ابولبیب شاذلی
حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے گھر والوں کے پاس ایک جَو کی ٹکیہ ہوتی تھی جس کو حارث کو کھلادیا کرتے تھے اور خود بھوکےرہ جاتے تھےیہاں تک کہ گھر والوں کو بڑی سختی لگی‘ تب حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حارث سے کہا تو نے ہم لوگوں کو بھوکا ماردیا
حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہٗ ایک جلیل القدر صحابی اور نہایت عبادت گزار تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے انہیں حمص میں گورنر بنا کر بھیجا یہ ایک سال حمص میں رہے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے پاس ان کی کوئی خبر نہیں پہنچی‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے اپنے کاتب سے فرمایا عمیر رضی اللہ عنہٗ کی طرف لکھو: ’’ جب تمہیں میرا یہ خط ملے تم فوراً میرے پاس چلے آؤ اور جو کچھ تم نے مسلمانوں کے مال غنیمت سے اکٹھا کیا ہے اسے بھی لاؤ میرا یہ خط دیکھتے ہی (روانہ ہوجاؤ)‘‘
حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی کل متاع:حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنا تھیلا لیا اس میں اپنی زاد راہ اور پیالہ رکھا پانی کا برتن گلے میں لٹکایا اور اپنا چھوٹا نیزہ لیا اور حمص سے پیدل چل دئیے یہاں تک کہ مدینہ آپہنچے۔ راوی کہتے ہیں کہ جب یہ مدینہ پہنچے ان کا رنگ بدل چکا تھا‘ ان کا چہرہ غبارآلود تھا اور ان کے بال بڑھے ہوئےتھے۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے پاس تشریف لے گئے اور کہا السلام علیک یاامیرالمومنین ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کہا کہ آپ میری کیسی حالت دیکھ رہے ہیں؟ کیا آپ مجھے نہیں دیکھ رہے ہیں کہ میں صحیح البدن‘ پاک خون اولاد ہوںاور میرے ساتھ دنیا ہے کہ اس کا سینگ پکڑ کر میں کھینچ رہا ہوں‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ کیا ہے؟ اور ان کویہ گمان ہوا کہ عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کچھ مال لائے ہونگے‘ حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کہا میرے پاس ایک چمڑےکا تھیلا ہے جس میں میں اپنا توشہ رکھتا ہوں اور ایک پیالہ ہےجس میں کھانا کھاتا ہوں اور اسی سے اپنا سر اور اپنے کپڑے دھوتا ہوں اور میرے پاس ایک پانی کی گھاگھر ہے جس میں میں اپنے وضو اور پینےکا پانی رکھتا ہوں اور میرا چھوٹا نیزہ ہے جس پر کہ میں ٹیک لگاتا ہوں اور جس کے ذریعہ دشمن سے مقابلہ کرتا ہوں اگر سامنے آجائے۔ پس خدا کی قسم دنیا میری پونجی کے تابع ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کیا تم پیدل چل کر آئے ہو؟ فرمایا جی ہاں! حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کہا کیا تمہارے لیے کوئی ایسا آدمی نہیں تھا جو سواری دیکر تمہارے ساتھ سلوک کرتا اور تم اس پر سوار ہوجاتے؟ حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کہا نہ تو لوگوں نے ایسا کیا اور نہ میں نے لوگوں سے اس بات کا مطالبہ کیا۔ میں نے ان کو صبح کی نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا وہ چیز کہاں ہے جس کیلئے میں نے تمہیں وہاں بھیجا تھا؟ اور تم نے کیا کیا؟ حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے عرض کیا کہ آپ کے اس سوال کا اے امیرالمومنین! کیا مطلب ہے؟ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نےتعجب کے ساتھ فرمایا سبحان اللہ! حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کہا سنئے اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ آپ رنجیدہ ہوجائیں گے تو میں آپ کو خبر نہ دیتا ‘میں نے وہاں کے صلحاء کو جمع کیا اور میں نے ان لوگوں کو ان کے مال غنیمت کے خزانہ کا ولی بنادیا جب ان لوگوں نے ان کے مال غنیمت کو جمع کرلیا تو میں نے اس مال کو اس کے مصرف میں لگادیا ۔
مہمان کی آمد:حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا تو پھر تم میرے لیے کچھ نہیں لائے؟ عرض کی نہیں‘ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ولایت کیلئے نیا معاہدہ تیار کرو۔ حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کہا امارت ایسی چیز ہے نہ تو میں اب آپ کے لیے اس کام کو انجام دونگا اور نہ آپ کے بعد کسی اور کیلئے۔۔۔ خدا کی قسم! میں نہ بچ سکا بلکہ میں مسلمان کامل نہ رہا‘ میں نے ایک نصرانی سے کہہ دیا تھا اے شخص خدا تجھے رسوا کرے‘ پس یہ وہ امارت ہے۔ اے عمر! جس کیلئے آپ نے مجھ کو پیش کیا اور میرے دنوں میں سے سب سے زیادہ بدبخت دن تھا۔ اے عمر! وہ دن ہے کہ میں تمہارے ساتھ حاکم بنا‘ اس کے بعد حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے اجازت چاہی انہیں اجازت دیدی اور یہ اپنے گھر چلے گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ان کے اور مدینہ کے درمیان کئی میل کا فاصلہ تھا۔ جب حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ واپس ہوگئے تو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حارث نامی ایک آدمی کو سودینار دیئے اور کہا عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے پاس تم جاؤ اور ان کے پاس اس طرح ٹھہرو گویا کہ تم مہمان ہو اگر تم کو کچھ خوشحالی کی علامت معلوم ہو تو میرے پاس فوراً آجاؤ اور اگر تم تنگی دیکھو تو انہیں یہ سودینار دیدینا چنانچہ حارث گئے‘ انہوں نے دیکھا کہ عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ باغ کے کنارے بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے کُرتے میں سے جُوئیں دیکھ رہے ہیں اس آدمی نے حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو سلام کیا۔ حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کہا آؤ اللہ تم پر رحم کرے چنانچہ یہ وہاں بیٹھ گیا۔ پھر حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ان سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو؟ اس نے کہا مدینہ سے ۔حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کہا امیر المومنین کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟ اس نے کہا ٹھیک ہیں۔ حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے پوچھا مسلمانوں کو کس حالت میں چھوڑا؟ میں نے کہا سب ٹھیک ہے۔ حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کہا کیا حدیں(شرعی سزا) نہیں لگائی جاتیں؟ اس نے کہا ہاں لگائی جاتی ہیں ابھی اپنے بیٹے خطاء فحش پر حد لگائی ہے چنانچہ وہ ان کے مارنے سے مرگیا۔ حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا اے اللہ! عمر کی اعانت فرما! جہاں تک مجھے ان کا علم ہے وہ تجھ سےبہت زیادہ محبت رکھتے ہیں۔ راوی کہتےہیں حارث ان کے پاس تین دن تک ٹھہرا‘ حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے گھر والوں کے پاس ایک جَو کی ٹکیہ ہوتی تھی جس کو حارث کو کھلادیا کرتے تھے اور خود بھوکےرہ جاتے تھےیہاں تک کہ گھر والوں کو بڑی سختی لگی‘ تب حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حارث سے کہا تو نے ہم لوگوں کو بھوکا ماردیا اگر تو مناسب سمجھے تو ہمارے پاس سے کہیں اور چلا جا۔
حضرت عمیررضی اللہ عنہٗ اور اشرفیاں: راوی کہتے ہیں کہ حارث نے وہ اشرفیاں نکالیں اور ان کو دینی چاہیں اور کہا یہ امیرالمومنین نے تمہارے پاس بھیجی ہیں اس کے ذریعے امداد حاصل کرو‘ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ چلائے اور کہا مجھے ان کی کچھ حاجت نہیں انہیں واپس کردینا۔ حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی بیوی نے ان سے کہا اگر آپ کو ان کی ضرورت ہو تو لے لیں ورنہ ان کو ان کے مصارف خیر میں لگادیں۔ حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا خدا کی قسم! مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ان کو لیکر نکلے‘ شہداء کی اولاد اور فقراء میں تقسیم کرکے چلے آئے۔ حارث نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے پاس پہنچ کر تمام حالت بیان کی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے ان کو دوبارہ بلایااور ان سے پوچھا کہ تم نے ان اشرفیوں کا کیا کیا؟ انہوں نے جواب دیا میں نے ان کو اپنے ثواب کیلئے آگے بڑھا دیا۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا اللہ تم پر رحم کرے اور ان کیلئے ایک وسق غلہ (پانچ من بارہ سیر تقریباً) اور دو کپڑوں کا حکم دیا۔ حضرت عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کہا غلہ کی تو مجھے کچھ حاجت نہیں میں اپنے مکان میں سات سیر تقریباً جو چھوڑ کر آیا ہوں جب تک میں ان کو کھاؤنگا اللہ پاک رزق دے ہی دے گا اور غلہ نہیں لیا اور دونوں کپڑے کے بارے میں فرمایا کہ فلاں کی ماں کے پاس کپڑے نہیں لہٰذا میں ان کو لیتا ہوں اور اپنے مکان میں لوٹ آئے۔ کچھ دیر نہ لگی تھی کہ واپس آتے ہی وفات پاگئے۔ اللہ ان پر رحم کرے۔
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو ان کی وفات کی خبر پہنچی تو ان پر بہت گراں گزری اور ان کیلئے رحمت کی دعا کی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں