حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ان کی نامور شہرہ آفاق کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
نہا دھوکر اس نے نئے کپڑے پہنے اور آٹھ نو سال کے ننھے داعی حماد سلمہ کے پاس آیااور بڑی فکرمندی سے بولا حماد بھائی آج تم مجھے مسلمان کرلو‘ رات تم نے مجھے اتنا ڈرا دیا کہ رات کو دیر تک نیند نہیں آئی اور آئی بھی تو بار بار گھبرا کر آنکھ کھلتی رہی اگر میں آج مرگیا اور کلمہ پڑھنے سے رہ گیا تو پھر ہمیشہ نرک (دوزخ) میں جلنا پڑے گا‘ رات کو آپ کی امانت میں نے تیسری بار پھر پڑھی‘ ننھے داعی حماد نے اس کو خوش خوش کلمہ پڑھایا اس سے کہا اشوک بھائی اب آپ کا اسلامی نام محمد عاشق رکھتا ہوں‘ ہمارے ماموں اسی طرح نام رکھتے ہیں‘ حماد اب اس نئے عاشقِ محمد کو لے کر اپنے والد محترم برادر نسبتی جناب قمرالاسلام کے پاس لے کر آیا اور بتایا کہ ابو یہ اشوک بھائی ہمارے ڈرائیور ہیں کتنے اچھے آدمی ہیں میں ایک ہفتہ سے ان کو سمجھا رہا تھا میں نے ان کو آپ کی امانت بھی دی روزانہ اللہ سے ان کیلئے دعا بھی کرتا تھا‘ آج اللہ نے میری دعا قبول کرلی‘ انہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور ان کا نام میں نے محمدعاشق رکھا‘ قمرالاسلام نے عاشق کو گلے لگایا‘ مبارک باد دی اور بولے میں خود حیرت میں تھا کہ تم نے حماد کو کیا پلادیا‘ گھر کے سب لوگوں کو چھوڑ کر ایک ہفتہ سے یہ ہروقت تم سے چمٹارہتا ہے‘ اصل میں اللہ کو تم پر پیار آرہا تھا‘ اللہ نے اس معصوم کو تمہارے ساتھ لگادیا‘ اشوک بولا‘ سر یہ ننھا اور پیارا ہمدرد ایک ہفتے سے مجھے سمجھارہا تھا‘ اس طرح مجھے سمجھارہا تھا‘ مجھے لگتا تھا کہ موت بالکل سر پر کھڑی ہے‘ سورگ اور نرک میرے سامنے ہے‘ کلمہ پڑھ کر مجھے چین سا مل گیا ہے‘ جیسے میں کسی محفوظ قلعہ میں آگیا ہوں‘ سر اب آپ مجھے نماز وغیرہ سکھائیے اور بتائیے ایک اچھا مسلمان بننے کیلئے مجھے کیا کرنا چاہیے؟
الحمدللہ اشوک اب محمدعاشق ہے اور روز بروز اس کے ایمان اور اسلام سے تعلق میں اضافہ ہورہا ہے‘ قمر بھائی نے دورکعت صلوٰۃ الشکر پڑھی اور اس حقیر کو فون کیا کہ بھائی میاں! آپ کے بھانجے حماد کا اکاؤنٹ کھل گیا ہے اور عاشق کے مشرف باسلام ہونے کا واقعہ سنایا‘ اس سے قبل وہ اپنے سکول بس کے کنڈیکٹر پر بھی کام کررہا تھا اس حقیر کیلئے بھی یہ بات قابل شکر تھی‘ اس واقعہ سے اس حقیر کے اس احساس میں اور اضافہ ہوا کہ اہل محبت کے اس ملک ہندوستان میں ہمارے لیے کتنے مواقع ہیں اور یہاں دعوت کاکام کرنے والوں کو دردمندی اور جرأت مندی کی ضرورت ہے‘ یہاں صلاحیت کی ضرورت بہت کم ہے‘ ایک بہت ذمہ دار ہندو نے تحقیق سے یہ بات کہی اور لکھی ہے کہ ہمارے ملک میں برادران وطن کا تعلق اپنے مذہب سے بس رسماً اور رواجی ہے‘ شعوری ہندو یہاں پر تو نہ ہونےکے برابر ہیں‘ شعوری طور پر ہندو ہندو رہ بھی نہیں سکتا‘ یہاں کئی ہزار لوگوں میں کوئی ایک ہندو وید (ہندو مذہب کے اساسی گرنتھ) کے درشن (زیارت) کرپاتا ہے اور پڑھنے والا تو دسیوں ہزار میں کوئی ہوتا ہے اور ان کا خیال ہے کہ ایک ارب کی آبادی کے
ہندوستان میں ویدوں کو سمجھنے والے بس سو لوگ ہوں گے گویا ایک کروڑ میں ایک‘ یہ بات بھی حق ہے کہ اپنے مذہب کیلئے قربانی دینے کا جتنا جذبہ ہمارے برادران وطن میں پایا جاتا ہے شاید مسلمانوں کے علاوہ اور کسی قوم میں نہیں پایا جاتا ہو‘ اور مذہب کیلئے قربانی صرف آدمی اپنے خدا کو راضی کرنے کیلئے دیتا ہے‘ اگر ان کو بتا دیا جائے کہ جس راہ پر آپ قربانی دے رہے ہیں وہ شرک کا راستہ ہے رب کو راضی کرنے کا راستہ نہیں ہے بلکہ رب کو سب سے زیادہ ناراض کرنے والا ہے تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اسلام قبول نہ کرے اس قوم کو دردمندی کے ساتھ آخرت کے تصور کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے‘ حکمت اور مصلحت کے نام پر بہت دیر تک ذہن سازی کے انتظار میں رہنے والوں کیلئے یہاں دعوتی فتوحات کے فیصلے نہیں ہوتے یہاں صرف دردمندی کے ساتھ قُوْلُوْا لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ تُفْلِحُوْا کی بے باک صدا لگانے والے دیوانوں کی ضرورت ہے۔ کاش! ہم برادران وطن کی فطرت اور مزاج کو سمجھ کر ان کا حق ادا کرسکتے‘ دوسری طرف ایک ننھے داعی کی یہ کارگزاری ہمیں دعوت فکر دیتی ہے کہ اگر دعوت اور دعوتی کارگزاریوں کا تذکرہ ہماری گھریلو زندگی کا محبوب موضوع ہوجائے تو پھر نئی نسلوں میں ہی نہیں دیواروں میں بھی دعوت کا ذوق وشوق پیدا ہوجاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں