کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ اس کی ترقی ہوگئی ہے اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ بن گیا ہے مگر اس کی موٹرسائیکل پر آنے جانے کی روٹین جاری تھی۔ ایک دن گرمیوں کے دنوں میں واپس گھر جارہا تھا اس دن عینک بھول گیا تھا کہ اچانک ایک زہریلا مچھر آنکھ میں آکر لگا
ہمارے معاشرے میں عدالتی نظام بہت پیچیدہ ہے۔ اب کرپشن کو ختم کرنے کیلئے کافی اقدامات کیے گئے ہیں لیکن اب بھی ماتحت عدالتوں کے چھوٹے عملہ میں پیسہ لینے کی لعنت موجود ہے۔ لوگ مجبور ہوتے ہیں پیسے دے کر جان چھڑاتے ہیں لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ پیسہ کسی کام نہیں آتا جو بھی اس طرح رقم لیتا ہے یا تو وہ بیماری پر خرچ ہوتی ہے یا پھر بہت بڑا نقصان ہوجاتا ہے۔ یقین جانیے اس طرح کا مشکوک‘ حرام رزق جس کے گھر بھی گیا ہے بے برکتی بڑھی ہے اولاد نالائق ہوگئی ہے اور جس اولاد کی خاطر وہ ساری عمر ناجائز ذرائع سے دولت کماتا رہا وہی اولاد نکمی ترین ثابت ہوئی۔ کچھ عرصہ پہلے عدالت میں ایک ریڈر صاحب آیا۔ موٹرسائیکل پر گھر سے آتا تھا۔ عدالت سے گھر تقریباً بیس کلومیٹر دور تھا۔ کاٹن کے کلف لگے کپڑے پہنتا تھا اور گرمیوں میں روزانہ نیا کلف لگا جوڑا پہن کر آتا تھا‘ اعلیٰ عینک لگی ہوئی تھی اور جب سیٹ پر بیٹھتا تھا تو باقی ریڈر حضرات سے تین گنا زیادہ پیسے لیتا تھا اگر کوئی 20روپے لیتا تو یہ 60 روپے لیتا۔ اگر کوئی50 لیتا تو یہ 150 روپے سے کم نہیں لیتا تھا اور اکثر عدالت ختم ہوتے وقت کہتا تھا کہ آج اللہ نے اچھی روزی دی ہے اور میری اکثر اس سے بحث ہوتی تھی کہ یہ رزق حرام ہے یہ اللہ نے نہیں بھجوایا یہ حرام ہے۔ یہ شیطان کا ورغلانا ہے حلال صرف وہ ہے جتنی تمہاری تنخواہ ہے۔ باقی جو بھی تم لیتے ہو وہ حرام ہے۔ وہ کہتا کہ تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا۔ میرے بچے اچھے اچھے سکولوںمیں پڑھ رہے ہیں بہت زیادہ فیس دینا پڑتی ہے۔ اللہ نے موقع دیا ہے تو کیوں نہ فائدہ اٹھائیں‘ میری یہی بحث ہوتی تھی کہ اللہ کا موقع دیا ہوا نہیں ہے اور وہ صاحب دبنگ قسم کے ریڈر تھے اور اکثر اپنے صاحب سے بھی اکھڑ جاتے تھے۔ بدتمیزی پر اتر آتے اور صاحب کو جان چھڑانی پڑتی تھی۔ یہ تقریباً دس پندرہ سال قبل کی بات ہے۔ اس ریڈر کا تبادلہ ہوگیا ایک دفعہ دوسرے شہر میں ملاقات ہوئی تو بتانے لگا کہ میں بہت پریشان ہوں۔ اولاد بڑی ہوگئی ہے کہنا نہیں مانتی‘ سامنے بولتی ہے اوربدتمیزی سے پیش آتی ہے۔ سکول والے بھی تنگ کرتے ہیں‘ پانچویں جماعت تک تو بڑے سکولوں کا رزلٹ درست رہا مگر اب جب بچے میٹرک میں پہنچ گئے ہیں پڑھائی میں فارغ ہوگئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے اپنا ریٹ کم کیا ہے یا نہیں‘ ہنس کر کہنے لگا کہ ریٹ تو کم نہیں کیا مگر میں نے سب سے رقم لینا کم کردیا ہے۔ صرف موٹرسائیکل کے پٹرول اور بچوں کی فیسوں کے پیسے لیتا ہوں اور کہنا لگا کہ یہ رقم الگ رکھتا ہوں اور تنخواہ کی رقم الگ رکھتا ہوں اور آپس میں ملاتا نہیں ہوں۔ میں نے پھر اسے سمجھایا کہ اب بھی وقت ہے توبہ کرلو۔ بہت منت سماجت کی‘ کہنے لگا کہ آئندہ احتیاط کروں گا ابھی میں کمرہ عدالت میں موجود تھا کہ ایک سائل سے الجھنے لگا کہنے لگا کہ رقم دو ورنہ میں فوجداری مقدمہ میں غیرحاضری لگادوں گا اور رقم کا مک مکا جاری تھا۔
کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ اس کی ترقی ہوگئی ہے اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ بن گیا ہے مگر اس کی موٹرسائیکل پر آنے جانے کی روٹین جاری تھی۔ ایک دن گرمیوں کے دنوں میں واپس گھر جارہا تھا اس دن عینک بھول گیا تھا کہ اچانک ایک زہریلا مچھر آنکھ میں آکر لگا۔ اسی وقت آنکھ میں شدید خارش شروع ہوگئی اور شدید درد ہونے لگا آنکھ کھلنا بھی مشکل ہوگئی اسی آنکھ پر ہاتھ رکھ کر بڑی مشکل سے موٹرسائیکل چلا کر گھر پہنچا اور آنکھ میںدرد بڑھتا ہی گیا۔ ساری رات جاگ کر گزاری‘ کوئی دوائی اثر نہیں کررہی تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اللہ کی ناراضگی شروع ہوگئی ہے۔ شام کو اپنی بیگم کو بلا کر کہا کہ دیکھو آنکھ میں کیا ہے؟ اس نے آنکھ میں دیکھا تو حیران ہوکر کہا کہ آنکھ میں جو قرینہ ہے وہ شدید زخمی ہے۔ دوسرے دن ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے دو ٹیسٹ لکھ دئیے کہ فوراً یہ ٹیسٹ کرائیں۔ یہ ٹیسٹ کافی مہنگے تھے۔ ٹیسٹ کرائے تو کہا کہ رپورٹ تین دن بعد ملے گی۔ یہ تین دن انتہائی اذیت میں گزرے۔ درد کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ تیسرے دن رپورٹ لیکر ڈاکٹر کے پاس گئے۔ اس نے رپورٹ دیکھی اور ایسی خبر سنائی کہ جس نے جان ہی نکال دی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آنکھ میں کینسر ہوگیا ہے اور تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ اس ٹائپ کا کینسر تیزی سے پھیلتا ہے اور دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے آپ فوراً آپریشن کرائیں اور آپریشن کے ذریعے آنکھ نکالنا پڑیگی۔ اگلے دن آپریشن ہوا اور ڈاکٹر صاحب نے آنکھ نکال دی۔ ایک ہفتہ ہسپتال میں رہے اور اس کے بعد گھر آگئے۔ مگر ہلکا ہلکا درد موجود رہا۔ ایک ماہ کے ریسٹ کے بعد دوبارہ دکھایا مگر درد موجود رہا‘ اسی طرح چھ ماہ گزر گئے۔ محکمہ والوں نے کہا کہ چار پانچ دن ڈیوٹی دوبارہ جوائن کریں اس کے بعد مزید چھٹی ملے گی جب ڈیوٹی پر آیا تو کینسر کی وجہ سے رنگ سانولا ہوگیا تھا۔ جو آنکھ متاثر تھی آپریشن کی وجہ سے اس آنکھ کے اندر کچھ نہیں تھا اس میں روئی گول کرکے رکھی ہوئی تھی ویسے تو گہرے شیشوں والی عینک لگائی ہوئی تھی دستخط کرنے کیلئے عینک اتاری تو عجیب دہشت ناک چہرہ تھا۔ چہرے کے ہیئت ہی بدل گئی تھی جو بھی دیکھتا استغفار پڑھتا ہوا واپس آتا تھا۔
مجھے دیکھ کر کہنے لگا کہ میں نے اب رشوت لینا چھوڑ دی ہے میں نے عرض کیا کہ اللہ آپ کو معاف کرے اور لوگوں سے بھی معافی مانگیں کہنے لگا یہ تو بہت مشکل ہے ایک دن حاضری دی دوسرے دن واپس جارہا تھا بالکل اسی جگہ دوسری آنکھ میں کیڑا لگا اوردرد شروع ہوگیا اور گھر پہنچتے پہنچتے آنکھ سوج گئی۔ ڈاکٹر کو دکھایا تو انہوں نے کہا کہ دوسری آنکھ بھی کینسر کی طرف جارہی ہے اور پہلی آنکھ والا کینسر بھی ختم نہیں ہوا۔ اگر اسی طرح تیزی سے کینسر پھیلتا رہا تو دماغ کو نقصان پہنچا دے گا۔ ایک ماہ علاج کیا‘ مگر درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ مجبوراً دوسری آنکھ بھی نکال دی گئی۔ اب کینسر کا علاج شروع ہوگیا۔ شعاعیں لگنے لگیں‘ شکل تبدیل ہوگئی‘ ڈاکٹروں نے دونوں آنکھیں نکال دیں جو اس نے روپیہ جمع کیا تھا سب ختم ہوگیا اور وہ روپیہ اس کے کسی کام نہ آسکا۔ اولاد پہلے ہی نالائق تھی بیماری کے دوران بالکل ہی ہاتھوں سے نکل گئی اب وہ ہروقت گالیاں نکالتا رہتا ہے۔ اللہ اس کی منزل آسان کرے۔ یہ سب رزق حرام کی وجہ سے ہوا ہم بھول جاتے ہیں کہ رزق حرام کے نسلوں تک اثرات جاتے ہیں اور یہ سچی بات ہے حرام کے ذریعے اکٹھا کیا گیا پیسہ کسی کام نہیں آتا۔ لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ اس طرح رقم اکٹھی کرکے نسلوں کے فائدے کیلئے جمع کرلیں گے کثرت کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتے ہیں اب بھی وقت ہے اللہ کی برکت کو تلاش کرلیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں