شیخ کی وجاہت اور بڑی تعداد میں مسترشدین کے حلقہ کے ساتھ مطاف میں صوفی صاحب کو ان سے مناسبت سی ہوئی اور ان کا دل ان کی صحبت کو غنیمت جان کر ان کی مجلس میں بیٹھنے کو چاہنے لگا وہ روزانہ مغرب کے بعد ان کی مجلس میں بیٹھنے لگے‘ صوفی انیس صاحب خود بھی صاحب دل لوگوں میں تھے لوگوں سے تحقیق کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ افغانستان کے ایک نقشبندی سلسلہ کے بڑے شیخ ہیں‘ دو تین روز کے بعد ایک روز مجلس میں بیٹھے صوفی انیس صاحب پر‘ شیخ کی نگاہ پڑی‘ قریب بیٹھے اپنے خواص میں کسی سے انہوں نے پیچھے ہٹ کر صوفی صاحب کو آگے جگہ دینے کیلئے کہا اور صوفی صاحب کو آگے اپنے قریب بلایا۔ صوفی انیس صاحب سے ان کا نام اور پتہ معلوم کیا کہ وہ کس شیخ سے اصلاحی تعلق رکھتے ہیں؟ صوفی صاحب نے بتایا کہ میں حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری سے بیعت تھا اور شیخ نے اپنی حیات میں ہی مجھے تربیت کیلئے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ کے سپرد کردیا تھا اب انہی سے میرا اصلاحی تعلق ہے‘ وہ حضرت مولانا سے خوب متعارف تھے بلکہ حضرت مولانا سے خوب عقیدت کا تعلق رکھتے تھے شیخ نے صوفی صاحب سے فرمائش کی کہ وہ شیخ کا کوئی ملفوظ سنائیں‘ صوفی صاحب فرماتے تھے میں نے عرض کیا کہ ایک بار میں نے اپنے شیخ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ سے سوال کیا کہ حضرت! اپنے شیخ سے استفادہ کی بنیادی کلید کیا ہے؟ حضرت والا نے جواب دیا کہ کسی بھی دینی ذریعہ سے‘ مسجد سے‘ مدرسہ سے‘ کتاب سے‘ قرآن مجید سے‘ حدیث شریف سے‘ استاد سے‘ دینی احکام سے‘ اپنے شیخ سے‘ غرض ہر دینی ذریعہ سے استفادہ کی بنیادی کلید ہے عظمت۔
میں نے عرض کیا کہ سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟ حضرت نے ارشاد فرمایا: استخفاف یعنی ہلکا اور معمولی سمجھنا‘ صوفی صاحب فرماتے تھے کہ افغانی شیخ‘ صوفی صاحب سے حضرت مولانا کا یہ ملفوظ سن کر پھڑک گئے‘ وجد میں آگئے‘ اپنے رفقاءکو بار بار متوجہ کرتے رہے کہ دیکھو عارف کا قول سنو اور ملفوظ دوبارہ صوفی صاحب سے سنانے کی فرمائش کی‘ صوفی صاحب نے دوبارہ سنایا تو بس یہی فرماتے رہے: کیابات فرمائی‘ کیا نسخہ ارشاد فرمایا‘ بلاشبہ دین اور اسباب دین سے استفادہ کی شاہ کلید عظمت ہے مگر ہمارے زمانے میں اس کی بہت کمی ہوگئی ہے‘ خصوصاً دینی مدارس اور دینی مشاغل سے لگے افراد اور طلباءمیں اس کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے‘ عموماً دینی تعلیم کی مشغولی یا دینی کاموں کی توفیق کو نعمت عظمیٰ سمجھنے کے بجائے مجبوری اور ایک طرح سے احساس کمتری کے ساتھ ہم لوگ دین اور اہل دین اور دینی خدمات سے وابستہ رہتے ہیں‘ مگر ایسا لگتا ہے کہ دل ودماغ پر دین اور اہل دین اور ذرائع دین کا استخفاف ہم پر سوار ہے بلکہ بعض دفعہ اس سے بڑھ کر ایک طرح سے اہانت تک بات پہنچ جاتی ہے۔
دینی اعمال کے سلسلہ میں بھی ہمارا یہی معاملہ ہے اور ان کی تعلیم وتربیت اور واجب‘ سنت اور مستحب کی ترغیب کی بات جب زور دے کر کی جاتی ہے تو اکثر جواب ہوتا ہے کہ آپ اتنا کیوں زور دے رہے ہیں‘ سنت ہی تو ہے‘ مستحب ہی تو ہے‘ بلاشبہ یہ دین اسلام بہت آسان دین ہے اور اس میں بڑا توسع اور انسان کیلئے بہت ڈھیل اور گنجائش ہے اور ہمارے فقہاءنے اعمال واحکام کے درجے طے کرکے بڑا احسان کیا ہے۔ سنت اور مستحب اگر چھوٹ جائے تو فقہی لحاظ سے حرام نہیں‘ مگر یہ انداز کہ سنت ہی تو ہے مستحب ہی تو ہے یہ دین اور احکام دین اور ذرائع دین کے استخفاف‘ بلکہ دل میں اس کی اہانت کی نشاندہی کررہا ہے اور اس استخفاف کے ساتھ کسی بھی دینی ذریعہ سے فائدہ اٹھانا محال ہے۔
کاش ہم ایک عارف کامل کے بتائے نسخہ کیمیا کو سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے!!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں