نزاع کی آخری ہچکی شاید تمام زندگی کا عکس ہوتی ہے کچھ لوگ بستر پر ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جا ن آفریں اللہ کے سپرد کرتے ہیں اورکچھ کی موت اس طرح سے آتی ہے کہ شاید تعمیر زندگی کی تکلیفیں تک بھی دور ہوجاتی ہیں اور بندہ آخری وقت بھی انوارات الٰہی سے مستفید ہوتا ہے اور بعداز موت بھی اس کے چہرے پر ایک خاص مسکراہٹ موجود رہتی ہے جو کہ دیکھنے والوں کیلئے باعث اشتیاق ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کی بھی ترجمانی کیلئے کافی ہوتی ہے۔ اکابر کی زندگیوں کے واقعات ہمارے سامنے ہیں مگر اس گئے گزرے وقت میں بھی اگر اس طرح کا کوئی واقعہ ظہور پذیر ہوجائے تو ہم جیسوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔
ہمارے شہر کے ایک مشہور دینی گھرانے کی خاتون کا انتقال اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان کی موت اس بات کا جیتا جاگتا اور کھلا ثبوت ہے کہ اللہ والوں کو موت بھی اس طرح سے نصیب ہوتی ہے کہ موت خود بھی ان پاکیزہ ہستیوں پر رشک کرتی ہے‘ وہ ایک نہایت پاکباز‘ پارسا‘ شیریں سخن خاتون تھیں۔ صبح صادق کے وقت اٹھنا ان کا معمول اور اس کے بعد تسبیحات سے فارغ ہوکر گھر کے کام کاج میں مشغول رہنا ان کا شیوہ اور اس دوران زبان کو ذکر اذکار سے تر رکھنا ان کی روٹین تھی۔ عام عورتوں کی طرح فیشن اور چغلیوں میں وقت ضائع کرنے سے خود کو بچا کر رکھنا اور اگر کسی نے کوئی بات کربھی دی تو صبر کرنا اور دوسروں کو صبر کی تلقین کرتے رہنا ان کا سب سے بڑ ا وصف تھا ان کا سب سے بڑا بیٹادنیا سے اس وقت رخصت ہوا جب اس کے سہرے سجانے کی عمر تھی‘ جب انہیں بہو لانے کی تمنا تھی اور پوتے پوتیوں سے کھیلنے کی خواہش دل ناداں میں کروٹیں بدل رہی تھی مگر عین عہد شباب میں ایک جواں سال بیٹا دنیا سے رخصت ہوجانا شاید ایک ماں ہی ایک ماںکے اس دکھ کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتی ہے۔
انہوں نے اس قدر جواں سال بیٹے کی موت پر خود کو ناصرف بکھرنے سے بچایا بلکہ خود کو مصروف رکھنے کیلئے تسبیحات اور وظائف کے ساتھ ساتھ دوسرے رفاعی کاموں میں بھی دلچسپی لینا شروع کردی۔ ابھی عمر رواں کے چند سال ہی گزرے تھے کہ زندگی کے سفر کا ہمسفر بھی چل بسا اس کے بعد تو انہوں نے اپنے رب سے لو لگالی اور ہر وقت تڑپ تڑپ کر یہ دعائیں کرتیں کہ اے اللہ مجھے لمبی عمر بیوگی سے بچانا اور اے اللہ! جب میں مرجاوں تو میرا جنازہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرح اٹھانا کہ کسی کو یہ تک نہ پتہ چل سکے کہ یہ کس کا جنازہ ہے‘ پردے کا خاص خیال ہو‘ اے اللہ جب مجھے موت آئے تو میرے عزیز رشتہ دار میرے پاس ہوں تاکہ میرے جنازہ میں دیر نہ ہو اور مجھے جلدی دفنایا جاسکے اور اے اللہ! میرے مرنے کے بعد جو بھی اکرام ہو غریبوں کا ہو‘ جو بھی طعام ہو وہ غریبوںکا ہو‘ زیادہ سے زیادہ کھانا غریبوںکے منہ کا نوالہ بنے اور بے شک اللہ بھی کس قدر رحیم‘ کریم اور حلیم ہے کہ وہ اپنے بندوں پر واقعی اس قدر مہربان ہے کہ وہ عام ماوں سے ستر گنا بڑھ کر اپنے پیاروں سے پیار کرتا ہے اللہ کی شان کریمی پر قربان جاوں جب رب نے انہیں اپنے پاس بلایا بھی تو وہ اپنے آخری فرض کی ادائیگی سے تقریباً فارغ ہوچکیں تھیں‘ جی ہاں اس دن ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کی دعوت ولیمہ تھی‘ صبح صادق کے وقت اس پاکیزہ ہستی نے اپنے تمام بیٹوں‘ بیٹیوں‘ بہووں اور رشتہ داروں کے درمیان اپنی جان آفریں اپنے پالنہار کے سپرد کردی اور اس وقت ان کی بیوگی کو صرف چار سال ہی گزرے تھے ‘وہی کھانا جو دعوت ولیمہ کا تھا دو دن تک مدرسوں میں مسافر طلباءکے منہ کا نوالہ بنتا رہا۔ ان کے انتقال کے دن اس قدر زور کی بارش ہوئی کہ الامان اور ان کی دعا کے مطابق ان کی میت کو گاڑی میں رکھ کر جنازے کیلئے لے جایا گیا کہ راہ چلتے لوگوں کو یہاں تک نہ پتہ چل سکا کہ یہ عورت کا جنازہ ہے یا مرد کا اور جنازہ کی جلدی کا یہ عالم کہ تمام رشتہ دار تو پہلے ہی موجود تھے کسی کے آنے کا انتظار تو تھا نہیں اس لیے فوری جنازہ ادا کرلینے کے بعد انہیں سپرد الٰہی کردیا گیا۔
ان کے چہرے پر تبسم ا ور چہرہ پر نور روزروشن کی طرح عیاں تھا‘ ان کی ہنستی ہوئی آنکھیں‘ یہ تمام احوال ہمیں ان تمام باتوں کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آخر وہ کیا اعمال تھے جن کی بدولت انہیں اس قدر خوبصورت موت کا بلاوا آیا؟ سوچئے؟ اور اس مبارک ماہ میں کچھ دیر گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنا محاسبہ کیجئے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 666
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں