بچوں کو بند اور گرم کمروں میں بھی نہیں رکھنا چاہیے۔اسی طرح بوڑھوں کو بھی چاہیے کہ وہ دھوپ کے وقت باہر نکلنے سے گریز کریں۔ اپریل کا تقاضاہے کہ صاف ستھرے رہیے‘ صاف ستھری ہلکی غذا کھائیے۔ صاف پانی پیجئے اور زیادہ گرمی پیدا کرنے والی ثقیل چیزوں کا استعمال کم سے کم رکھیے۔
ایس ۔ آر۔ احمد
مارچ میں خیمہ زن ہونے والا کاروان بہار رخصت ہوچکا ہے یا رخصت ہونے کی تیاریاں کررہا ہے۔ ملک کے کوہستانی علاقوں میں ابھی اس کا پڑاؤ رہے گا لیکن میدانی اور جنوبی علاقوں میں رات دن کے تیور بتارہے ہیں کہ گرمیاں آگئی ہیں۔ گندم کی فصل سنہری رنگت اختیار کرگئی ہے۔ آم کے درختوں میں کیریاں جھول رہی ہیں اور دوپہر کی تیز دھوپ میں گھنے درختوںمیں کوئل کوک رہی ہے۔
موسموں کی تبدیلی ایک مستقل عمل ہے۔ رُت آئے رُت جائے۔ گرمی‘ سردی اور برسات اپنے معمول کے مطابق آتے جاتے رہتے ہیں۔ موسموں کی اس تبدیلی سے سب متاثر ہوتے ہیں۔ سخت جاڑوں میں پتوں سے محروم درخت موسم بہار میں نئی پوشاک پہن کر پھولوں اور کلیوں سے سج جاتے ہیں اور پھر ان کے یہی شگوفے پھول سے پھل بننے لگتے ہیں۔ بظاہر زندگی سے محروم درختوں میں جان پڑجاتی ہے۔ زندگی ان کے رگ و ریشے میں دوڑتی محسوس ہوتی ہے۔ یہی کچھ حال انسانوں کا ہوتا ہے۔ برف پگھلتی ہے تو جسم میں منجمد توانائیاں بھی لہریں لینے لگتی ہیں۔ جاڑوں میں کھائی ہوئی روغنی غذاؤں اور حرارت بخش کھانوں سے حاصل ہونے والی محفوظ توانائی جاڑوں میں تو بھلی لگتی تھی لیکن اب جسم پھنکنے لگتا ہے۔ گرم اور موٹے کپڑے بار لگتے ہیں۔ لحاف‘ گدوںاور کمبلوں کو دیکھ کر وحشت ہوتی ہے۔ جلد کے مسام کھل جاتے ہیں اور پسینے کا اخراج ہونے لگتا ہے۔
انسان موسم سے ضرور لڑتا ہے‘ اسے محدود پیمانے پر شکست بھی دیتا ہے لیکن یہ ہر جگہ اور ہر شخص کیلئے ممکن نہیں ہوتا۔ صحیح انداز تو یہی ہے کہ موسم کے ساتھ نبھا کیا جائے۔ ہر موسم کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ قدرت مہربان بھی ان کے مقابلے کا سامان کرتی ہے۔ ایک ذمے دار اور باشعور انسان کی حیثیت سے ہم سب کا بھی یہی فرض ہے کہ موسم کے تقاضوںکو سمجھیں اور اسی کے مطابق اپنے معمولات بھی تبدیل کریں۔
موسم گرما اورورزش:زندگی حرکت کا نام ہے۔ جسم و جان کو سردا دینے والے جاڑوںمیں ہم معمولات زندگی کو روک سکتے ہیں اور نہ پگھلا دینے والے موسم گرما میں… اس کے لیے البتہ یہ ضروری ہے کہ ہم معمولات کے انداز کو بدل دیں۔ اگر صحت عزیز ہے تو آپ یقیناً سحر خیز بھی ہوں گے۔ جلد سونے اور تڑکے اٹھنے والے لوگ کامیاب اور مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ جاڑوں میں منہ اندھیرے اٹھ کر خدا کے سامنے کھڑے ہونیوالے اس موسم میں بھی سحر خیز ہی ہوتے ہیں۔ اپریل میں مارچ کے مقابلے میں دن‘ رات سے خاصا بڑا ہوتا ہے۔ یعنی سورج جلد طلوع ہوتا ہے اس لیے آپ کو اس کے جلوہ گر ہونے سے پہلے ہی اٹھ جانا چاہیے اور حوائج ضروری اور نماز وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد سیروتفریح کیلئے کھلے میدان‘ باغ یا کھیتوں میں نکل جانا چاہیے۔
اگر آپ ورزش کے عادی ہیںتو پھر اپنے صحن‘ برآمدے یا ہوا دار کمرے میں ورزش کیلئےاورسیر کے لیے نکلنے سے پہلے تازہ پانی ایک دو گلاس ضرور پی لیجئے۔ اس سے آپ فرحت محسوس کریں گے۔ سیر‘ دوڑ‘ کھیل اور ورزش کے دوران پسینے کے زیادہ خارج ہونے سے آپ تھکن محسوس نہیں کریں گے۔ سیر و تفریح اور ورزش کے دوران موٹے کپڑے نہ پہنئے ورنہ پسینہ صحیح طور پر خشک نہیں ہوگا اور اس کے خشک نہ ہونے سے آپ گرمی زیادہ محسوس کریں گے۔
پسینے کے خشک ہونے اور سانس کے معمول پر آنے کے بعد تازہ اور اگر ضروری ہو تو نیم گرم پانی سے نہائیے۔ جسم کو خوب رگڑ کر صاف کیجئے اور صاف دھلی ہوئی بنیان پہن کر سوتی کپڑے پہن لیجئے۔ آج کل سوتی کپڑوں کا چلن کم ہوگیا ہے‘ لیکن سچ پوچھئے تو گرمیوں میں یہی کپڑے سب سے زیادہ آرام دہ ہوتے ہیں۔ لباس آپ جو پہنیں اس کا ہلکا اور صاف ستھرا ہونا ضروری ہے۔ اس سے فارغ ہوکر اچھا ناشتہ کیجئے۔ ایسا ناشتہ جو آپ کے جسم کو پانی بھی مہیا کرے اور ضروری حیاتین‘ لحمیات اور نمکیات بھی فراہم کردے۔
موسم گرما کی غذا:اکثر لوگ گرمیوںمیں بھوک کی کمی کا شکوہ کرتے ہیں۔ یہ عارضہ ان لوگوں کیلئے مخصوص ہوتا ہے جو ورزش نہیں کرتے۔ صبح کے وقت سیر‘ ورزش اور کھیل کود کرنے والوں کو یہ شکایت نہیں ہوتی بلکہ انہیںناشتے ہی کے وقت خوب بھوک لگتی ہے۔ اس موسم میں ثقیل غذاؤں کا استعمال مناسب نہیںہوتا۔ موسم گرما میں گندم اورجئی کا دلیہ‘ تازہ نیم گرم دودھ میں ملا کر کھانا بہترین ناشتہ ہے۔ جی چاہے تو تازہ دہی تھوڑا نمک ملا کر بھی کھایا جاسکتاہے۔ اسی طرح گندم کے بے چھنے آٹے کی روٹی‘ آلو دہی کے رائتے یا کسی تازہ سبزی کی بھجیا کے ساتھ بھی کھائی جاسکتی ہے۔ بعض لوگ مونگ کی دال میں دہی ملا کر بھی روٹی سے کھاتے ہیں۔
اس موسم میں بھی قدرت قسم قسم کی سبزیاں پیدا کرتی ہے جنہیں استعمال کرکے ہم اپنی صحت اور توانائی کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ اپریل کی گرمی بہت سخت نہیں ہوتی لیکن مناسب یہی ہے کہ اسی مہینے سے حیوانی پروٹین یعنی گوشت‘ انڈے‘ مرغی اور مچھلی وغیرہ کے استعمال میںمیانہ روی اختیار کرلی جائے۔ جی چاہے تو ہفتے میں دو تین انڈے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح مٹھاس کی مقدار بھی کم کردینی چاہیے۔ حلوؤں اور مٹھائیوں کی جگہ موسمی پھلوںکو ملنی چاہیے۔ کینو‘ گنڈیریاں‘ تربوزاور خربوزوں کا استعمال زیادہ مفید رہے گا۔ گھی اور مکھن کی مقدار بھی کم کردینی چاہیے۔ اپریل میں جہاں تک ممکن ہو اس بات کی کوشش کیجئے کہ آپ جسمانی محنت کاکام صبح اور شام کے وقت کریں۔ آپ باقاعدگی سے پانی پیتے رہیں تاکہ آپ کے جسم میں اس کی کمی نہ ہونے پائے۔
طبی تقاضے: اپریل بلکہ موسم گرما کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ اس موسم میں بعض لوگوںکو خاص طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں تاکہ ان کی صحت کو کسی قسم کے خطرات لاحق نہ ہوں ان میں کھلاڑی‘ مزدور‘ بچے بوڑھے اور مسکن دوائیاں استعمال کرنے والے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ کھلاڑیوںکو تربیت دینے والوں اور محنت مزدوری کرنے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ بات کا خیال رکھیں کہ انہیں مناسب وقفوں کے ساتھ کافی مقدار میں پینے کیلئے پانی ملتا رہے۔
بچوںکو بند اور گرم کمروں میں بھی نہیں رکھنا چاہیے۔اسی طرح بوڑھوں کو بھی چاہیے کہ وہ دھوپ کے وقت باہر نکلنے سے گریز کریں۔ اپریل کا تقاضاہے کہ صاف ستھرے رہیے‘ صاف ستھری ہلکی غذا کھائیے۔ صاف پانی پیجئے اور زیادہ گرمی پیدا کرنے والی ثقیل چیزوں کا استعمال کم سے کم رکھیے۔ اپریل کی صبحیں مسکراتی ہیں ان کا جواب بھی مسکراہٹ سے دیجئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب آپ محتاط ہوں‘ صحت مند ہوں رات کو جلد سوئیں اور صبح سویرے بیدار ہوکر اپنے دن کا آغاز کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں