قارئین آپ کو بتاتی چلوں کہ تشویش (ANXIETY) ایک نارمل عمل بھی ہے۔ اگر افراد کو کسی کام کی فکر نہ ہو، یا کسی کام کی تکمیل کے بارے پریشانی نہ ہو تو بے شمار کام ادھورے رہ جائیں۔ تشویش ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے میں، آرام و سکون اور ترقی حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر طلباءکو امتحان دینے، اگلی جماعت میں جانے، زندگی میں کچھ بننے اور صلاحیتوں کو منوانے کا احساس نہ ہو تو وہ کبھی بھی امتحانات اور پڑھائی کے بارے متفکر نہیں ہوں گے۔ ان میں مقابلے کا جذبہ بیدار نہیں ہوگا اور وہ آگے بڑھنے کے لئے زیادہ محنت نہیں کریں گے، امتحانات میں اعلیٰ پوزیشن اور اعلیٰ نمبر حاصل کرنے کے لئے وہ خوب محنت کرتے ہیں۔ وہ نوجوان جو عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں ان کے کئی خواب اور ارادے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے عزائم اور ارادوں کو پورا کرنے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ دن رات محنت کرتے ہیں۔ بہترین پرفارمنس دکھاتے ہیں۔ انہیں سکول کالج، یا دوسرے کاموں اور تقریبات میں وقت پر پہنچنے کی تشویش ہوتی ہے۔ سیاستدانوں کو مقبولیت برقرار رکھنے کی تشویش، مقرروں کو تقریر تیار کرنے کی تشویش، وکیلوں کو کیس کامیابی سے پیش کرنے اور جیتنے کی تشویش، کاروباری حضرات کو اپنا کاروبار بڑھانے اور منافع کمانے کی تشویش، گھریلو خواتین کو گھر سنوارنے، بچوں کی تعلیم و تربیت اور شوہر کو آرام مہیا کرنے کی تشویش، والدین کو بچوں کی صحت، تعلیم اور مستقبل کی تشویش، لڑکے اور لڑکیوں کو جاذب نظر دلکش نظر آنے کی تشویش، کھلاڑیوں کو نہ صرف اچھا کھیل کھیلنے بلکہ جیتنے کی تشویش انہیں زیادہ سے زیادہ پریکٹس، تکنیک اور قوت کے ساتھ کھیل دکھانے کے لئے تیار کرتی ہے۔
قارئین !یہ بات یاد رکھیں کہ اگرتشویش نارمل سطح سے بڑھ جائے یا تشویش میں حقیقت پسندی اور عمل نہ رہے تو تشویش ذہنی مرض میں تبدیل ہوجاتی ہے اور فرد کا ذہنی سکون تباہ کردیتی ہے پھر اس کی ذہنی اور جسمانی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ وہ کسی کام کی طرف متوجہ نہیں ہوپاتا اور عملی طور پر بھی کسی کام کو صحیح طور پر نہیں کرپاتا۔ ایسے فرد کی سوچ اور عمل میں مطابقت نہیں ہوتی، وہ سوچتا تو بہت کچھ ہے، اور سوچ میں کامیابی، خوشیاں، سب کچھ حاصل کرلیتا ہے مگر جب اسے حقیقت کا سامنا ہوتا ہے تو یہ صورت حال اس کے لئے بہت تلخ ہوتی ہے۔ وہ خود کو دوسروں سے بہت پیچھے پاتا ہے۔ مقابلے کی دوڑ میں بھی شامل نہیں ہوپاتا جبکہ اس کے ہم عمر اور ہم عصر بہت آگے جاچکے ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال اسے نفسیاتی تشویش کی طرف لے جاتی ہے۔ اسے مسائل پر قابو پانے کے لئے کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ جس قدر اپنی خواہشات اور مسائل کے بارے سوچتا ہے۔ اس کی تشویش میں اضافہ ہوجاتا ہے، کیونکہ اس ساری صورت حال میں عمل کہیں بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی بامقصد کوشش، اس طرح ان کی روزمرہ زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے کیونکہ اضطراب اور تشویش کی صورت حال صلاحیتوں کو بے پناہ نقصان پہنچاتی ہے۔
قارئین !آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ جب بھی اعصابی امراض، امراض قلب، فشار خون میں مبتلا افراد ڈاکٹرز کے پاس جاتے ہیں تو وہ دوائی دینے سے پہلے ایسے مریضوں کو تاکید کرتے ہیں کہ آپ پریشان ہونا چھوڑدیں، مت سوچیں، اچھی طرح نیند لیں۔ خود کو پرسکون رکھیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ تقریباً تمام طبی امراض کی وجہ فرد کی ذہنی پریشانیاں، تشویش اور اضطراب ہے۔ یہی کمی جسمانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتی ہوں کہ بعض افراد بغیر کسی ظاہری اور حقیقی پریشانی کے کسی تشویش میں مبتلا رہتے ہیں جوکہ حقیقت میں موجود ہی نہیں ہوتی۔ مثلاً کہیں ان کے بیوی بچے بیمار نہ ہوجائیں جوکہ بالکل صحت مند ہیں یا شاید ان کا ایکسیڈنٹ نہ ہوجائے یا ایسے حادثے کے بارے میں سوچتے ہیں جو رونما نہیں ہوا۔ ایسے افراد اکثر گھریلو معاملات اور دفتری معاملات کے بارے میں پریشان رہتے ہیں۔ اسے ہوائی پریشانی بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس کا کوئی وجود نہ ہو۔ ایسے افراد خواہ مخواہ پریشانیوں کا تذکرہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں، ایسا کرنے سے انہیں توجہ ملتی ہے۔ ہمدردی حاصل ہوتی ہے۔ انہیں موجودہ وقت اور زندگی سے لطف اندوز ہونا نہیں آتا۔ ہر وقت مستقبل کے بارے میں پریشان رہتے ہیں۔ ان کی تشویش کا مرکز ایسی اشیاءہوتی ہیں جن کو وہ حاصل نہیں کرسکتے۔ اگر انہیں حقیقت پسندی کا کہا جائے تو برا مناتے ہیں۔تشویش کے جسمانی اسباب بھی ہوتے ہیں۔ صحت کا خیال کرنا بہت ضروری ہے۔ حفظان صحت کے اصولوں پر کاربند رہنا چاہئے۔ لباس صاف ستھرا اور جاذب نظر، موسم کے مطابق ہونا چاہئے۔ خصوصاً رنگوں کے استعمال میں بہت احتیاط کرنی چاہئے۔ دن کے وقت ہلکے رنگوں اور شام کے بعد گہرے رنگ شخصیت پر اچھا تاثر چھوڑتے ہیں چونکہ ہمارے موسم بہت شدید ہیں خصوصاً موسم گرما۔ لہٰذا آپ کے جسم اور منہ سے بدبو نہیں آنی چاہئے اور آپ کو معلوم ہے کہ آدھی صحت کا راز سادہ خوراک کھانے اور اعتدال پسند زندگی گزارنے میں ہے۔ جو لوگ اعتدال کو چھوڑ دیتے ہیں وہ پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں۔
قارئین! آپ درج ذیل سوالوں کے جواب صاف گوئی اور ایمانداری سے لکھیں تو آپ کی تشویش کا درجہ معلوم ہوگا۔
.1کیا آپ ناخن چباتے ہیں؟
.2کیا آپ اکثر غمگین رہتے ہیں؟
.3کیا آپ کے ہاتھوں پر بہت پسینہ آتا ہے؟
.4کیا آپ اپنی بدمزاجی کے بارے آگاہ ہیں؟
.5کیا آپ کو ڈراﺅنے خواب آتے ہیں؟
.6کیا آپ بند کمرے میں گھبراتے ہیں؟
.7کیا آپ بجلی کی چمک اور کڑک سے ڈر جاتے ہیں؟
.8کیا آپ جلد تھک جاتے ہیں؟
.9کیا آپ کا کھانے پینے کو دل نہیں چاہتا؟
.10کیا آپ دوسرے افراد کی موجودگی میں گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں؟
.11کیا آپ کو جلد رونا آجاتا ہے؟
.12کیا آپ اکثر سر درد محسوس کرتے ہیں؟
.13کیا آپ کو نیند مشکل سے آتی ہے؟
.14کیا آپ بہت زیادہ سوتے ہیں؟
.15کیا آپ رشتہ داروں اور عزیزوں کو ناپسند کرتے ہیں؟
.16کیا آپ کے لئے فیصلہ سازی مشکل ہے؟
.17کیا آپ اپنے متعلق ریمارکس سن کر ناراض ہوجاتے ہیں؟
.18کیا آپ تنقید برداشت نہیں کرپاتے؟
.20کیا آپ کو سماجی تقریبات میں گھبراہٹ ہوتی ہے؟
قارئین ان سب سوالوں کے جواب ایمانداری سے لکھنے کے بعد کوشش کریں کہ اپنے اندر مثبت تبدیلی لائیں، اپنی خوراک اور آرام کا خاص خیال رکھیں۔ دوسرے افراد کے ساتھ میل جول بڑھائیں۔ اپنے مزاج میں نرمی اور شگفتگی لائیں۔ اپنی جذباتی زندگی کی اصلاح کریں ورنہ آپ اپنے روزمرہ کے کاموں کو بطریق احسن سرانجام نہیں دے سکتے۔ مگر معمولی کوشش اور دلچسپی آپ کی ذات کو مثبت بناسکتی ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 885
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں