تلا وتِ قرآن قربِ الہٰی کا ذریعہ
حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا وا قعہ ہے کہ انہو ںنے اللہ تعالیٰ کو خوا ب میں دیکھا ( یا د رہے کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے سے مراد ان کی خاص تجلیا ت کی زیا رت ہے ) حضر ت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ آپ کا قرب حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشا د فرمایا : ” قرا ة القرآن ۔ یعنی قرآن کا کثرت سے پڑھنا ۔ امام صاحب نے عرض کیا بفھم اوبلا فھم یعنی قرآن کو سمجھ کر پڑھا جائے یا بلا سمجھے ؟ اللہ تعالیٰ نے ار شا د فرمایا بفھم اوبلا فھم یعنی سمجھ کر اور بلا سمجھے دونو ں طر ح ۔ ( مر سلہ : مرسلین احمد ۔۔۔ کو ئٹہ )
سب سے بڑا جھو ٹ
حضرت وائلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شا د فر مایا سب سے بڑا جھو ٹ یہ ہے کہ کسی شخص کی اس کے والد کی بجائے کسی دوسری طر ف نسبت کی جائے یا کوئی شخص ایسی چیز دیکھنے کا دعویٰ کرلے جو اس نے نہ دیکھی ہو یا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طر ف ایسی با ت کی نسبت کر لے جو آپ نے نہ فرمائی ہو۔ ( بخار ی شریف ) ( مر سلہ : واسع جبین ۔۔سکھر)
سلطنت کی قیمت
حکا یا ت میں ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہوا ہے کہ انہو ں نے اپنے عہد کے با دشا ہ سے ایک دن پو چھا کہ اگر تم اتفاقاً شکا ر کے لیے کہیں جا ﺅ اور را ستہ بھو ل کر تن تنہا رہ جا ﺅ اور اس وقت تمہیں شدت سے پیا س لگے ۔حتیٰ کہ اس کے با عث تمہیں یوں محسو س ہو کہ اب شا ید جان ہی نکل جائے گی اور اسی مشکل وقت میں کوئی شخص تمہارے پا س ایک پیا لہ پانی لائے اور یہ مطا لبہ کر ے کہ اگر آدھی سلطنت اس کے نا م کر دی جائے تو تمہیں پانی کا پیالہ ملے گا ۔ تو کیا تم آدھی سلطنت دے کر وہ پانی کا پیالہ خرید لو گے یا نہیں ؟ بادشاہ نے کہا کیو ں نہیں ۔ میں ضرور خرید لوں گا ۔ بزرگ نے پھر کہا اگر اتفا ق سے تمہارا پیشاب بند ہو جائے اور اس مشکل سے نجا ت کی کوئی صورت بھی نظر نہ آئے۔ ایسے میں ایک شخص آئے اور کہے کہ اپنی آدھی سلطنت مجھے دیدو تو میں تمہیں صحت یا ب کر دو ں گا اس صورت میں کیا تم اپنی باقی آدھی سلطنت بھی اسے دے دو گے۔ با دشا ہ نے کہا بالکل میں بقیہ نصف سلطنت بھی اس کو دے دو ں گا ۔ بزرگ یہ جواب سن کر مسکرائے اور فرمایا ۔ با دشا ہ سلامت آپ کی سلطنت کی یہ قیمت ہے ....ایک پیالہ پانی اور ایک پیشاب....لیکن آپ اس سلطنت کی محبت میں اس قدر غر ق ہیں کہ یا دِالہٰی سے محروم ہو گئے۔ ( مر سلہ : زیب قادر۔لالہ مو سیٰ)
بیت اللہ کو جانے والا لڑکا
شیخ فتح مو صلی رحمتہ اللہ علیہ بیا ن فرماتے ہیں ۔ میں نے جنگل میں ایک نابالغ لڑکا دیکھا جو را ستے میں چل رہا تھا اور اس کے لب حرکت کر رہے تھے ۔ میں نے سلا م کیا ۔ اس نے جو ا ب دیا میں نے پھر سوا ل کیا صاحبزادے کہا ں جا رہے ہو ؟ کہا بیت اللہ کو جا تا ہو ں ، میں نے پو چھا کن الفا ظ کے ساتھ لبو ں کو حرکت دیتے ہو ؟ لڑکے کے کہا قرآن کے ساتھ ، میں نے کہا ابھی تک تم پر حج فرض نہیں ہوا ؟ لڑکے نے کہا مو ت کو دیکھتا ہو ں کہ مجھ سے چھوٹو ں کو لے رہی ہے ....پھر میں نے کہا ....تمہارے قدم چھوٹے ہیں اور را ستہ دور کا ہے۔ کہا مجھ پر قدم اٹھا نا اور خدا پر منزل ِ مقصود پر پہنچانا ہے ۔ اس نے کہا اے چچا کوئی مخلو ق میں سے تم کو اپنے گھر بلائے تو کیا یہ مناسب ہے کہ تم اپنے ساتھ کھا نا لیکر اس کے گھر جاﺅ؟ میں نے کہا نہیں ، لڑکے نے کہا میرا سردار اپنے بندو ںکو اپنے گھر بلا تا ہے اور ان کو گھر کی زیا رت کی اجازت دیتا ہے۔ ان کے ضعیف یقین نے انہیں تو شہ لینے پر آما دہ کیا اور میں اس کو براجانتا ہو ں، ادب کا لحاظ کرتا ہو ں۔ پھر لڑکے نے مجھ سے پوچھا کیا تمہیں گما ن ہے کہ وہ مجھے ضائع و بر باد کر دے گا ۔ میں نے کہا ہر گز نہیں ۔ یہ کہہ کر لڑکا میری نظر سے غا ئب ہو گیا ۔ پھر میں نے اسے مکہ میں دیکھا اور ا س نے مجھے دیکھا اور کہا اے شیخ تم ابھی تک ضعیف یقین ہی پر ہو ( روض الریا حین ) ( مر سلہ : عطیہ کوثر ۔ لاہو ر )
عظیم باپ کا عظیم بیٹا
حضرت عبدا اللہ بن مبار ک رحمتہ اللہ علیہ کے والد غلا م تھے ، اپنے مالک کے با غ میں کام کر تے تھے ، ایک مر تبہ مالک باغ میں آیا اور کہا ” میٹھا انا ر لائیے “ مبا رک رحمتہ اللہ علیہ ایک درخت سے انار توڑ کر لائے ، مالک نے چکھا تو کھٹا تھا ، اس کی تیوری پر بل آئے۔ کہا ” میں میٹھا انار مانگ رہا ہو ں ، تم کھٹا لائے ہو “ مبارک رحمتہ اللہ علیہ جا کر دوسرے درخت سے انار لائے ، مالک نے کھا کر دیکھا تو وہ بھی کھٹا تھا ، غصہ ہوئے، کہنے لگے ” میںنے تم سے میٹھا انار مانگا ہے اور تم جا کر کھٹا لے آئے ہو “ مبا رک رحمتہ اللہ علیہ گئے اور ایک تیسرے درخت سے انار لیکر آئے ، اتفا قاً وہ بھی کھٹا تھا ، مالک کو غصہ بھی آیا اور تعجب بھی ہو ا، پو چھا ” تمہیں ابھی تک میٹھے کھٹے کی تمیز اور پہچان نہیں “ ....مبارک رحمتہ اللہ علیہ نے جوا ب میں فرمایا ”میٹھے کھٹے کی پہچا ن کھا کر ہی ہو سکتی ہے اور میں نے اس باغ کے کسی درخت سے کبھی کوئی انار نہیں کھا یا “ ....مالک نے پو چھا ” کیو ں “؟ .... مبارک رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ جنا ب وہ اس لیے کہ آپ نے با غ کی رکھوالی کی ذمہ داری مجھے سو نپی تھی، باغ سے کھا نے کی اجاز ت نہیں دی ہے اور آپ کی اجاز ت کے بغیر میرے لئے کسی انار کا کھا نا کیسے جا ئز ہو سکتا ہے“؟....یہ بات مالک کے دل میں گھر کر گئی .... تحقیق کرنے پر معلو م ہو اکہ واقعتا مبارک رحمتہ اللہ علیہ نے کبھی کسی درخت سے کوئی انار نہیں کھا یا۔مالک اپنے غلا م مبارک رحمتہ اللہ علیہ کی اس عظیم دیانت داری سے اس قدر متا ثر ہو ئے کہ اپنی بیٹی کا نکا ح ان سے کردیا ۔اسی بیٹی سے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے ، حضرت عبداللہ بن مبار ک رحمتہ اللہ علیہ کو اللہ جل شانہ نے علمائے اسلام میں جو مقام عطا فرمایا ہے وہ محتا ج تعارف نہیں ۔
( مر سلہ : عبدالما جد ۔ کرا چی )
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں