قارئین یوں تو موجودہ زندگی اور ہماری معاشرت برائیوں کا مجموعہ ہے ہی مگر ایک برائی ان دنوں بہت عام ہوگئی ہے۔ اس میں قصور کس کا ہے والدین کا، میڈیا کا یا ماحول کا۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
چند برس سے اخبارات میں یا ٹی وی کے خبر نامے میں پڑھتے یا سنتے تھے کہ فلاں جگہ بھائی نے بہن یا باپ نے بیٹی کو قتل کردیا وجہ ”غیرت“ بتائی جاتی تھی مگر اب سب کچھ کھلے عام ہورہا ہے۔ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو لے کر گھومتے نظر نہ آتے ہوں۔ حتیٰ کہ مساجد کو بھی نہیں بخشا گیا۔ مدرسے کے باہرنوجوان چھٹی کے انتظار میں ٹولیاں بناکر کھڑے ہوتے ہیں۔ بہت دیر سے مشاہدہ کررہی تھی مگر لکھنے کی ہمت نہ تھی۔ اتنے نازک موضوع پر لکھنا بہت مشکل ہے مگر چند روز پہلے ایک واقعے نے مجھے یہ سب لکھنے پر مجبور کردیا۔ پڑوس کی ساڑھے پندرہ برس کی بچی نے گھر سے جاکر محلے کے ایک نوجوان سے کورٹ میرج کرلی۔ گھر والوں نے رپورٹ درج کروائی۔ پولیس نے لڑکے کے گھر پر ریڈ کیا اور دونوں کو برآمدگی کے بعد تھانے لے جایا گیا۔ وہاں لڑکی نے جو بیان دیا وہ سب کے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی تھا۔ اس نے کہا میں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے میری عمر اٹھارہ برس ہے اور اپنی پسند کی شادی کا اختیار اسلام نے مجھے دیا ہے۔ میرا باپ مرچکا ہے۔ میری ماں سوتیلی ہے اور بھائی بھی سوتیلے ہیں۔ مجھ پر بہت ظلم کرتے ہیں۔ کھانے کے لئے صرف ایک وقت کی روٹی دیتے اور سارا دن مجھ سے کام کروایا جاتا ہے۔ ماں تو سکتے کی حالت میں کھڑی رہ گئی۔ بھائی غصے سے بے قابو ہوگئے کہ وہ بہن جو سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے بے حد لاڈلی اور گھر بھر کی راج دلاری تھی کیایہ وہی ہے جس کی باپ کے وفات کے بعد بھائیوں نے کوئی خواہش رد نہ کی، ہر چیز لاکر دی کہ کہیں اس کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ باپ کے بعد بھائیوں نے اس کا خیال نہیں رکھا۔ تھانیدار شریف آدمی تھا۔ اس نے سمجھایا اسے جانے دو اگر روک بھی لیا تو کیا فائدہ بدنامی تو جو ہونا تھی وہ ہوگئی اب اسے اس کے حال پر چھوڑ دو یوں وہ بے حد شرمندہ ہوکر گھرواپس آگئے۔
میں اس دن سے سوچ رہی ہوں کہ آج کی نوجوان نسل کس راستے پر چل رہی ہے۔ والدین اور بہن بھائیوں رشتہ داروں کی عزت کا جنازہ نکال کر یہ جو تعلقات جوڑے جارہے ہیں کیا یہ دیرپا ثابت ہوسکیں گے۔ کیا دونوں فریق مخلص ہوکر ساری عمر یہ رشتہ نبھا پائیں گے کہ دونوں طرف سے بڑے موجود نہ ہوں اور انہیں چھوڑ کر یہ رشتہ جوڑا گیا ہو۔ ساری زندگی کیا کسی بھی رشتے کی ضرورت محسوس نہ ہوگی۔ ابھی تو کسی کا خیال نہیں مگرجب وہ خود بچوں والے ہوجائینگے تو محسوسات کیا ہوں گے جب خود ان کے ساتھ ایسا ہوا اور ایسا ہوگا کیونکہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔
میرا معاشرے سے یہ سوال ہے کہ آخر یہ سب کیوں ہورہا ہے۔ اس بے حیائی کا ذمہ دار کون ہے؟۔
عموماً لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا نے بچوں کا دماغ خراب کردیا ہے مگر میں سمجھتی ہوں کہ صرف میڈیا قصوروار نہیں اس میں والدین برابر کے قصوروار ہیں۔ جب اولاد کی تربیت کی طرف سے آنکھیں بند کرلی جائیں انہیں کسی بات پر روک ٹوک نہ کی جائے اور ان کے آزادانہ میل جول کو برا نہ سمجھا جائے تو یہی کچھ ہوگا۔ بچیوں کی تربیت میں ماﺅں کو اپنا کردار نبھانے کی ضرورت ہے۔ ان کے ہر فعل پر نظر رکھنا ماﺅں کی ذمہ داری ہے۔ آج کی ماں اپنے فرائض بھولتی جارہی ہے۔ باپ پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگ کر اولاد سے غافل ہوگئے ہیں۔
میری عبقری کے توسط سے قارئین سے درخواست ہے میرے اس پیغام کو مخلوق کے ہر فرد تک پہنچائیں۔خدارا ابھی بھی وقت ہے اپنے فرائض کو پہچان کر نبھائیں۔ اولاد کی تربیت اچھے انداز سے کریں۔ انہیں صرف دولت اور عیش و عشرت کی زندگی دینے کی بجائے اچھے اطوار سکھائیں۔ اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کریں۔ بچوں کو اچھا ماحول دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں