فضا فائروں کی آواز سے تھرا اٹھی۔ ہمارے نشانے خطا نہیں ہوئے تھے ہم دونوں بھاگے بھاگے ’’نیل سروں‘‘ کو اٹھانے کیلئے گئے میں نےجیب سے چاقو نکال کر ہاتھ میں پکڑلیا تھا مگر شکار کے قریب پہنچ کر مارے ندامت اور بدحواسی کے ہمارا برا حال ہوگیا۔
وہ دسمبر کی ایک خوش گوار صبح تھی۔ میں اور میرا دوست ارشد طے شدہ پروگرام کے تحت علی الصباح‘ کیل کانٹے سے لیس ہوکرمرغابیوں کے شکار کیلئے چل کھڑے ہوئے۔ ارشد کو مرغابیوں کے شکار سے والہانہ عشق ہے اور میں بھی اس معاملے میں ارشد سے کچھ پیچھے نہیں ہوں۔
ہم دونوں شہر سے باہر اس بڑے تالاب کی طرف گئے‘ جہاں مرغابیوں کی کثیرتعداد پائی جاتی ہے۔ یہ تالاب مچھلی اور دیگر آبی پرندوں کے شکار کیلئے بھی مشہور ہے۔ ہمارے شہر سے اس تالاب کا فاصلہ کوئی دو میل کے لگ بھگ ہوگا۔ اس کے قریب ہی ایک گاؤں ہے‘ بہرحال ہم سردی میں ٹھٹھرتے اور آپس میں ہنسی مذاق کرتے اپنی منزل کے قریب پہنچ گئے۔
آپ کو معلوم ہوگا کہ مرغابی کے شکار کیلئے موزوں وقت صبح کا ہوتا ہے کیونکہ دن کو مرغابی گہرے پانی میں دور تک چلی جاتی ہے اور جب اسے بھوگ لگتی ہے تو علی الصبح ناشتہ کرنے کے لیے کنارے کا رخ کرتی ہے۔ اس کی خوراک میں گھونگھے‘ ریت‘ چھوٹے چھوٹے کنکر‘ گھاس اور چاول کے خوشے جو پک جاتے ہیں۔لہٰذا شام کے وقت مرغابی کو چاول کے خوشے کھاتے ہوئے بھی شکار کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے شکار کا موزوں وقت صبح کا ہے۔
ہم نے اپنے سروں پر بئے کے گھونسلے اوڑھ رکھے تھے کیونکہ مرغابی کے شکار کیلئے شکاری کو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے اگر اسے ذرا بھی شکاری کی موجودگی کا احساس ہوجائے تو پھر اسے مارنا ناممکن ہے۔ بئے کا گھونسلا سر پر اوڑھنے کے دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ گھونسلا سردی سے سر کو محفوظ رکھنے میں مدد دیتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ مرغابی اسے سرکنڈوں کا پودا سمجھتی ہے۔تالاب کے قریب ہی برسین (شفتل) کھیت واقع تھے۔ صبح کے دھندلکے میں اس پر برف کی ہلکی ہلکی سی تہہ جمی ہوئی تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے پورے کھیت پر ایک سفید چادر بچھا دی گئی ہے۔ ارشد نے دور ہی سے مرغابیوں کے ایک جھنڈ کو تاڑا اور مجھے اشارہ کرکے جلدی سے پیٹ کے بل لیٹ گیا۔ مجھے بھی دیکھا دیکھی ایسا ہی کرنا پڑا۔ ہاتھ سُن ہوئے جارہے تھے مگر سامنے تالاب میں دس بارہ ’’نیل سروں‘‘ کی موجودگی میں سردی کی کون پرواہ کرتا ہے۔ انہیں دیکھ کر میری باچھیں کھل گئیں۔ میں دل ہی دل میں ان کے بھنے ہوئے گوشت کی بھینی بھینی خوشبو سے لطف اندوز ہونے لگا۔ برف کی جمی ہوئی تہہ کے اوپر پیٹ کے بل رینگتے ہوئے ہم تقریباً دس منٹ کے اندر اندرکھیت کے دوسرے کنارے پہنچ گئے۔ اب ہمارے اور مرغابیوں کے درمیان کوئی چالیس فٹ کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ ہم دونوں گھات لگائے اپنی اپنی یخ بستہ کمین گاہوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ میں اپنی دو نالی بندوق دونوں ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے ارشد کی سیٹی کا منتظر تھا۔ اچانک اس نے سیٹی بجائی آن واحد میں فضا فائروں کی آواز سے تھرا اٹھی۔ ہمارے نشانے خطا نہیں ہوئے تھے ہم دونوں بھاگے بھاگے ’’نیل سروں‘‘ کو اٹھانے کیلئے گئے میں نےجیب سے چاقو نکال کر ہاتھ میں پکڑلیا تھا مگر شکار کے قریب پہنچ کر مارے ندامت اور بدحواسی کے ہمارا برا حال ہوگیا۔ واقعہ یہ تھا کہ ’’نیل سر‘‘ مرغابیوں کے بجائے ہم نے بطخیں مار ڈالی تھیں۔ کیوں کہ نیل سر اور عام گھریلو بطخوں کی شکل و شباہت میں حیرت انگیز مشابہت پائی جاتی ہے۔ نرنیل سر کی دم نربطخ کی دم کی مانند مڑی ہوتی ہے جس سے شکاری دھوکہ کھاجاتا ہے۔ فائروں کی آواز سن کر گاؤں کے چند افراد بھی تالاب کے کنارے کی جانب آنا شروع ہوگئے تھے اور اس سے پیشتر کہ ہم وہاں سے کھسک جائیں بطخوں کا مالک غصے میں بھرا ہوا ہماری طرف آیا۔
ان بطخوں کو تم نے مارا ہے؟ اس نے گرج کر پوچھا۔ جی! ہم سے غلطی ہوگئی‘ ارشد نے نہایت معصومیت سے جواب دیا۔ نکال پانچ سو روپے ورنہ میں ابھی دونوں کو تھانے لےجاؤں گا۔ دیہاتی اب مجھ سے مخاطب تھا۔ ہم عجیب بے بسی کے عالم میں ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ خوش قسمتی سے میرے اوورکوٹ کی جیب میں سے کچھ روپے نکل آئے اور آدمیوں نے بیچ بچاؤ کراکے معاملہ چارسو روپے پر طے کروا دیا۔ یہ رقم ادا کرکے ہم بدھوؤں کی طرح گھر کو لوٹ آئے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں