وہ اس ذائقے اور خوشبو کا مقررہ ”نقطہ تشفی“ کہلاتی ہے اور جب تک اس کی تکمیل اور تشفی نہیں ہوتی ہم کھانا کھائے جاتے ہیں۔ ان کی موٹاپے کے بارے میں طویل تحقیق بتاتی ہے کہ موٹے اور فربہ افراد میں معمول کے وزن والے افراد کے مقابلے میں اس نقطے کی سطح زیادہ بلند ہوتی ہے
آپ نے اس کنجوس کی کہانی تو سنی ہوگی جو ایک بھٹیارے کے پڑوس میں رہتا تھا اور جب پڑوس کے گھر سے کسی سالن کی خوشبو آتی تو اس کا تصور کرکے محض خوشبو سونگھ کر روکھی روٹی مزے لے کر کھاتا۔
صرف خوشبو سونگھ کر پیٹ تو شاید کسی بخیل ہی کا بھرسکتاہے‘ لیکن کھانے میں اگر خوشبو نہ ہو تو وہ شوق سے کھایا نہیں جاسکتا۔ سادہ روٹی کی بھی اپنی خوشبو ہوتی ہے اور بڑی اشتہا انگیز ہوتی ہے۔ بشرطیکہ صحیح آگ پر پکی ہوئی ہو۔
مسالوں کے استعمال کا ایک اہم مقصد کھانے پینے کی اشیاءکو خوشبودار بنانا ہوتا ہے۔ ان کا ایک مقصد ذائقے اور خوشبو کی تبدیلی بھی ہوتی ہے۔ مختلف مسالوں کے استعمال ہی سے یہ ممکن ہوتا ہے ورنہ طویل عرصے تک ایک سی سپاٹ غذا کا کھانا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ پیٹ تو کسی طرح بھرجاتا ہے‘ لیکن اچھی غذا سے حاصل ہونے والی طمانیت نہیں ملتی۔
ہماری بڑی بوڑھیاں اس کی اہمیت سے آگاہ تھیں۔ وہ دال بھی پکاتیں تو اس میں مختلف اشیاءکے بھگارے سے خوشبو پیدا کردیتیں۔ ان کی بنائی ہوئی ترکیبیں پشت درپشت آج تک کام آرہی ہیں اور ان کی مدد سے دال آج بھی مختلف انداز میں پک کر لذت بھی دے رہی ہے اور پیٹ بھی بھر رہی ہے۔
ہاں یہ ضروری ہے کہ آپ میں خوشبو کی پرکھ ہو‘ اس کا شوق بھی ہو۔ یہ اگر نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے سونگھنے کی صلاحیت مشکوک ہوگئی ہے اور اگر یہ ہوگئی ہے تو پھر ذائقے کی دولت بھی آپ کے حصے میں بہت کم آئے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ خوشبو سے بھوک بڑھ جاتی ہے؟ منہ میں پانی بھر آتا ہے اور انسان بے چین ہوجاتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ خوشبو اور ذائقے کا دماغ میں واقع مراکز دبائو سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ آپ جب بھی کوئی چیز اپنی زبان پر رکھتے ہیں اس پر واقع ذائقے کی ننھی منی کلیاں یا ابھار اس چیز کا فوری طور پر جائزہ لینے لگتی ہیں کہ اس کا مزہ کیسا ہے‘ کڑوا ہے‘ میٹھا‘ نمکین یا کھٹا ہے۔
16 سال تک موٹاپے میں خوشبو کے کردار کا جائزہ لینے والے ایک طبی ماہر نفسیات ڈاکٹر سوسن شیف مین کے مطابق غذا کے چبانے سے نوالے میں چھپی ہوئی خوشبو نکھرتی ابھرتی ہے اور جب یہ نوالہ چبانے کے بعد حلق میں پہنچتا ہے تو یہاں سے اٹھنے والی خوشبو ناک میں پہنچ کر سونگھنے کی حس کو تیز تر کرنے کے علاوہ غذا کے ذائقے میں بھی اضافہ کردیتی ہے۔
خوشبو‘ نفسیاتی اعتبار سے بھی ہمیں متاثر کرتی ہے۔ خوشبو کے ساتھ بہت سی یادیں بھی تو جڑی ہوتی ہیں۔ بات کھانے اور خوشبو کی ہورہی ہے تو اس حوالے سے بھی آپ کو اپنی ماں‘ دادی یا نانی کے ہاتھ کے پکے ان کھانوں کی خوشبو اور لذت آج تک یاد ہوگی جو آپ نے اپنے بچپن یا لڑکپن میں کھائے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوی کتنے ہی جتن سے ہانڈی سنوار دے‘ شوہر یہی کہتے ملیں گے خوب پکا ہے‘ مگر پھر بھی اماں کے ہاتھ کی بات نہیں۔
ڈاکٹر شیف مین کے مطابق ہر شخص کو اس کی غذا میںکچھ نہ کچھ ذائقے اور خوشبو کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اس ذائقے اور خوشبو کا مقررہ ”نقطہ تشفی“ کہلاتی ہے اور جب تک اس کی تکمیل اور تشفی نہیں ہوتی ہم کھانا کھائے جاتے ہیں۔ ان کی موٹاپے کے بارے میں طویل تحقیق بتاتی ہے کہ موٹے اور فربہ افراد میں معمول کے وزن والے افراد کے مقابلے میں اس نقطے کی سطح زیادہ بلند ہوتی ہے ”یعنی ذائقے اور خوشبو کے اس نقطے یا پوائنٹ تک پہنچنے کیلئے وہ کھاتے چلے جاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موٹے افراد کو مطلوبہ ذائقہ اور خوشبو مل جائے تو وہ کم کھائیں گے؟ اس کا کھوج لگانے کیلئے انہوں نے موٹے افراد سے پوچھا کہ ایک دن میں انہیں کم حراروں کے کتنی قسم کے انتہائی پسندیدہ کھانے درکار ہوں گے؟ ان موٹے افراد میں سے 31 نے ایک دن میں ایک سو قسم کے مختلف کھانوں کی فہرست ان کے حوالے کی۔ اب انہوں نے بہت موٹے افراد کے تین گروپ بنائے جنہیں دو ہفتوں تک ایک ہزار ہراروں کی غذا کھلائی گئی۔
دو ہفتوں کے بعد اس گروپ کے موٹے افراد کے وزن میں 34 سے 41 پونڈ تک کمی ریکارڈ کی گئی جب کہ خوشبو کے بغیر غذا کھانے والے دوسرے گروپ کے وزن میں کمی کا اوسط 47 پونڈ رہا۔ اس میں شک نہیں کہ اسے وزن میں نمایاں کمی نہیں کہاجاسکتا لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ خوشبو کی وجہ سے غذا زیادہ رغبت سے کھائی جاتی ہے۔
اب وزن کم کرنے کے خواہشمند افراد کیا کریں؟ انہیں ڈاکٹر سوسن شیف مین کا مشورہ ہے کہ وہ ہر کھانے پر یکساں خوشبو کی مختلف اشیاءکھائیں‘ مگر ہر کھانے کا صرف ایک ہی نوالہ کھائیں۔ اس طرح ذائقے اور خوشبو کی حس یکساں خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے تھک جائے گی اور کھانا کم کھایا جائے گا۔
اس کے علاوہ غذا کو زیادہ چبائیں‘ اس طرح کھانے کا زیادہ ذائقہ اور خوشبو حاصل ہوگی۔ ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ کھانے اپنی پسندیدہ خوشبو شامل کرکے گرم کریں کیونکہ حرارت سے خوشبو اور بھی تیز ہوجاتی ہے۔ اس طرح زبان کی ذائقے کی کلیاں بہت جلد سیر ہوجائیں گی اور کھانا کم کھایا جائے گا۔
اگر کم حراروں والی بعض گرم اشیاءمثلاً مچھلی یا پھول گوبھی کا ذائقہ اچھا نہ لگے تو انہیں ٹھنڈا کھانا چاہیے۔ ٹھنڈک سے غذائوں کی بوناک تک کم پہنچے گی۔
اسی طرح زیادہ مسالوں والے کھانے بھی کم کھائے جاتے ہیں۔ سادہ پلائو اور گوشت کے مقابلے میں مصالحے دار بریانی‘ شب دیگ اور پسندے وغیرہ کم کھائے جاتے ہیں‘ لیکن مصالحوں سے پیاس زیادہ لگتی ہے‘ اسے صرف حراروں سے خالی سادہ پانی ہی سے بجھانا چاہیے‘ بوتلوں سے نہیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 644
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں