Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

ہمیں وقت کی قدرکا احساس کیوں نہیں؟ (کہکشاں بٹ‘ اسلام آباد)

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2011ء

وقت منٹوں‘ گھنٹوں‘ دنوں‘ مہینوں اور سالوں کی منزلیں طے کرتا ہوا صدیوں اور پھر ہزارئیوں میں تبدیل ہوتا چلا جارہا ہے۔ انتہائی محدود اور مختصر انسانی زندگی بچپن سے لڑکپن‘ لڑکپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کا روپ اختیار کرنے کے بعد موت کی تاریک وادیوں میں گم ہوجاتی ہے وقت مسلسل رواں دواں اور آگے ہی آگے بڑھتی رہنے والی ایک ایسی چیز کا نام ہے جس کی اہمیت اور قدر وقیمت کا موازنہ دنیا کی کسی بھی دوسری چیز سے نہیں کیا جاسکتا۔ گھڑی کی ٹک ٹک میں لمحہ لمحہ دوڑتا ہوا وقت منٹوں‘ گھنٹوں‘ دنوں‘ مہینوں اور سالوں کی منزلیں طے کرتا ہوا صدیوں اور پھر ہزارئیوں میں تبدیل ہوتا چلا جارہا ہے۔ انتہائی محدود اور مختصر انسانی زندگی بچپن سے لڑکپن‘ لڑکپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کا روپ اختیار کرنے کے بعد موت کی تاریک وادیوں میں گم ہوجاتی ہے اس مختصر سی عمر میں مقصد حیات کا تعین کرنے کے بعد کامیابیوں اور کامرانیوں کی منزلیں طے کرنے کیلئے وقت کے ہرلمحے کو کام میں لانا ضروری ہے جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے ناکامیاں اور مایوسیاں ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ قوموں کی ترقی کا راز بھی یہی ہے کہ جو قومیں وقت کی رفتار کا ساتھ دیتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے رہنے کی اہلیت حاصل کرچکی ہیں ان پر کامیابیوں اور ترقیوں کے نت نئے دور آتے ہی چلے جاتے ہیں ترقی یافتہ کہلانے والی ان قوموں کا ہر فرد خوشحال دنیا کی ہر آسائش اور سہولت کا حامل اور مالامال ہوتا ہے جبکہ وقت کی قدروقیمت کا احساس نہ کرتے ہوئے اسے برباد کرنے والی قومیں خود برباد ہوجاتی ہیں ان کا تقریباً ہر فرد بدحال دنیا کی ہر تکلیف اور پریشانی میں مبتلا اور کنگال دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں وقت کی قدروقیمت کا کوئی احساس نہیں۔ سستی‘ کاہلی اور لاپرواہی کے ساتھ ساتھ فضول سرگرمیوں اور بے مقصد مصروفیات میں وقت ضائع کرکے ہم اپنے آپ کو برباد کررہے ہیں لیکن افسوس کہ ہمیں اس بربادی کا بھی کوئی احساس نہیں اس طرح انفرادی حیثیت میں تو ہر شخص اپنی زندگی برباد کرہی رہا ہے لیکن اجتماعی طور پر بھی پوری قوم غربت‘ بھوک اور تنزلی کی بھول بھلیوں میں الجھتی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں وقت کی ناقدری کا یہ عالم ہے کہ یہاں کوئی بھی کام اپنے مقررہ وقت پر شروع نہیں ہوتا اور نہ ہی طے شدہ مدت میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ دئیے ہوئے وقت سے لیٹ پہنچنا فیشن بن چکا ہے جس کی وجہ سے پابندی وقت کا احساس کرنے والے لوگوں کی تعداد بڑی تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں دفاتر میں کام کے آغاز کیلئے نو بجے کا وقت مقرر ہے لیکن دس بجے تک سوائے نچلے درجے کے چند ملازمین کے علاوہ تمام ارکان کی نشستیں خالی ہوتی ہیں جو چند لوگ دفتر میں موجود ہوتے ہیں وہ بڑی بے فکری سے قہقہے لگانے اور خوش گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ کوئی چائے پی رہا ہوتا ہے تو کوئی میز پر ٹانگیں پسارے کرسی پر نیم دراز ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کو کچھ احساس نہیں ہوتا کہ ہم کتنا قیمتی وقت یوں ہی ضائع کررہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح شادی کی تقریب کو ہی لے لیں ہم بارات کی روانگی کا ٹائم 9 بجے رکھتے ہیں لیکن بارات 3 بجے تک بھی گھر سے روانہ نہیں ہوتی۔ اس طرح دلہن اور دولہے کے تقریباً 400 افراد کا قیمتی وقت برباد ہوتا ہے لیکن کسی کو اس بات کا احساس نہیں........! ہم اپنے اردگرد جس بھی شعبے کو دیکھ لیں ہر کوئی اپنے وقت سے لیٹ آ جارہا ہے چاہے وہ بس اسٹیشن ہو‘ ریلوے اسٹیشن ہو یا کوئی اور جگہ.... کسی بھی وقت کی اہمیت کا احساس نہیں رہا۔ ہماری قوم اپنا وقت جس بے دردی سے برباد کررہی ہے یہ تو اس کی فقط چند مثالیں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس سے ملتی جلتی بے شمار مثالیں ہمارے ہر قاری کے ذہن میں بھی موجود ہوں گی۔ ہر روز کروڑوں پاکستانی اس طرح قومی وقت کے اربوں گھنٹے بغیر کچھ کیے برباد کردیتے ہیں۔ کیا ہمیں واقعی وقت کی قدر وقیمت کا کوئی احساس نہیں رہا؟ ہم ہر کام میں تاخیر کے عادی ہوچکے ہیں۔ کسی بھی کام کیلئے گھر سے نکلتے وقت ہم اکثر اصل وقت گزار کر ہی روانہ ہوتے ہیں۔ گھر سے نکلنے کے بعد ہمیں تاخیر کا احساس ہونے لگتاہے اس احساس کے ساتھ ہمارے اندر ایک عجیب و غریب بے چینی اور فکر جاگ اٹھتی ہے اس کے بعد اگر اپنی گاڑی ہو تو انتہائی تیز رفتاری اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کے ذریعے تاخیر کی تلافی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایسی تمام کوششیں اکثر بے کار ہوتی ہیں بلکہ بعض دفعہ تو ان کے نتیجے میں بعض انتہائی بھیانک حادثات بھی وقوع پذیر ہوجاتے ہیں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے کام پر جانے والے پہلے تو کافی دیر تک سٹاپوں پر کھڑے ہوکر اپنی مطلوبہ ٹرانسپورٹ کے انتظار میں خوار ہوتے رہتے ہیں اس کے بعد قدم قدم پر رکتی اورسست روی سے رینگتی ہوئی بس یا ویگن جب انہیں منزل مقصود پر پہنچاتی ہے تو وہ کم از کم ایک گھنٹہ لیٹ ہوچکے ہوتے ہیں۔ ہم نے ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرنے والے تجربہ کار سے پوچھا کہ ان کے نزدیک ہمارے ہر کام میں تاخیر کی بڑی وجہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہم نے وقت کی قدر کرنا ہی چھوڑ دی ہے ہم ہر معاملے میں ”بے فکر رہو ہوجائے گا“ کی پالیسی پر گامزن ہیں ہم ہر کام کو وقت کی آخری حد پر لے جاکر سرانجام دینے کے عادی ہوچکے ہیں چونکہ پوری قوم ہی اس خراب عادت کا شکار ہوچکی ہے اس لیے عام طور پر ہمیں وقت کی بربادی کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کا مسئلہ ہو یا کسی امتحان کیلئے داخلہ فیس ادا کرنی ہو ہم بڑی بے فکری سے آخری تاریخ کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور جب آخری تاریخ آجاتی ہے تو جرمانے یا ڈبل فیس کا خوف ہمیں ایک دم سے ہوشیار کردیتا ہے۔ بینکوں کی کھڑکیوں کے سامنے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر کیشئر کی سستی کا گلہ کرتے ہوئے ہمارے دل میں اس بات کا کوئی ملال نہیں ہوتا کہ اگر ہم نے آخری تاریخ سے کچھ دن پہلے یہ کام کرلیا ہوتا تو اس تکلیف اور خجالت سے بچ سکتے تھے۔ تاخیر کے معاملے میں ہم لوگوں کے روئیے اس قدر مستحکم ہوچکے ہیں کہ ہم دئیے ہوئے وقوت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ تقریبات کیلئے روانہ ہوتے وقت دیا گیا وقت عام طور پر گھر سے ہی گزار کر روانہ ہوا جاتا ہے۔ کم از کم ایک گھنٹے کی تاخیر تو معمول کی بات ہے اس لیے پانچ بجے شروع ہونے والی کسی تقریب کے مہمان چھ بجے سے پہلے تقریب میں پہنچ ہی نہیں پاتے اور جب وہ پہنچ جاتے ہیں تو پھر بھی انہیں تقریب کے آغاز کیلئے کچھ نہ کچھ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم وقت کی پابندی کا شیوہ بنالیں تو قومی ترقی کی راہ میں مائل ہر رکاوٹ کو ختم کرکے سالوں کا سفر مہینوں اور مہینوں کا سفر دنوں میں طے کرسکتے ہیں۔ تقریبات میں مہمانوں کے دیر گئے تک انتظار کی روایت ختم کرکے عین وقت پر تقریب کا آغاز کرکے لوگوں کو وقت کی پابندی پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ قوم کے ہر طبقے میں پھیلی ہوئی اس بہت بڑی خامی کو درست کرنے کیلئے سب سے پہلے حکام اور افسران اپنے آپ کو وقت کا پابند بنائیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 595 reviews.