میرے پاس ایک شخص آیا جوکہ اندر اور باہر سے سو فیصد بدحالی کا شکار تھا۔ دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ شاید یہ مستحق یا بھکاری ہے لیکن معلوم ہوا کہ وہ اس سے پہلے ایک بڑا چوہدری اور زمیندار تھا لیکن ہوا یہ کہ ایک دن کسی درویش نے اس سے ایمان اور آخرت کی بات کی۔ اس نے سنی ان سنی کردی۔ اس نے پھر اس سے ایمان اور آخرت کی بات کہی۔ اس نے سختی سے درویش کوجھڑک دیادریں اثناءبے اختیار اس درویش کے منہ سے نکل گیا جس طرح تونے مجھے جھڑکا ہے جا قدم قدم پر تجھے جھڑکیاں پڑیں گی۔
اسوقت چونکہ دولت، عزت اور بے شمار رقبے زمین کا نشہ تھا لیکن پھر کیا ہوا۔ حالات نے پلٹا کھایا۔ مقدمات اور آفات کا منہ کھل گیا۔ وہ شخص ایک مشکل سے نکلتا تو دوسری مشکل میں اٹک جاتا تھا۔ اس طرح وہ شخص مستقل مشکلات میں دھنستا چلا گیا۔کہنے لگا دو بھائی عمر قید کی سزا میں ہیںاور دو بھائی اشتہاری ہیں۔ ایک میں ہوں جو اپنے اس قیمتی لمحے کو روتا ہوں کہ جس وقت میں نے اس درویش کو جھڑکا تھا سب زمین بک گئی‘ سارا مال ختم ہوگیا۔ ادھار سے گھر کا کھانا پکاتے ہیں۔ یہ بات کرتے ہوئے وہ شخص مسلسل رو رہا تھا۔
ایک بوڑھے میاں بیوی میرے پاس آئے ان کا ایک ہی بیٹاتھا‘ باقی بیٹیاں تھیں۔ خود سفید پوش غریب تھے۔ بس تمنا تھی کہ بیٹے کو اچھی تعلیم، اچھی خوراک، اچھا لباس مہیا کریں‘ چاہے خود جیسی بھی زندگی گزار لیں۔ ساری عمر محنت مزدوری کرکے بیٹے کو تعلیم دلوائی پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے رقم کی ضرورت تھی اور رقم تھی نہیں۔ ذاتی مکان چالیس لاکھ میں فروخت کر کے رقم بیرون ملک بچے کی تعلیم کے لیے لگادی۔ اب عالم یہ ہے کہ بیٹے کو یورپ گئے 4 ماہ ہونے کو ہیں بیٹے نے کبھی فون تک نہیں کیا وہ ہمیں پوچھتا ہی نہیں۔ ماں بتارہی تھی کہ اسکے وہاں گوریوں کے ساتھ تعلقات ہیں وہ ماں باپ کو بھول گیا ہے‘ جب وہ بات ختم کرچکے تو میں نے ان سے عرض کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بوڑھا باپ اپنے نوجوان بیٹے کو لایا کہ یہ میری عزت نہیں کرتا، میرااحترام نہیں کرتا اور نہ ہی میری بات مانتا ہے بلکہ مال میں سے چند درہم بھی خرچ کرنے کو نہیں دیتا کہتا ہے یہ میرا مال ہے حالانکہ میں نے اسے بہت محنت اور مشقت سے پالا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ کوڑے کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ نوجوان نے کہا اے امیرالمومنین! پہلے میری بات سن لیں پھر جو چاہے مجھے سزادیں۔ مومن ایمان دیکھ کر شادی کرتا ہے‘ یہودی مال دیکھ کر، عیسائی حسن دیکھ کر، میرے باپ سے پوچھیں اس نے میری ماں سے کیا دیکھ کر شادی کی تھی دوسرا سوال میرے باپ سے پوچھیں اس نے کس مال سے میری پرورش کی تھی (یعنی مشکوک حرام‘ سود رشوت‘ جھوٹ بول کر وغیرہ) تیسرا سوال یہ کریں کہ اس نے میری دینی تربیت کی تھی یا نہیں یعنی مجھے ایمان‘ اخلاق‘ آخرت سکھایا تھا یا نہیں۔ جب امیرالمومنین نے ان تینوں سوالات کی تحقیق کی تو بوڑھا قصور وار قرار پایا۔ قارئین! فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں