1985ءکی بات ہے کہ میں ان دنوں الریاض سعودیہ عرب میں رہتا تھا کہ ایک دن بعد نماز عشاءمیرا ایک دوست میرے پاس آگیا کہ میں نے جن لوگوں کے ہاں اپنی بچی کا نکاح کیا ہوا ہے ان کی بڑی بہو کو دورے پڑتے ہیں اور ڈیڑھ ماہ ہوا ہے نکاح کو اور مہینہ ہوا ہے یہاں پر آئی کو اور جب سے یہاں پر آئی ہے ایسے ہی بیہوشی کے دورے پڑرہے ہیں اور آج بھی صبح سے بیہوش ہے۔ آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ میں نے جانے سے انکار کردیا کہ یہاں سعودیہ عرب میں ہر قسم کے علاج اور تعویذات اور دم جھاڑے پر سوائے ایک دو عالم دین کے سخت پابندی ہے ۔ تعویذات وہ بھی نہیں دیتے۔ لہٰذا میں معذرت چاہتا ہوں ۔ اس نے ایک اور دوست کے ذریعے سفارش کرائی کہ ہماری بچی کا ادھر نکاح ہوا ہے۔ خطرے والی بات نہیں ہے۔ مجبوراً مجھے ان کیساتھ جانا پڑا۔ جاکر میں نے دیکھا کہ واقعی مریضہ بیہوش پڑی تھی میں نے منزل کے نام سے مشہور آیات پڑھ کر پانی پر دم کیا مریضہ پر چھینٹے مارے مریضہ ہوش میں آگئی۔
تفصیلی گفتگو کے بعد میں نے مزید پانی دم کرکے پینے کے لیے دیا اور کچھ آیات قرآنیہ لکھ کر گلے میں ڈالنے کے لیے دے دیں اور مریضہ کو اس کے خاوند اور دیگر سب گھر والوں کو نماز ذکر اور قرآن کے پڑھنے کی تلقین کی جس پر سب گھر والوں نے پابندی شروع کردی اور مریضہ دو ڈھائی ماہ میں اللہ کے فضل وکرم سے مکمل صحتمند اور آسیبی اثرات سے محفوظ ہوگئی۔ اس کے چند ماہ بعد میرے اسی دوست جن کی بچی کا نکاح ہوا تھا۔ ان کو معلوم ہواکہ یہ لوگ یعنی لڑکے والے کردار کے ٹھیک نہیں ہیں۔ ان کی عورتیں اپنے کفیل جو عربی تھے کے ساتھ اکیلی پندرہ پندرہ اور مہینہ مہینہ بھر کیلئے ایک شہر سے دوسرے شہر طائف، مکہ، تبوک وغیرہ آتی جاتی رہتی ہیں اور مرد حضرات گھر میں ہی رہتے ہیں۔
میرے دوست کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے لڑکے کے والدین سے اسی سلسلے میں گفتگو کرنے کے بعد طلاق کا مطالبہ کردیا کیونکہ ان کی بچی کی ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ لڑکے اور اس کے والدین نے طلاق دینے سے انکار کردیا۔ دوست نے آخر عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے لڑکے کے وارنٹ جاری کردیئے تو لڑکا اور اس کے گھر والے میرے پاس آئے آپ ہماری صلح کروادیںمیں نے کہا میں دوست سے بات کرتا ہوں ان کا موقف جاننے کے بعد ہی میں آپ لوگوں سے بات کروںگاکہ صلح ہوسکتی ہے کہ نہیں؟
میں نے اپنے دوست سے اس سلسلہ میں بات کی تو دوست نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان لوگوں کا کردار اچھا نہیں ہے اور مجھے اس بات کے ثبوت بھی مل گئے ہیں۔ اس لیے میں ایسے لوگوں میں اپنی بچی ہرگز بیاہ نہیں سکتا۔میں نے لڑکے والوں کو دوست کے ارادہ سے آگاہ کردیا۔ مگر لڑکے والے میری منت کرنے لگے ہم ان کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہیں۔لڑکے نے کہا کہ میں زہر کھالوں گا مر جاﺅں گا میں طلاق ہرگز نہیں دوں گا۔ قاضی عدالت میں بھی مجھے طلاق کے لیے کہے گا تو نہیں دوں گا۔ چاہے مجھے قاضی سزا بھی سنا دے۔ لڑکے کے والدین اور بہنوئی مال دار تھے۔ انہوں نے مجھے لالچ دی کہ اگر آپ ہماری کسی طرح صلح کروادیں تو ہم آپ کو سونے کے تاج سونے‘ چاندی اور ہیروں کے وزن کے ساتھ آپ کو تول دیں گے وغیرہ وغیرہ مگر میں نے انہیں صاف صاف کہہ دیا کہ آپ مجھے سونے چاندی اور ہیروں کا لالچ نہ دیں میں لالچی انسان نہیں ہوں اور نہ ہی میں اپنی وفاداری غداری میں بدل سکتا ہوں۔
بس اس بات سے وہ مجھ سے ناراض ہوکر چلے گئے اور جاکر میرے خلاف شرطہ خانہ (تھانے) میں رپٹ لکھوادی کہ میں یہاں سعودیہ میں جادو ٹونہ کرتا ہوں اور جو میں نے ان کی مریضہ کو گلے کے لیے تعویذ وغیرہ دیا ہوا تھا ثبوت کے لیے انہوں نے تھانے پیش کردیا۔ پولیس مجھے پکڑ کر لے گئی اورمجھے تھانے میں بند کردیا اور تفتیش شروع کردی۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ جادو ٹونہ کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میںاسے حرام سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد میرے گھر چھاپا مارا کہ شاید کوئی تعویذات کی کتاب وغیرہ مل جائے کوئی کتاب یا نقش تو نہ ملا۔ البتہ میرے رومیٹ کے سامان سے ایک دیسی دوائی اور ایک پتھر اور کچھ داڑھی کے بال تھے وہ انہوں نے اٹھالیے اور وہ بھی جادو کے سامان میں شامل کرکے مجھے جیل بھیج دیا گیا۔ جیل پہنچا تو لوگوں سے معلوم ہوا کہ اس چیز کی یہاں پر سخت ممانعت اور سزا ہے اگر کسی سے کوئی نقش یا تعویذ وغیرہ مل جائے تو اسکی سزادو اڑھائی سال قید بمع کوڑوں ہے اور کوڑے بھی ڈیڑھ دو سو سے لے کر آٹھ سو ہزار تک ہوسکتے ہیںحتیٰ کہ اگر کسی کی جیب سے کوئی الگ آیت کا ٹکڑا لکھا ہوا بھی برآمد ہوجائے جیسے بسم اللہ شریف یا آیت الکرسی، سورة فاتحہ وغیرہ یا کسی اور آیت کا ٹکڑا بھی مل جائے تو اس کی بھی معافی نہیں ہے۔ وہ بھی (شعوزہ) جادو ٹونہ کے زمرے میں لیتے ہیں اور اسکی بھی سزا سال سے کم نہیں ہوتی اور پھر کوڑوں کی سزا کے ساتھ ملک بدری بھی کرتے ہیںجیل پہنچا تو معلوم ہوا کہ میرے سے ہفتہ پہلے ایک شخص سوریا یعنی سوریا کا رہنے والا تھا۔ اس کو جادوٹونہ کی سزا میں پھانسی دی گئی تھی (رائل فیملی کے شیخ کو اس کے ساتھ کوئی ذاتی رنجش تھی۔ انہوں نے اس کے گھر کسی طریقے سے تعویذات کی کتابیں چھپاکر اسے پھنسادیا تھا جس کی بنا پر اس صوری کو پھانسی ملی) اور اسی کمرے میں مجھے بھی رکھا گیا جس کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا کہ نہ معلوم میری سزا کیا ہو؟ ان اڑھائی ماہ کے دوران میرے کیس والے 35 آدمی اور جیل میں آگئے۔ کسی کے پاس سے آیت الکرسی ملی تھی اور کسی کے پاس سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کا کاغذ ملا تھا خیر اللہ اللہ کرکے تین ماہ کے بعد عدالت میں میری پیشی ہوئی۔ قاضی نے بیان لیا۔ میں نے بیان دیا کہ میں جادوٹونہ کو حرام سمجھتا ہوں اور نہ ہی میں کرتا ہوں، یہ ثبوت سب غلط ہیںمگر قاضی نے کہا کہ آپ کے خلاف ثبوت مضبوط ہیں اس لیے اگلی پیشی پر سزا سنائی جائے گی۔ یہ سن کر مجھے اور زیادہ پریشانی‘ ڈر‘ خوف لگ گیا کہ نجانے کیا سزا ہو۔ آخر ایک دن مجھے اپنے شیخ کا قول یاد آیا کہ ہر قسم کی پریشانی اور مصیبت کے دفع کے لیے اول و آخر درود شریف 100+100 بار اور درمیان میں دعائے یونس علیہ السلام لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ سُبحَانَکَ اِنِّی کُنتُ مِنَ الظَّالِمِینَ 500 بار پڑھی جائے اور اس کے ساتھ حَسبُنَا اللّٰہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ 500 بار پڑھا جائے تو اللہ کریم پریشانیوں اور مصائب سے نجات عطا فرمادیتے ہیں اور شاہ ولی اللہ کی قول الجمیل میں لکھی ہوئی صلوٰة الحاجت نماز یاد آئی کہ ہر قسم کی حاجات مشکلہ کی آسانی کے لیے چار رکعت نماز اس طرح پڑھی جائے کہ
پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ سُبحَانَکَ اِنِّی کُنتُ مِنَ الظَّالِمِینَ 100 بار
دوسری رکعت میں سورة فاتحہ کے بعد رَبِّ اِنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّوَ اَنتَ اَرحَمُ الرَّاحِمِینَ 100 بار
تیسری رکعت میں سورة فاتحہ کے بعد وَاُفَوِّضُ اَمرِی اِلٰی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ بَصِیر م بِالعِبَاد 100 بار
چوتھی رکعت میں سورة فاتحہ کے بعد حَسبُنَا اللّٰہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ 100 بار پڑھے پھر سلام پھیر کر رَبِّ اِنِّی مَغلُوب فَانتَصِر 100 بار پڑھ کر دفع مشکلات ‘تکمیل ارادہ کیلئے دل سے دعا مانگی جائے۔
میں نے یہ نماز حاجت تہجد کی نماز کے وقت پابندی سے پڑھنا شروع کردی اور اپنے شیخ حضرت العلامہ اللہ یار خان رحمتہ اللہ علیہ کا وظیفہ آیت کریمہ کے ساتھ حسبنا اللہ کا عصر کے وقت پڑھنا پابندی سے شروع کردیا اور تہجد میں صلوٰة حاجت پڑھ کر پابندی سے یہ دعا کرتا کہ یا اللہ مجھے اس جیل سے باعزت بری فرما دے۔ یااللہ مجھے کوڑوں کی سزا سے بچا کیونکہ میرے سامنے 35 آدمی تعویذ یا نقش ملنے کی وجہ سے جیل میں آئے ان سب کو سزا کے حکم ہوچکے تھے اور کوڑوں کی بھی سزا کا حکم ہوچکا تھا ۔ ان حضرات کو دیکھ کر مجھے خوف تھا کہ کہیں مجھے بھی ایسی سزا نہ ملے۔ اس لیے نماز حاجت کے بعد میں صرف یہی دعا کیا کرتا تھا کہ ایک دن اچانک فجر کی نماز کے بعد مجھے بلوالیا گیا۔ مجھے گاڑی میں بٹھاکر شرطہ خانہ (تھانے) میں لے جاکر بٹھادیاگیا اور کہا گیا کہ اپنے کفیل کو فون کرو کہ وہ آپ کو ضمانت دے کر لے جائے میری خوشی کی انتہا نہ رہی مگر میں کفیل کا فون نمبر بھول چکا تھا بالکل یاد نہیں آرہا تھا۔ سارا دن نمبر یاد کرنے میں گزر گیا مگر نمبر یاد نہ آیا۔ رات کو ایک پولیس آفیسر نے آکر کہا کہ اگر دو دن کے اندر اندر کفیل آکر آپ کو لے گیا تو ٹھیک ہے ورنہ پھر جیل بھیج دیا جائے گا۔ میں پھر پریشان ہوگیا کہ پھر تہجد کو نماز حاجت کے بعد دعا کی۔ دن کے وقت ایک شخص انور نام کا ملاقات کے لیے آگیا۔ شرطے نے ملاقات کروائی۔ انور نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا نام ہی عبدالرحمن ہے۔ میں نے کہا ہاں میرا نام ہی عبدالرحمن ہے۔ اس نے کہا کہ میں آپ کی ضمانت دینے کے لیے آیا ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ کون ہیں آپ کو کس نے بھیجا ہے حالانکہ میں نے ابھی تک کسی کو بھی نہیں کہا اور نہ ہی میں آپ کو جانتا ہوں، اس نے کہا کہ آپ اس بات کو چھوڑدیں۔ بس آپ میرے ساتھ آفیسر کے کمرے میں چلیں۔ شرطے نے دروازہ کھولا۔ میں ان کے ساتھ آفیسر کے کمرے میں چلا گیا۔ وہاں انور صاحب نے میری ضمانت دے کر مجھے رہا کرادیا اور باہر آکر مجھے ایک سو ریال دے کر کہا کہ اب آپ اپنے گھر جاسکتے ہیں۔ میں ٹیکسی میں بیٹھ کر سیدھا دوست کے گھر پہنچا، وہ اور ان کے رومیٹ اچانک دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آپ کیسے چھوٹ گئے آپ کا کیس چھوٹنے والا نہیں تھا۔ میں نے کہا کہ اللہ کریم نے صلوٰة حاجت کی برکت سے کرم فرماتے ہوئے غیب سے قید کی رہائی کا سامان پیدا فرمادیا جس کی وجہ سے میں آج آپ حضرات میں باعزت بری ہوکر واپس آگیا ہوں اور پھر فوراً سجدہ شکر ادا کیا کہ اللہ تونے میری دعا قبول فرماکر احسان عظیم فرمایا کہ بغیر سزا اور ملک بدری کے باعزت رہائی نصیب فرمائی اور یہ کلمات طیبات اور نماز حاجت کی برکت سے ہوا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں