ماریہ نوازش‘ امریکہ
تین دن یہی عالم رہا آخر کار اسے میرے پاس لایا گیا۔ سوجی ہوئی آنکھیں‘ زخمی چہرہ اور خون آلود ہونٹ۔ اس کی حالت واقعی قابل رحم تھی‘ وہ التجا بھری نظروں سے میری طرف دیکھتا رہا۔ میں ہنس پڑی اور اسے ماں کے پاس رہنے کی اجازت دیدی۔
جانوروں کی مائیں اپنے بچوںکو دودھ چھڑاتی ہیں تو بچوں کی حالت بڑی خراب ہوجاتی ہے‘ وہ اپنے آپ کو تنہا اور مظلوم سمجھنے لگتے ہیں۔ کئی روز تک کھوئے کھوئے سے رہتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اپنا دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ریچھ کا بچہ ماں کی محبت بھری آغوش اور دودھ سے محروم ہوجائے تو اگلی ٹانگیں پھیلا کر اوندھے منہ لیٹ جاتا ہے اور تھوتھنی میں منہ چھپا کر چپکے چپکے روتا ہے۔ بعض بچے ایک دوسرے کی کھال چوستے ہیں حتیٰ کہ ان کے بال جھڑجاتے ہیں۔ سیل کے بچے اپنے پچھلے پیر چاٹ کر وقت گزارتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ان کے پیر سوج جاتے ہیں۔ بلی کے بچے تنہائی میں بیٹھے اپنی دم چوستے رہتے ہیں۔
بندریا کا بچہ اور ماں کا دودھ:بعض جانوروں کی مادہ‘ دوسرا بچہ پیدا ہونے کے باوجود بڑی عمر کے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔ اس ضمن میں بھیڑ اور ہرن کی مثال دی جاسکتی ہے۔ مادہ کی قربانی یا حماقت بعض اوقات نومولود بچوں کی جان لینے کا باعث بن جاتی ہے۔ سان ڈیاگر کے چڑیا گھر میں کیٹی نامی ایک چمپنزی بندریا تھی۔ اس کا بچہ پہلا جارجی تین سال کا ہوگیا لیکن وہ متواتر اسے دودھ پلاتی رہی‘ نتیجتاً دوسرا بچہ کمزور تھا۔ بڑے جتن کیے‘ مگر کیٹی اور جارجی میں سے کوئی بھی قربانی دینے پر تیار نہ ہوا۔ آخر کار ہم نے دودھ میں ایسے اجزاء شامل کیے کہ اس کا مزا بندریا کے دودھ جیسا ہوگیا جب بھی جارجی ماں کی طرف بڑھتا ہم نپل والی بوتل اس کے منہ میں ٹھونس دیتے یہ حربہ کامیاب ثابت ہوا اور جارجی نے رفتہ رفتہ ماں کادودھ پینا چھوڑ دیا۔
دودھ چھڑانے کے سلسلے میں مختلف جانوروں کا رویہ مختلف ہوتا ہے بعض اس بوجھ سے چھٹکارا پاکر انتہائی فرحت محسوس کرتے ہیں اور اگر بچہ دوبارہ اس شوق کا اظہار کرے تو اسے کاٹتے اور دولتیوں سے تواضع کرتے ہیں۔
چڑیا گھر میں ایک مرتبہ مامتا کی ایک انوکھی مثال دیکھنے میں آئی۔ ہمارے پاس آسامی نسل کے سنہرے بندر تھے۔ ان میں سے ایک بندریا جیٹی نے نئے بچے کو جنم دیا تو محافظ ایک دن یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ گولڈی نومولود کو ماں کی آغوش سے کھینچ رہا ہے… تشویشناک بات یہ تھی کہ جیٹی چپ چاپ یہ تماشا دیکھ رہی تھی‘ اس کے اطوار سے ظاہر تھا وہ خود بھی چھوٹے کے مقابلے میں بڑے کو دودھ پلانے کی خواہش مند ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دو ہی دن میں چھوٹا بچہ کمزور ہوگیا۔ تیسرے دن ہم ان کے جنگلے میں گئے تو گولڈی بازو پھیلائے ہماری طرف بڑھا‘ محافظ نے اسے آسانی سے پکڑلیا اور ایک علیحدہ پنجرے میں بند کردیا۔
نئی جگہ گولڈی کو اچھی سے اچھی خوراک دی گئی محافظ تھوڑی دیر اس کے ساتھ کھیلتا بھی رہا لیکن جونہی اسے اکیلا چھوڑا گیا وہ چیخنے اور پنجرے میں اچھلنے اور کودنے لگا۔ تین دن یہی عالم رہا آخر کار اسے میرے پاس لایا گیا۔ سوجی ہوئی آنکھیں‘ زخمی چہرہ اور خون آلود ہونٹ۔ اس کی حالت واقعی قابل رحم تھی‘ وہ التجا بھری نظروں سے میری طرف دیکھتا رہا۔ میں ہنس پڑی اور اسے ماں کے پاس رہنے کی اجازت دیدی۔
بندر کی اپنے بھائی سے دوستی:وہ منظر بڑا دلچسپ اور رقت انگیز تھا جب گولڈی اپنے خاندان سے ملا‘ وہ ماں باپ کے درمیان اپنی مخصوص جگہ جابیٹھا اور ریں ریں کرنے لگا لیکن دونوں نے زیادہ توجہ نہ دی۔ اس پر وہ ماں کے قریب گیا اور اس کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔ معلوم ہوتا تھا اسے روحانی خوشی مل رہی ہے۔ اسی لمحے اس نے چھوٹے بھائی کو دیکھا‘ فوراً ہی اس کی حالت بدل گئی‘ آنکھوں میں سرخی اتر آئی جسم کانپنے لگا اور وہ دانت نکال کر غضبناک انداز میں چھوٹے بھائی پر جھپٹا‘ لیکن اس وقت تک ماں کے دل میںنومولود کی محبت جاگزیں ہوچکی تھی۔ دو مرتبہ گولڈی نے بچے پر حملہ اور دونوں بار ماں نے اسے دور جھٹک دیا۔ آخر کھسیانا ہوکر وہ باپ کے کندھوںپر جابیٹھا۔ اس کے بعد محافظوں نے بتایا کہ اس نے اپنے بھائی سے دوستی کرلی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں