موسم کی تبدیلیوں کے ساتھ اپنی غذا اور رہن سہن میں بھی تبدیلی لائیں اور موسم اور موسم کی فراہم کردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ جاڑوں کا موسم توانائیوں کی تجدید کا موسم ہوتا ہے۔ یہ موسم ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے جسم کو حرکت دیں
فروری کا مہینہ ہے۔ سردیاں شباب پر ہیں‘ ملک کے شمالی نیز جنوبی علاقے بھی سردی کی لپیٹ میں ہیں۔ بالائی اور کوہستانی علاقوں میں بارش اور برف باری کا سلسلہ جاری ہے‘ کمزور افراد سردی کے موسم کو کوس رہے ہیں‘ ان کی اکثریت معالجین کی خدمت میں حاضر نظر آتی ہے۔ دوا فروشوں کی بن آئی ہے‘ کوئی نزلے کی دوا مانگ رہا ہے‘ کوئی کھانسی کے شربت اور بخار کی دوا کا طالب ہے‘ ہر شخص لحاف میں دبکا پڑا ہے‘ کیا اس موسم کے استقبال اور اس سے استفادے کا یہ انداز مناسب اور درست ہے؟؟؟
جاڑے ہمیں کیوں ستاتے ہیں؟موسم قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت ہیں۔ یہ زمین کے وسائل کی تجدید کرتے ہیں‘ سخت گرمیاں باران رحمت کا سبب بنتی ہیں‘ زمین تجدید شباب کی منزل سے گزرتی اور نئی توانائیوں سے سرشار ہوکر کروٹ لیتی ہے۔ اس کی گود سے اناج‘ دالیں‘ سبزیاں‘ ترکاریاں‘ پھل اور بے شمار نعمتیں پیدا ہوتی ہیں۔ جاڑوں میں زمین کی توانائیاں اپنے جوبن پر ہوتی ہیں‘ مغذی اناج‘ حیات بخش سبزیاں اور میوے فراہم ہوتے ہیں۔ تازہ اور بکثرت چارے پر پلے ہوئے فربہ جانوروں کا گوشت دستیاب ہوتا ہے‘ گائے‘ بھینس‘ بکری غرض کہ ہر جانور خوب صحت مند اور توانا ہوتا ہے۔ دودھ‘ دہی‘ مکھن اور گھی کی کثرت ہوتی ہے۔ اگر موسم ان سب کیلئے حیات بخش ہیں تو پھر انسان کیلئے کیوں مفید نہیں ہوسکتے؟ ہماری گزر بسر بھی تو زمین کی پیداوار پر ہے! موسم کے تغیر سے ہمارا متاثر اور مستفید ہونا بھی ایک لازمی امر اور ضرورت ہے۔ گرمیوں کو دیکھ کر ہم بدحواس کیوں ہوتے ہیں؟ بارشیں ہمارا ناطقہ کیوں تنگ کرتی ہیں‘ جاڑے ہمیں کیوں ستاتے ہیں؟
اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم خود کو فطرت سے بے تعلق کررہے ہیں‘ اشرف المخلوقات کا مطلب ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم روئے زمین کی ایسی مخلوق ہیں جسے ہر موسم ستانے ڈرانے کیلئے آتا ہے۔ ہمارا یہ نقطہ نظر غلط ہے کوہ و صحراء زمین و سمندر پر حکمرانی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم جسمانی اعتبار سے مکمل طور پر صحت مند و توانا ہوں۔ موسم کی تبدیلیوں کے ساتھ اپنی غذا اور رہن سہن میں بھی تبدیلی لائیں اور موسم اور موسم کی فراہم کردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ جاڑوں کا موسم توانائیوں کی تجدید کا موسم ہوتا ہے۔ یہ موسم ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے جسم کو حرکت دیں‘ ورزش کریں اور خون کی گردش کو تیز کرکے حرارت میں اضافہ کریں۔ لحاف آپ کے جسم میں گرمی نہیں پیدا کرتا صرف جسم کی گرمی کی حفاظت کرتا ہے‘ ہر وقت اسے اوڑھ کر یہ نہ سمجھیے کہ اس سے آپ کی صحت بہتر ہوگی‘ اس موسم میں اپنے لیے غذا‘ ورزش اور حفظ صحت کا ایک پروگرام مرتب کیجئے اور پھر اس پر باقاعدگی سے عمل شروع کردیجئے۔ آپ کی صحت قابل رشک ہوجائے گی اور آپ خود کو توانا محسوس کریں گے۔ سردیاں آپ کو ستائیں گی نہیں بلکہ آپ ان سے لطف اندوز ہوں گے۔
سخت سردی میںکیا کھائیں؟:شمالی علاقوں میں فروری سخت سردیوں کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس میں صبح کے وقت کہر بھی ہوتی ہے‘ سورج نکلنے سے پہلے اٹھ جائیے‘ نماز پڑھیے‘ تلاوت کیجئے‘ گرم لباس پہن کر کسی کھلے میدان‘ کھیت یا باغ میں نکل جائیے اور تیز قدم چلیے‘ ہوسکے تو دوڑئیے‘ صبح تیس سے چالیس منٹ کی سیر اور دوڑ آپ کو فرحت بخش حرارت عطا کرے گی۔ اگر موسم اس کی اجازت نہ دے تو کسی ہوادار کمرے میں ورزش کیجئے۔ ورزش کے بعد آپ پسینہ خشک ہونے کے بعد ہوا سے محفوظ حمام میں نیم گرم پانی سے غسل کرکے جسم کو خوب اچھی طرح مل کر خشک کرلیجئے۔ جاڑوں میں ہفتے میں دوبار نہالینا بھی کافی ہے۔
صبح کے ناشتے میں آپ دیسی گندم یا جو کا دلیہ گرم دودھ کے ساتھ کھاسکتے ہیں‘ دیسی چنے بھی ایک بہترین اور مقوی غذا ہیں۔ مٹھی بھر چنے رات ہی کو بھگودیجئے‘ صبح انہیں ہلکی آنچ پر تھوڑے سے گھی‘ نمک اور مرچ کے ساتھ تل کر یا بھون کر خوب چبا کر کھائیے۔ آپ اس میں پیاز‘ ایک آدھ ٹماٹر‘ لہسن اور ہرے دھنیے کا اضافہ بھی کرسکتے ہیں۔ اس موسم میں گاجریں بھی باآسانی فراہم ہوتی ہے‘ انہیں دودھ میں ابال کر تھوڑا گُڑ ملا کر کھائیں۔ یہ ایک مقوی اور صحت بخش ناشتہ اور غذا ہے۔ صاحب استطاعت انڈے‘ مکھن اور گرم دودھ کا استعمال کریں‘ بیسن میں کٹی ہوئی پیاز‘ ہرا دھنیا‘ ہری مرچ‘ میتھی‘ سرسوں یا پالک کا ساگ‘ ٹماٹر اور نمک مرچ ملا کرروٹی سینک لیں اور اسے تنہا یا لہسن کی چٹنی سے کھائیں یہ ایک نہایت مقوی غذا ہے اسی طرح اس موسم میں مولی‘ آلو اور دال بھری روٹی بھی لذیذ اور مفید ناشتہ ثابت ہوتی ہے۔
دوپہر میں واقعی آپ کو بھوک لگ جائے تو معدہ و جسم کی تواضع ملی جلی کچی سبزیوں کی پلیٹ سے کرنا کافی ہے‘ کینو اور مالٹے بکثرت دستیاب ہوتے ہیں ان کا استعمال بھی آپ کیلئے مفید ثابت ہوگا۔
اب بعداز مغرب آپ کھانا کھائیے‘ اس کھانے میں سبزی‘ گوشت‘ سبزی دال‘ کباب‘ انڈوں اور مچھلی کا سالن کھانا مناسب ہے۔ اس موسم میں اکثر لوگ ہاتھ اور پاؤں کے ٹھنڈے ہونے کی شکایت کرتے ہیں ماہرین کے مطابق یہ شکایت ان لوگوں کو لاحق ہوتی ہے جن کی غذا ناقص اور محدود ہوتی ہے‘ اس کی وجہ سے سردی ان کے پیروںکے دوران خون میں مخل ہوتی ہے۔ جو لوگ حیاتین ج وافر مقدار میں استعمال کرتے ہیں ان کو یہ تکلیف سرے سے ہوتی ہی نہیں۔
سردی کا تقاضا ہے کہ آپ خود کو محفوظ رکھنے کیلئے مناسب گرم کپڑے پہنیں۔ آپ کے سر‘ سینے‘ کمر اور گردن کا سردی سے محفوظ ہونا ضروری ہے۔ سوتے وقت کمرے میں ہوا کا گزر ہونا چاہیے۔ اگر آپ انگیٹھی جلاتے ہوں تو اس بات کا خاص خیال رکھیے کہ اس کی زہریلی گیس کمرے میں جمع نہ ہونے پائے۔ سوتے وقت سر اور گردن کو چادر وغیرہ سے ڈھاک لیجئے۔ منہ پر لحاف اوڑھنا ایک غیرصحت مند عادت ہے۔
احتیاط لازم ہے:ہر موسم کی طرح اس موسم میں بھی یہ احتیاط رکھیے کہ آپ وہ اشیاء استعمال نہ کریں جو موافق نہ آتی ہوں‘ بہت زیادہ سرد پانی سے بچیے‘ سوتے وقت نیم گرم پانی اور نمک سے غرغرے کرنا ایک مفید احتیاطی تدبیر ہے۔ اسی طرح سوتے وقت ناک میں کوئی معیاری بام لگانے سے نزلے زکام سے خاصا تحفظ ہوجاتا ہے۔ اس موسم میں اکثر لوگ کم پانی پیتے ہیں جس کی وجہ سے قبض کی شکایت ہوجاتی ہے لیکن اگر کچی سبزیاں اور موسمی پھل کھائیں گے تو پھر قبض نہیں ہوگا۔ دن میں کم از کم سات آٹھ گلاس پانی بھی ضرور پینا چاہیے۔
سردی صحت و شباب کا موسم ہے۔ فروری میں جاڑا اپنے شباب پر ہوتا ہے۔ اگر آپ کوشش کریں تو یہ آپ کی صحت کے شباب کا مہینہ بھی بن سکتا ہے۔
پیشاب کی جلن کیلئے
ایک پیالی گرم چائے کی لیں اس میں اتنا ہی پانی مکس کرکے پی لیں‘ تقریباًایک گھنٹہ بعد پیشاب کھل کر آئے گا اور جلن بھی نہیں ہوگی۔(اطہراقبال‘ فیصل آباد)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں