Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

رویوں میں لچک پیدا کرکے گھر کو جنت کدہ بنائیں

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2013ء

رفتہ رفتہ بستر اور پھر کمرے الگ ہوگئے۔ خود سری اور ہٹ دھرمی دونوں کی سرشت میں موجود تھی کوئی بھی صلح کا ہاتھ نہیں بڑھا رہا تھا۔ نفرتیں منظر عام پر آنے لگیں عورت کا صبر ہو اور مرد کی محبت ہو تو معاملہ سنبھل جاتا ہے مسائل ہی الجھ جائیں تو تدبیریں بھی تقدیریں نہیں بدل سکتیں۔

کہتے ہیں جوانی بے لگام گھوڑے کی طرح ہوتی ہے‘ ہر نوجوان لڑکے‘ لڑکی میں گھر بسانے اور شادی رچانے کا ارمان اور شوق موجزن ہوتا ہے اور جب شوق جنون کی کیفیت اختیارکرجائے تو پھر نتائج پر غور نہیں کیا جاتا‘ زرقا بھی خوش کن لمحات کا تصور لیے مدہوش و مسحور سی رہتی‘ شہنائیوں کی گونج اور ڈھولک کی تھاپ اس کے جذبات میں ہلچل مچادیتے‘ سکھیوں‘ سہیلیوں کی ڈولی اٹھتی تومایوسی کے گہرے سائے اس کے گرد منڈلانے لگتے۔ کسی کام میں اس کا دل نہ لگتا‘ خلاف طبع ہر بات اسے انگارہ بنادیتی۔ گھر بھر اس کی دلجوئی میں کسر نہ اٹھائے رکھتا۔ شب و روز آہیں بھرنے اور قسمت کو کوسنے میں گزرتے‘ سہانے سپنوں کا محل بنانے میں وقت گزرتا جارہا تھا۔ رشتوں کے پیغام آتے اور مایوس کرجاتے‘ دو‘ تین بار منگنی کی سنہری زنجیروں میں بندھی اور آزاد ہوگئی جو سپنے جاگتے میں دیکھے وہ چکنا چور ہوگئے۔ وقت گزرتا گیا اور وقت تو کبھی نہیں تھمتا ہے اور نہ ہی تھکتا ہے‘ یہ ہمیشہ جاگتا ہے اس کو نیند نہیں آتی اس کی چال میں یکسانیت نہیں ہوتی‘ کبھی یہ دبے پاؤں گزر جاتا ہے اور کبھی طوفان برپا کردیتا ہے۔ روتوں کو ہنسانا اور ہنستوں کو رلانا اس کی ادائیں ہیں جب تک دنیا قائم ہے اس کی ستم ظریفیاں اور کارستانیاں یونہی قائم و دائم رہیں گی۔
وقت نے کروٹ بدلی اور ’’جبار‘‘ دھیرے سے اس کی زندگی میں داخل ہوا اور زرقا ارمانوں کی دنیا بسائے بابل کا آنگن چھوڑ پیا دیس جاپہنچی‘ تقدیر کے کھیل نرالے ہیں جو ہم چاہتے ہیں وہ نہیں ملتا۔ سرخ عروسی جوڑے میں سجی پھولوں کی سیج پر سپنوں کے شہزادے کا انتظار کرنے لگی‘ ہر آہٹ پر دل اچھل جاتا‘ ہوا کے ہر جھونکے پر وہ سمٹ سمٹ جاتی اور گھونگھٹ سرک سرک جاتا‘ رات بیتی جارہی تھی۔ خیالات منتشر اور بے ربط ہورہے تھے‘ تمام سوچیں اور تفکرات ایک مرکز پر رک گئے اور خود کو بند گلی میں محسوس کررہی تھی‘ فرار کے تمام راستے مسدود ہوچکے تھے۔ ریت کا محل مسمار ہوچکا تھا۔ صبح کا تارا تاریک مستقبل کا پیغام دے رہا تھا۔ زندگی ایک نیا رخ اختیار کرچکی تھی۔ عزت نفس بھی قائم رکھنا تھی‘ معاشرے کی چبھتی نظروں سے بچنا بھی تھا۔ چپ چاپ سسکتے ارمانوںکو سلا دیا اب خار دار راستوں اور تپتی ریت پر جیون کے نئے سفر کا آغاز کرنا تھا۔ جسے چاہتوں اور محبتوں میں اپنا سب کچھ سپرد کرنا تھا وہ دل کے تاج محل سے نکل چکا تھا۔ بظاہر ہمسفر تھا لیکن راستے الگ تھے‘ سوچیں جدا جدا تھیں‘ امید و ناامیدی میں دن رات گزرنے لگے‘ پیار کی بوند بوند کو ترستی رشتہ ازدواج نبھاتی رہی۔ دو پھول بھی اس کے ویران آنگن میں مہکنے لگے جنہیں کبھی جزا اور کبھی سزا سمجھتی‘ باپ سنگدل ہوجائے تو ماں جگر پاروں سے منہ نہیں پھیرسکتی۔ انہی کی آبیاری میں زندگی گزارنے لگی‘ فاصلے بڑھنے لگے‘ رفتہ رفتہ بستر اور پھر کمرے الگ ہوگئے۔ خود سری اور ہٹ دھرمی دونوں کی سرشت میں موجود تھی کوئی بھی صلح کا ہاتھ نہیں بڑھا رہا تھا۔ نفرتیں منظر عام پر آنے لگیں عورت کا صبر ہو اور مرد کی محبت ہو تو معاملہ سنبھل جاتا ہے مسائل ہی الجھ جائیں تو تدبیریں بھی تقدیریں نہیں بدل سکتیں۔
بچے پروان چڑھتے چڑھتے سن بلوغت کو پہنچ رہے تھے۔ حالات وواقعات کا گہرا اثر ذہنوں میں ماں کی ڈھارس بن چکے تھے۔ باپ کو خود سے کوسوں دور محسوس کرتے‘ وہ خاموش بیٹوں کو آتے جاتے دیکھتا‘ رویوں کی تلخیاں بولنے یا کچھ کہنے کی ہمت نہ دیتیں۔ صحت و جوانی بھی ساتھ چھوڑے جارہی تھی اب بچوں کی توجہ کا طالب تھا‘ زندگی کے دوراہے پر کھڑا وقت کو دستک دے رہا تھا۔ گیا وقت لوٹ آئے تو پشیمانی باقی نہ رہے۔ بیوی‘ بچوں کی چاہت‘ توجہ سے محروم ڈوبتی ناؤ کا سوار تھا‘ کوئی فریاد رس نہ تھا‘ کبھی کبھار معاشرے کی تنقید سے بچاؤ یا عزیز و اقارب کا دباؤ حالات میں وقتی نرمی پیدا کردیتے۔ بدگمانیاں بار بار سر اٹھاتیں اور راستے جدا کردیتیں۔ہارے جواری کی طرح جبار نے خود کومدہوشی کے حوالے کردیا اذیت پسندی اس کا شعار بن گئی‘ دنیا کی رِیت ہے کہ وہ ایسے قصے کہانیوں کی متلاشی رہتی ہے وجہ بے وجہ تبصرے اور رائے زنی ان کا حق بن جاتا ہے۔ نا اتفاقی اور ناعاقبت اندیشی نے گھر کا شیرازہ بکھیر دیا اور وہ لوگوں کو مباحثوں میں الجھا کر سفر آخرت کو روانہ ہوا۔ میاں‘ بیوی‘ تھوڑی سی رویوںمیں لچک‘ بردباری اور دور اندیشی سے کام لیتے تو اس کہانی کا عنوان ہی بدل جاتا۔ خاندانوں کی تقسیم بچ جاتی لیکن پھر ہم سب تقدیر کا لکھا کہہ کربات ختم کردیتے ہیں……

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 990 reviews.