فرحت‘ لاہور
آپ کے اندر مثبت تبدیلیاں آپ کے لیے ترقی کی منازل آسان کردیں گی اور ملک کی ترقی‘ خوشحالی اور نیک نامی میں اگر آپ کی کوشش محنت اور حصہ بھی شامل ہوگیا تو سمجھ لیں کہ آپ نے وقت کی جانب سے حاصل ہونے والی مہلت کا حق ادا کردیا۔
ہر آنے والا سال ہمیں زندگی کی کچھ رنگا رنگ فتوحات اور دلبرداشتہ کردینے والی ناکامیوں کا تحفہ دیتے ہوئے منظر عام سے یکسر غائب ہوجاتا ہے اور صرف یادوں کا سرمایہ ہی ہمارے پاس رہ جاتا ہے جس سے ہم بقیہ عمر اپنی شہنائیوں کی محفل سجاتے ہیں کبھی یہ یادیں لبوں پر دلفریب مسکراہٹ بن کر کھلنے لگتی ہیں اور کبھی یہی یادیں نہ چاہتے ہوئے بھی آنسوؤں میں ڈھل کر آنکھوں کے کناروں سے نکلنے کیلئے بیتاب ہوجاتی ہیں۔ لیکن ہم ان کھٹی میٹھی یادوں کو اپنی ذات سے بالکل جدا نہیں کرسکتے اور ہماری تصوراتی دنیا ان کی رنگینیوں سے قائم و دائم رہتی ہیں۔ وقت کو کبھی بے رحم کہا جاتا ہے کبھی اسے ایک استاد سمجھا جاتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وقت نہ تو بے رحم ہے اور نہ رحم دل بلکہ صرف ایک مہلت ہے جو یکساں طورہر پر ذی روح کو عطا کیا گیا ہے۔
دانشور اور مفکر ارسطو نے وقت کی کیا خوب تعریف کی ہے کہ: وقت میرے لیے ایک شیریں مشروب ہے جسے میں گھونٹ گھونٹ پیتا ہوں اس کی شیرینی اور لطافت ہی نے دنیا کو رعنائی بخشی ہے اور اس دلفریب مشروب کا خاتمہ ہی زندگی کا اختتامی باب ثابت ہوتا ہے‘‘
وقت ایک انمول نعمت ہے لیکن یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ہم اس انمول نعمت کا بڑی بے دردی سے استعمال کررہے ہیں اور جب وقت دی گئی مہلت واپس لے لیتا ہے تو ہم واویلا کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں وقت ہی نہیں ملا لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک منٹ کی کیا حقیقت ہے؟ جسے ہم سینکڑوں چھوٹے لیکن اہم امور نمٹانے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ لیکن منٹ تو کیا ہم تو گھنٹوں کا حساب بھی رکھنے کے قائل نہیں۔ ہم نے تفریحات کو کلی اپنا اور کام کو جزوی حیثیت دی۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری پارکس‘ ریسٹورنٹ‘ گلی کوچے اور نیٹ کیفے ہر وقت شادذو آباد نظر آتے ہیں اور یہ کہنا قطعی بے جا نہ ہوگا کہ بے مقصد تفریح ہماری قوم کا خاصہ بن چکی ہے جو وقت کا گلا گھونٹ رہی ہے اور جب یہی وقت اختتامی سسکیاں لے کر ختم ہوجائیگا تو پھر دنیا سے یہی دہائی دیتے ہوئے جائیں گے کہ وقت نے ہمیں مہلت نہ دی۔
شادیوں اور دیگر تقریبات کا انعقاد اور ان سے لطف اٹھانا ایک صحت مند تفریح ہے لیکن تمام دن اور رات بے مقصد شور شرابے کے ذریعے تقریبات کو طوالت دینا وقت کا ضیاع سمجھا جانا چاہیے جبکہ ان تقریبات میں لمبی چوڑی رسومات بھی ہمارے مذہب‘ روایات اور روزمرہ رہن سہن سے قطعی مطابقت نہیں رکھتیں لیکن پاکستان نے وجود میں آنے کے بعدہندووانہ رسومات کو ہمارے معاشرے میں بتدریج پذیرائی مل رہی ہے… ہمارا تشخص صرف کتابوں میں مقید ہوکر رہ گئی ہے جنہیں ویران لائبریریوں کی زینت بنادیا گیا ہے۔
ہم دنیا بھر کی اقوام کی طرح گزرے ہوئے سال کو الوداع کہتے ہیں نئے سال کا استقبال کرتے ہیں‘ اس سلسلے میں منعقد ہونے والی تقریبات سے لطف لیتے ہیں مگر بیتے ہوئے سال میں حاصل ہونے والی ناکامیاں ہمیں دلگرفتہ کیوں نہیں کرتیں۔ نئے سال کیلئے اولین ترجیحات کا تعین کیوں نہیں کیا جاتا؟ وقت کا صحیح استعمال بھی ایک مشق ہے جو کے بچپن سے سکھائی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں لڑکپن کھیل کود کا وقت ہے۔ جوانی میں تمام اقسام کی تفریحات سے استفادہ کیا جاتا ہے جبکہ بڑھاپے کو قبل ازوقت خود پر طاری کرلیا جاتا ہے اور گپ شپ اور ٹیلی ویژن ہی توجہ طلب امور رہ جاتے ہیں۔ ہماری سہل پسند طبیعت عمر کے ہر دور میں تفریحات کے نام پر وقت ضائع کرنے کے جواز ڈھونڈ لیتی ہے۔ ابھی وقت ہے کہ ہم اپنے روز و شب سنوار لیں۔ اپنے اردگرد کے افراد میں بھی وقت کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ گھر کے بچوں اور ہم عمر افراد کو زندگی گزارنے کا ایک نیاڈھنگ سکھائیں۔ ہر فرد خود کو منظم کرے۔ زندگی کی ترجیحات طے کریں۔ آپ کے اندر مثبت تبدیلیاں آپ کے لیے ترقی کی منازل آسان کردیں گی اور ملک کی ترقی‘ خوشحالی اور نیک نامی میں اگر آپ کی کوشش محنت اور حصہ بھی شامل ہوگیا تو سمجھ لیں کہ آپ نے وقت کی جانب سے حاصل ہونے والی مہلت کا حق ادا کردیا۔
ماہرین کے مشورے
ماہرین وقت کی اہمیت کے حوالے سے زندگی کو بہترنظم و ضبط کے دائرے میں گزارنے کیلئے مندرجہ ذیل مشورے دیتے ہیں۔٭ زندگی کے بنیادی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے روزانہ کی سرگرمیوں کی فہرست تیار کریں اور انہی مقاصد کے تحت سال بھر کی ترجیحات کا تعین کیا جانا چاہیے۔
٭ وقت ضائع کرنے والے عوامل کا جائزہ لیں جہاں تک ممکن ہو ایسی سرگرمیاں کرنے سے دور رہیں جو محض شغل کی خاطر اختیارکی جانی ہیں۔ اس سے ضروری امور انجام دینے میں آسانی ہوگی۔٭ وقت کی پابندی کریں‘ کام کے آغاز اور اختتام کے متعلق کیے گئے وقت کی پاسداری نہایت لازمی ہے۔ کسی کام کو بھی ادھورا اور نامکمل نہیں چھوڑنا چاہیے۔٭ سفر اور انتظار کی زحمت اٹھانا پڑے تو کسی ایسی کتب سے استفادہ کریں جو آپ کے علم میں خاطر خواہ اضافے کا باعث بنے۔ خالی بیٹھنا وقت کو ضائع کرنا ہے اور وقت کی طوالت کا احساس بوریت پیدا کرتا ہے۔٭ چھوٹی عمر ہی سے بچوں کو وقت کی پابندی کا احساس دلائیں اور ان کے سامنے خود کو ایک مکمل مثال کے طور پر پیش کریں۔ بچوں کو ٹائم ٹیبل بنادیں تاکہ بچپن سے ہی وقت کی قدر کے احساسات پیدا ہوں۔٭ خواتین تعمیری اور فائدہ مند مشاغل اختیار کریں۔ بلاجواز طویل گفتگو اور ٹیلی ویژن دیکھنے میں وقت ضائع کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ خصوصاً گھریلو خواتین محدود دائرے میں بھی تعمیری زندگی بسر کرسکتی ہیں۔٭ وقت کی قدر کرنے اور وقت ضائع کرنے میں صرف اتنا فرق ہے کہ وقت کے درست اور قدر شناس ہی کامیاب و مطمئن زندگی گزارتے ہیں اور ملک کی ترقی و ترویج میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جبکہ وقت ضائع کرنے والے کٹھن اور مشکل مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ ’’وقت دنیا کی واحد چیز ہے جسے اپنے لیے محفوظ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی گزرے وقت کو واپس لانا ممکن ہے‘‘ وقت کی پاسداری اور احترام کسی بھی قوم کو ترقی کی راہ میں گامزن کرسکتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں