موسم گرما میں آفتاب سر پر چمکتا ہے تو اس کی گرم گرم شعائیں عموداً نیچے آتی اور زمین سے ٹکرا کر صدائے بازگشت کی طرح واپس چلی جاتی ہیں۔ اس سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایسے حالات میں جانور‘ چرند‘ پرند اور انسان بے چین ہوکر سائے کی تلاش اور ٹھنڈی ہوا کی جستجو میں سرگرداں ہوجاتے ہیں۔ پرندے درختوں کی شاخوں میں منہ کھولے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہوا میں کوئی پرندہ اڑتا ہوا نظر نہیں آتا اور بازار سنسان ہوجاتے ہیں۔
جون اور جولائی کے مہینہ میں یہی کیفیت رہتی ہے کہ یکایک آسمان پر ایک طرف سے بادلوں کا سیاہ غول آتا دکھائی دیتا ہے تو فطرت خوشی سے جھومنے لگتی ہے ہر ذی روح‘ چرند‘ پرند‘ حیوان اور انسان انتہائی خوشی سے زبان سے یہ الفاظ بلند کرتا ہے:
کون کہتا ہے ابر آیا ہے
یہ تو رحمت حق کا سایہ ہے
آسمان بادلوں کی سیاہ گھٹاوں سے ابرآلود ہوگیا گرمی کی شدت میں کمی آئی اور آسمان سے چند قطرات زمین کی طرف لپکے اور تھوڑی دیر بعد موسلادھار بارش ہونے لگی، گلی کوچوں میں پانی بھر گیا۔ درختوں پر پرندے چہچہانے لگے اور ہرذی روح نے سکھ کا سانس لیا۔ ہوا میں نمی کی زیادتی ہوکر موسم خوشگوار ہوگیا۔
جولائی اور اگست کے مہینوں میں بادل آتے اور بارش برساتے رہتے ہیں۔ اس موسم کو برسات کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس موسم میں آب و ہوا مرطوب ہوتی ہے۔ بارشوں کی کثرت کی وجہ سے گلی کوچوں اور نالوں میں پانی بھرجاتا ہے۔ مچھر‘ حشرات الارض اور مختلف بوٹیوں کی افزائش کیلئے حالات سازگار ہوجاتے ہیں۔ مچھر‘ مکھی‘ عروسک یعنی بیربہوٹی کی افزائش میں اس موسم میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ پانی کے گندا اور جراثیم آلود ہونے کی وجہ سے ملیریا‘ ہیضہ‘ بخار‘ پیچش‘ قے اور اسہال کی تکالیف جنم لیتی ہیں۔ اس لیے ان امراض و آلام سے محفوظ رہنے کیلئے حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ ان امراض سے محفوظ رہنے کیلئے پانی کو ابال کر پینا چاہیے۔ نیز کھانا ڈھانپ کر گردوغبار سے محفوظ اور مکھی کی پہنچ سے دور رکھنا چاہیے۔ اگر باورچی خانہ اور کمروں میں مچھر اور مکھی سے بچاو کیلئے جالی دار دروازے استعمال کیے جائیں یا ڈی ڈی ٹی کی طرز پر حشرات الارض کو ختم کرنے والے سپرے کیے جائیں تویہ حفاظت کے سلسلے میںمفید اقدام ہے۔ روزانہ دن میں دو تین دفعہ غسل کرنا چاہیے اس سے جلد اور جسمانی صحت تندرست رہتی ہے۔ لہٰذااس عمل سے جلد کے امراض میں مبتلا ہونے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔
برسات کا موسم کھانے کے معاملات میں خصوصی احتیاط کا محتاج ہے کیونکہ اس موسم میں اکثر اشیاءاور کھانے جن کو اگر احتیاط سے نہ رکھا جائے تو جراثیم آلود ہوجاتے ہیں اس لیے کھانا تیاری کے مراحل سے کھانے کے اوقات تک جراثیم اور کیڑے مکوڑوں کی پہنچ سے دور ہونا چاہیے اس موسم میں اکثر پانی میں پیچش کے جراثیم ملے رہتے ہیں جبکہ مکھیاں ہیضہ اور حمیٰ تیغودیہ کے جراثیم کھانے پینے کی اشیاءپر منتقل کرتی رہتی ہیں۔ لہٰذا یہ احتیاط رکھنی چاہیے کہ کھانے پر مکھی نہ بیٹھنے پائے اور ناقص پانی سے تپ محرقہ‘ اسہال پیچش اور ہیضہ کے امراض لاحق ہوتے ہیں اس لیے موسم برسات میں پانی کو ابال کر پیا جائے۔ پانی میں نمک اور لیموںکا رس ملا کر سکنجبین پینا بھی بہت فائدہ مند ہے۔ لیموںکے رس سے پانی میں موجود جراثیم ختم ہوجاتے ہیں جبکہ جسم میں موجود ہیضہ اور پیچش وغیرہ کے جراثیم کیلئے بھی یہ قاتل ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ہر موسم کو اس کے عوارضات سے محفوظ رکھنے کیلئے بیش قیمت نباتات سے انسان کو نوازا ہے۔ اس موسم میں لیموں‘ جامن اور نیم کی بہتات اس بات کی شاہد ہے کہ ان کا اعتدال سے استعمال صحت کیلئے بہت ضروری ہے۔
جامن کے استعمال سے خون میں بڑھتی ہوئی حدت اور جوش‘ صفراءکی زیادتی‘ بدہضمی‘ قے، اسہال اور پیشاب کی زیادتی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ موسم کا یہ بہترین اور پرمنفعت پھل‘ ذیابیطس جیسے ہٹیلے اور جان لیوا مرض میں بھی نافع ہے۔ موسم برسات کے اکثر عوارضات مثلاً ہیضہ‘ تپ محرقہ، قے اور اسہال میں بھی اس کو مفید تسلیم کیا گیا ہے۔ موسم برسات میں ہوا کے بند ہونے سے جو گھٹن پیدا ہوتی ہے اس کی وجہ سے جلد پر گرمی دانے نمودار ہوتے ہیں جن کی تیزی اور حدت کو کم کرنے کیلئے جامن کا استعمال بہت فائدہ مند ہے۔
اطباءحضرات نے جامن میں بہت سے فوائد کا صحیح قیاس کرکے اس سے سرکہ تیار کیا ہے جو برسات میں اپنی دافع عفونت خصوصیات کی بنا پر متعدی امراض میں استعمال ہوتاہے خصوصی طور پر معدہ‘ امعاءاور مثانہ کے امراض میں اپنے مخصوص اثرات ظاہر کیے بغیر نہیں رہتا۔ اطباءحضرات کے مجربات اور مشاہدات کے مطابق موسم برسات میں ہفتہ بھر میں ایک دفعہ 5 سے 10 ملی لیٹر کی مقدار میں اسے استعمال کرنا معدہ اور امعاءکو امراض سے بچائے رکھتا ہے۔
برسات کا پھل نیمولی (نیم کا پھل) بھی اس موسم کے عوارضات کو کم کرنے کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔خصوصی طور پر اس موسم میں نمودار ہونے والی چھوٹی چھوٹی ثبورات (پھنسیاں) اور گرمی دانوں کیلئے تو اس کا جواب نہیں۔ بعض محققین کی آراءکے مطابق جس گھر میں نیم کا درخت ہو اس کے اہل خانہ میں پھوڑے پھنسیاں بہت کم نکلتے ہیں۔ اس کی وجہ اس پھل کی مصفی خون تاثیر ہے۔ پیٹ کے کیڑے بھی اس سے ہلاک ہوجاتے ہیں کیونکہ نیم کے پھل کی قاتل کرم شکم خاصیت مسلم ہے اور بخاروں میں بھی فائدہ مند ہے۔
علاوہ ازیں موسم مرطوب ہونے کی وجہ سے ثقیل دیر ہضم نفاخ اور بکثرت رطوبات رکھنے والی غذاوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ انڈا اور مچھلی کا کھانا اس موسم میں مضرصحت ہے کیونکہ انڈے سے بدہضمی اور مچھلی سے مختلف جلدی امراض جنم لیتے ہیں۔ جانوروں کے سری پائے اور لیسدار سبزیاں نہ کھائی جائیں۔ اس موسم میں قبض کو دور کرنے کیلئے مسہل یا قوی ملین ادویہ سے اجتناب ضروری ہے۔ مرطوب موسم ہونے کی وجہ سے اعضاءمیں تری زیادہ ہوتی ہے اس لیے سخت ورزش نیز اعصابی و جسمانی مظاہروں سے بھی گریز کیا جائے کیونکہ اس موسم میں ہڈی وغیرہ جلد ٹوٹ جاتی ہے اور زخم جلد مندمل نہیں ہوتے۔
برسات کے موسم میں لباس تنگ اور چست نہیں پہننا چاہیے کیونکہ اس موسم میں بھی پسینہ بکثرت آتا ہے۔ اس لیے عام افراد کیلئے فراخ لباس مناسب ہوتا ہے۔ سوتی کپڑے سے تیار شدہ لباس زیادہ موزوں ہے۔ رنگوں کے اعتبار سے سفید رنگ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں