یہ ان دنوں کی بات ہے جب وسطی ایشیاءکے ممالک کی جنوبی ایشیاءکے ممالک کے ساتھ خوب تجارت ہوتی تھی۔ وسطی ایشیاءکے عرب ممالک سے تاجر قافلے ہندوستان اور آس پاس کے علاقوں اور جزیروں میں جاتے اور خرید و فروخت کرتے۔انہی دنوں مراکش سے ایک قافلہ مالدیپ کیلئے روانہ ہوا۔ اس میں مراکش کا ایک نوجوان بھی سیر و سیاحت اور تجارت کی غرض سے شامل تھا (مالدیپ سمندر کے بیچ ایک جزیرہ ہے) جب قافلہ وہاں پہنچا تو اس نوجوان نے رات بسر کرنے کیلئے ایک گھر میں پناہ لی۔ کیا دیکھا کہ اس گھر کی بڑھیا نہایت پریشان اور فکر مند ہے۔ نوجوان نے بڑھیا سے پریشانی کی وجہ دریافت کرنے پر بڑھیا نے بتایا کہ یہاں رہنے والوں پر سمندر کی طرف سے مہینے میں ایک مرتبہ سخت طوفان آتا ہے جس سے بچاﺅ کے لئے جزیرے کی رہنے والی کسی کنواری لڑکی کو سجاسنوار کر ساحل سمندر پر واقع ایک مندر میں رات کو بٹھاکر طوفان کی نذر کردیا جاتا ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو وہ طوفان ساری بستی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور صبح لڑکی کی لاش ملتی ہے اور اس دفعہ بھیجی جانے والی لڑکی میری بیٹی ہے۔ بدقسمتی سے کل طوفان کی تاریخ ہے اور میں اپنی بیٹی کو بچانے کے لئے کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ نوجوان نے سارا ماجرا سن کر بڑھیا کو تسلی دی۔ اگلے دن راجہ کے خادم لڑکی کو پہنائے جانے والے کپڑے اور زیورات دیکر چلے گئے کہ لڑکی شام تک تیار ہو۔ نوجوان نے بڑھیا سے کپڑے وغیرہ لیکر خود پہن لئے۔ شام کو راجہ کے آدمی نوجوان ہی کو ڈولی میں بٹھاکر لے گئے اور مندر میں چھوڑ آئے۔ نوجوان نے زمین پر آیت الکرسی کا حصار بنادیا اور پھر روز کی متعین کردہ منزل پڑھنا شروع کردی۔ شام کے قریب سمندر میں ہلچل ہوئی اور رات کی تاریکی بڑھنے کے ساتھ ساتھ سمندر میں طوفان بھی تند و تیز ہوتا گیا اور ساحل کی طرف بڑھتا گیا۔ آدھی رات کے قریب چیخ و پکار بھی شروع ہوگئی۔
سمندر میں خوب طغیانی مچی ہوئی تھی اور طوفان ساحل کی طرف خوب شور کے ساتھ بڑھ رہا تھا۔ لیکن نوجوان نے ہمت اور ثابت قدمی سے آیت الکرسی کا ورد جاری رکھا۔ اسے محسوس ہوا کہ سمندر میں اٹھنے والا طوفان درحقیقت کسی اور وجہ سے ہے کیونکہ ایک بہت بڑی بلا اس کی طرف آرہی تھی لیکن وہ نوجوان آیات قرآنی بلند آواز سے پڑھتا گیا اور بلا کی طرف پھونک مارتا رہا۔ بالآخر سمندر میں آگ لگ گئی اور تھوڑی دیر بعد خود ہی بجھ گئی۔ آگ بجھنے کے بعد طوفان تھم گیا اور سمندر پرسکون ہوگیا۔ اس نوجوان نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس قبیح رسم کے خاتمے کیلئے اس کو استعمال کیا۔
اس نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اخلاص نیت سے قربانی دی اور بطور امتی پوری امت کا خیال کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی برکت سے اس کی حفاظت فرمائی اور طاغوتی طاقتوں پر اسے غالب اور قوی کردیا کیونکہ سمندر میں اٹھنے والے طوفان کا سبب دراصل ایک جن (دیو) تھا جو برائی کی خاطر پورے سمندر میں تہلکہ مچادیتا تھا۔ اگلے دن اس بات کا لوگوں میں چرچا ہوا اور انہوں نے نوجوان کی بات کو پرکھنے کیلئے اگلے مہینے کی خاص تاریخ تک اسے ٹھہرائے رکھا لیکن جب وہ طوفان واقعی نہ آیا تو انہیں اس بات کا یقین ہوگیا اور بہت سے لوگ یہ دیکھ کر مسلمان ہوگئے۔ اسلام اس جزیرے میں پھیلا اور یوں یہ نوجوان اس جزیرے کے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں