پروفیسر میمونہ کریم‘ لاہور
جذبات پر قابو پانے اور اپنی فطری اختیاری قوت میں اضافے کیلئے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ حالات سے کوئی بھی فرار حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی دنیا ہماری مرضی کے عین مطابق ہمیں مل سکتی ہے۔ سب کچھ ویسا نہیں ہوسکتا جیسا ہم چاہتے ہیں
’’زندگی پھولوں کی سیج نہیں…‘‘ یہ بڑا عام سا محاورہ ہے جو اکثر و بیشتر ہم ایک دوسرے سے سنتے رہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ حقیقت بھی ہے۔ زندگی اپنے اندر خود ہزار ہا پہلو رکھتی ہے۔ یہ کوئی ایسی سڑک نہیں جسے انجینئروں نے ایک مسلمہ اصول کے تحت ہموار بنایا ہو بلکہ یہ وہ راستہ ہے جس میں نشیب و فراز لازمی ہوتے ہیں۔ کبھی آپ خود کو بہت اچھا محسوس کرتے ہیں اور کبھی آپ پر یاس کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ زندگی میں ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی تبدیلی آپ پر اثرانداز ہوتی ہے۔ نہ صرف اپنی ذات کے بارے میں بلکہ ایسی تبدیلیاں جو ہمارے اردگرد رونما ہوتی ہیں وہ بھی ہمارے مزاج ہمارے جذبات اور محسوسات پر اثرانداز ہوتی ہے الغرض ہر بات اپنی نوعیت کے اعتبار سے اپنا اثر رکھتی ہے اور یہی اثرات ہمارے رویوں میں جھلکتے ہیں۔
غصہ‘ تندو تیز اور تلخ لہجے‘ جھنجھلاہٹ‘ بیزارگی‘ اضطراب و بے چینی‘ دکھ اور صدمہ یہ دو کیفیات ہیں جن سے ہم سب کا کسی نہ کسی صورت زندگی میں واسطہ رہتا ہے۔ طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر انسان ان کیفیات کو خود پر طاری ہونے سے نہ روک سکے اسے ان کیفیات پر قابو پانے کا اختیار نہ ہو تو اس سے انسان کی ذہنی جسمانی اور سماجی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات ایسے بھی واقعات دیکھنے کو ملے ہیں کہ شدید دکھ اور صدمہ انسان کیلئے جان لیوا بھی ثابت ہوجاتا ہے۔ آپ نے ایسی خبریں بھی سنی ہوں گی کہ کسی بوڑھی ماں کا جواں بیٹا حادثے کا شکار ہوگیا تو اگلے دن ماں بھی چل بسی۔ کسی بری خبر سے ہارٹ اٹیک کے واقعات عام ہیں۔ دکھ اور کسی بری خبر پر بے ہوش ہوجانا اور اس طرح کی دیگر ہزار ہا مثالیں ہم اپنی زندگی میں دیکھتے رہتے ہیں۔ آخر یہ کیوں ہوتا ہے؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی منفی کیفیات پر کس حد تک اور کیسے قابو پاسکتے ہیں۔ کم از کم اس حد تک ہمیں اپنے آپ پر اختیار ہونا چاہیے کہ ہم زندگی سے اتنے دور نہ ہوجائیں کہ واپسی کا راستہ ہی ممکن نہ رہے۔
جذبات پر قابو پانے اور اپنی فطری اختیاری قوت میں اضافے کیلئے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ حالات سے کوئی بھی فرار حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی دنیا ہماری مرضی کے عین مطابق ہمیں مل سکتی ہے۔ سب کچھ ویسا نہیں ہوسکتا جیسا ہم چاہتے ہیں کیونکہ ہم سے بہت سارے ہیں جو ہم جیسا نہیں چاہتے۔ ہر شخص کا زندگی گزارنے کے حوالے سے اپنا ایک سوچنے کا انداز ہوتا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہم خود حالت کے مطابق لڑنے اور اس سے نمٹنے کا ہنر سیکھ سکتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو اس قابل بناسکتے ہیں کہ شدید دکھ‘ رنج اور دیگر منفی کیفیات کے نقصان دہ اثرات سے خود کو بہت حد تک بچالیں۔ اس کیلئے ہم چند ان عوامل کا ذکر کریں گے جن سے اکثر ہمارا واسطہ رہتا ہے۔ یا زندگی کے کسی بھی دور میں ہم ان کا سامنا کرسکتے ہیں۔
احساس محرومی: احساس محرومی کیا ہے؟ کسی چیز کی خواہش کے باوجود اسے حاصل کرنے میں ناکام رہنے کے بعد جو احساسات ہمارے اندر پیدا ہونے لگتے ہیں انہیں ہم احساس محرومی کہتے ہیں یہ احساسات کئی طرح کے ہوسکتے ہیں۔ ایک اس کی شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کوئی چیز ہمارا حق ہے لیکن دوسروں نے وہ حق یا تو ہم سے چھین لیا ہے یا ہمارا حق دبا رکھا ہے اور اسے دینے کوتیار نہیں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے لیے جو چاہتے ہیں وہ ہمیں تو میسر نہیں البتہ اردگرد کے کئی لوگ وہی چیزیں اپنے پاس رکھتے ہیں جبکہ وہ بھی ہم جیسے ہی انسان ہوتے ہیں‘ پھر ہم ہی اس چیز سے کیوں محروم ہوتے ہیں؟ ہم یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ ان میں سے کچھ اس کا حق ہی نہیں رکھتے لیکن پھر بھی وہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں اس طرح کے احساس محرومی کو ہمارے معاشرے میں عام دیکھا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اپنے ان احساسات کا زیادہ غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تجزیہ کریں تو ہوسکتا ہے کہ ہم پر انکشاف ہو کہ بہت ساری چیزیں اس میں سے فرضی ہیں۔ یعنی ہمارے احساس محرومی کا ایک بڑا حصہ فرضی بھی ہوسکتا ہے یا پھر محض اس کا تعلق ہماری سوچ سے ہو سکتا ہے۔ محرومی کا شکار عام طور پر وہ لوگ زیادہ ہوتے ہیں جنہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ جو کچھ انہیں حاصل ہے وہ بھی کہیں زیادہ اہم ہے۔ یہ لوگ بہت کچھ ہونے کے باوجود ان باتوں پر پریشان رہتے ہیں جن کے بغیر بھی اچھی خاصی اور آرام دہ زندگی گزر رہی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے ماہرین نفسیات اس بات پرزور دیتے ہیں کہ انہیں چاہیے کہ وہ اس بات پر شکر ادا کریں جو انہیں حاصل ہے۔ بڑی خوشی کی کوشش میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں ضائع نہ کریں دوسرے لوگوں کی زندگی کو کبھی آئیڈیل نہ سمجھیں۔ زندگی وہی ہے جو آپ گزار رہے ہیں۔ اپنی خوشیوں کو اپنے وسائل کے اندر رہ کر تلاش کریں۔ یقین کریں کہ آپ حیران ہوجائیں گے کہ آپ نے خواہ مخواہ مایوسیوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ آپ کو احساس ہوگا کہ آپ توہزاروں سے بہتر ہیں۔ اگر اللہ نے آ پ کو تندرستی بھی دی ہے تو یہی ایک اتنی بڑی نعمت ہے جو آپ کو خوش رکھ سکتی ہے۔ احساس محرومی سے حالات نہیں بدلنے والے۔ یہ بات بھی آپ کے ذہن میں ہونی چاہیے۔ حالات اسی وقت بدلتے ہیں جب آپ اس کیلئے سعی اور کوشش کرتے ہیں۔ ان کیلئے آپ کو محنت کرنا ہوگی۔ خالی سوچنے سے کبھی کچھ نہیں ہوتا۔ آپ کتنا بھی اچھا سوچ رہے ہوں لیکن جب تک اس کے ساتھ عمل شامل نہیں ہوگا آپ کی سوچ کی کوئی وقعت نہیں ہے۔جب آپ اپنی کوشش کرچکے اور جو کچھ ہوتا ہے اس پر آپ کا اختیار نہیں تو اس پر آپ مضطرب کیوں ہیں؟ جب آپ یہ بات سمجھ لیں گے تو اس سے آپ کی بے چینی کم ہوجائے گی۔ پھر بھی آپ کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ مضطرب ہوں‘ آپ کو احساس محرومی شدید ستارہا ہو تو اس کا ذکر اپنے دوستوں سے کریں۔ انہیں اپنا حال دل سنائیں۔ ان سے بات کریں۔ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کریں۔ ہوسکتا ہے کہ ان سے بات کرکے آپ کو اطمینان حاصل ہو اور آپ پرسکون ہوجائیں۔
احساس ندامت: انسان غلطی کا پتلا ہے وہ اپنی زندگی میں غلطیاں کرتا ہے اور سیکھتا ہے۔ ایسی ہی غلطیاں بعض اوقات ہمارے لیے ندامت اور پریشانی کا سبب بن جاتی ہیں۔ یہ احساس جب حد سے بڑھنے لگتا ہے تو انسان مستقل پریشان اور بے چین رہنے لگتاہے۔ اس احساس ندامت کی بھی کئی شکلیں ہوتی ہیں۔ اگر تو یہ عام نوعیت کا یعنی آپ کی غلطی کی سنگینی کم نوعیت کی ہے تو آپ اسی اعتبار سے نادم ہوں گے لیکن اگر کسی شخص نے خدانخواستہ کسی شخص کی جان لی ہے‘ کروڑوں روپے کے گھپلے کیے ہیں‘ سرکاری خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے تو ایسی صورت میں ضمیر پر بوجھ بھی افعال کی مناسبت سے ہی ہوگا تاہم اگر آپ کسی چھوٹی موٹی بات پر نادم ہیں اور وہ بات واقعی ندامت کا باعث ہونی چاہیے تو اس کی تلافی ہوسکتی ہے۔ آپ نے مثال کے طور پر کسی کا دل دکھایا ہے یا کوئی غلط بات کہی ہے اور آپ کو اس پر ندامت ہورہی ہے تو آپ متعلقہ شخص سے معذرت کرکے اس کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرسکتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں