشی کم ہونا شروع ہوئی لیکن میرے جی میں ایک بات تھی یہ آواز ایسے ہی چلتی رہے اور یہ ساز ایسے ہی بجتا رہا لیکن وہ ساز نہیں تھا جسے میں ساز کہہ رہا ہوں وہ میوزک اورموسیقی نہیں تھی کوئی غیبی آوازیں تھیں عرش سے آرہی تھیں فرش سے آرہی تھیں کہاں سےآرہی تھیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی آہستہ آہستہ آواز کم ہونا شروع ہوئی اور کم ہوتے ہوتے آواز بند ہوگئی۔لذیذ ترین کھانوں سے
تواضع: مجھے ایسے محسوس ہوا کہ میں ہوش میں آگیا ہوں اسی دوران وہ تین آدمی آئے جوہمیں تانگے سے لائے تھے اور میرے نانا خاموشی سے ان کے پیچھے چل پڑے ہم محل سے باہر نکلے سامنے ایک اور محل تھا اس میں گئے تو ہرطرف دسترخوان لگے ہوئے تھے‘ وہی پریاں‘ وہی شہزادے‘ وہی بلیاں سب دسترخوان پرموجود تھے جیسے ہمارا انتظارہورہا ہو جب ہم وہاں پہنچے تو دسترخوان کے پردے ہٹ گئے عجیب لذیز کھانے تھے جو میں نے کبھی دنیا میں اور اپنی زندگی اور شعور میں نہیں دیکھے کہاں سے آئے تھے؟ کیسے بنے تھے؟ ان کی لذت کیا تھی ؟ خود میری عقل دنگ رہ گئی۔ کھانا ایسا کہ جیسے جیسے کھاؤ بھوک بڑھتی جائے: میں نے خاموشی سےکھانا کھایا ان میں سے ہر شخص کھانا کھاتے ہوئے مسلسل محمدرسول اللہ ہلکی ہلکی آواز میںپڑھ رہا تھا اور ان کاپڑھنا ایسی انوکھی آواز پیدا کررہا تھا جس نے کھانے کی لذت اور بھوک کو اور بڑھا دیا تھا کھانا کھارہے تھے‘ کھانا کہاںجارہا تھا کوئی بوجھ نہیں‘ کوئی بے چینی نہیں‘ بہت دیر تک کھانے کھاتے رہے۔۔۔ کھاتے رہے اور کھاتے رہے ۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں سب کھانا کھاچکے تو سب کھانے اچانک ہٹ گئے۔ انوکھی لذت اور سرور کے مشروب:اور بہترین انوکھے مشروب میں انہیں مشروب کہوں‘قہوے کہوں ۔۔۔کیا تھا؟ لیکن ہر گھونٹ ایک انوکھی لذت اور سرور رکھتا تھا اور ہر گھونٹ کے اندر ایک بے خودی تھی‘ بہت دیر تک وہ جام چلتے رہے اس کے بعد ان جاموںکو اٹھا دیا گیا پھر سب کے سامنے پھول رکھ دئیے گئے اور پھول رکھنے کے بعد سب نے مل کر پھر محمدرسول اللہ پڑھا اور پڑھتے پڑھتے میں بھی مدہوش ہوگیا اور میرا نانا بھی اور سب بھی جب مجھے ہوش آیا میں اورمیرا نانا ہم دونوں شہر کے مشہور چوک میں کھڑے تھے ۔ کیا اب مجھے سوال کرنے کی اجازت ہے؟میرے نانا خاموشی سے چل پڑے اور میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا اور تھوڑے ہی فاصلے سے اپنے گھر پہنچے‘ میرے نانا نے کپڑے بدلے اور بہت خوش خوش تھے اور میں حیران۔۔۔ اور میں نے نانا سے سوال کیا اب مجھے اجازت ہے سوال کرنے۔میرے مکھن! یہ ایک عالم ہے:کہا ضرور کرو اور جتنے چاہےکرو تم نے واقعی ادب کا مظاہرہ کیا کہ وہاں بالکل نہیں بولے‘ اب جتنا بولنا ہے بولومیں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو مجھے محبت پیار سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمانے لگے کہ میرے مکھن! (کیونکہ میرے نانا مجھے مکھن کہتے تھے) یہ ایک عالم ہے ‘یہ اس عالم کی مخلوق ہے‘ یہ عالم دنیا نہیں‘ یہ چاند کا عالم نہیں‘ یہ جنات کا عالم نہیں‘ یہ فرشتوں کا عالم نہیں۔مجھے یہاں تک رسائی محمد رسول اللہ کی وجہ سے ملی: یہ اللہ کے علم میں ایک عالم ہے اور اس عالم کی مخلوقات کے آج ہم مہمان تھے میں پہلے بھی کئی بار ان حضرات کی مہمانی اور کھانے کھا کر آیا ہوں۔ میں چاہتا ہوں تمہیں بھی ان کے کھانوںمیں شامل کروں اور ان کی کھانوں کی لذت چکھاؤں اور اس عالم کی سیر کراؤں اور مجھ سے فرمانے لگے نانا کہ مکھن! بات دراصل یہ ہے مجھے یہاں تک رسائی محمدرسول اللہ پڑھنے کی وجہ سے ملی اور اس مخلوق کا وظیفہ محمدرسول اللہ ہے بس نہ یہ کماتے ہیں‘نہ کاروبار کرتے ہیں‘ بس سارا دن یہی کام کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ کماتے بھی ہی کاروبار بھی کرتے ہیں اور وہ بھی سارا دن یہی وظیفہ پڑھتے ہیں۔
مخلوق کے دو حصے: مخلوق کے دو حصے ہیں کچھ ایسے ہیں جو کماتے ہیں اورکاروبار کرتے ہیں لیکن سارا دن یہی کاروبار کرتے ہیں ایک حصہ وہ ہے جو کماتے اور کاروبار نہیں کرتے لیکن یہی وظیفہ پڑھتے ہیں۔ اس وظیفے کی وجہ سےرزق ملتا ہے‘ کھانے ملتے ہیں‘ پھل ملتےہیں‘ ان کی بھوک مٹتی ہے‘لاجواب قسم کے مشروبات ملتےہیں‘ انوکھی زندگی انوکھا‘ رہنا سہنا‘ خوشنمائی‘ دلربائی اور ایسا کچھ جو عقل انسانی نہ گمان کرسکے نہ سوچ سکے اور عقل انسانی نہ تصور کرسکے ان سب کو جو کچھ ملا ہوا ہے یہ محمدرسول اللہ کی وجہ سے ہے اور مجھے بھی وہاں تک رسائی محمدرسول اللہ کی وجہ سے ہے۔ میرے مکھن! میرے نانا نے ٹھنڈی سانس لی تمہیں پتہ نہیں ہے سارے عالم محمدرسول اللہ کے تابع ہیں اور سارے عالم محمدرسول اللہ کےبغیر بے حیثیت ہیں اللہ پاک نے کلمے کے ساتھ محمدرسول اللہ لگا کر دراصل اپنے تمام عالم کی چابی دے دی ہے۔ جس کےپاس یہ چابی ہوگی بس چابی لگاتا جائے اور بڑھتا چلا جائے۔ (جاری ہے)

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 371 reviews.