Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔

جنات کا پیدائشی دوست‘علامہ لاہوتی پراسراری……ایک صفحہ

ماہنامہ عبقری - نومبر 2024ء

جن اورانسان کی مثالی دوستی
ایک جن اپنا واقعہ سنانے لگے: میری ایک انسان سے دوستی ہوگئی‘ وہ انسان دراصل کچھ خوبیوں کا مالک تھا‘ ہمیشہ لوگوں کا بھلا اور نفع سوچتا اور لوگوں کی خیر سوچتا تھا‘ لوگوں کو ہمیشہ سچی راہیں دکھاتا تھا‘ کسی کو پریشان نہیں کرتا تھا‘ ہر مشکل اور پریشانی میں مخلوق خدا کے کام آتا تھا۔ اس کی یہ طبیعت اور مزاج اتنا اچھا تھا کہ وہ لوگوں کی کڑوی کسیلی باتیں کہانیاں بھی سنتا تھا لیکن کسی سے وہ متاثر نہیں ہوتا تھا یہ ساری چیزیں ایسی تھیں اور اس کے علاوہ اور بہت سی خوبیاں ایسی تھیں جو اس کے اندر تھیں۔ وہ جن کہنے لگا: مجھے اس انسان کی یہ خوبیاں بہت اچھی لگیں اس لیے میں اس کی دوستی کی طرف مائل ہوگیا۔ میں نے اس سے دوستی کا ایک طریقہ ڈھونڈا‘ میں پرندہ بن کر اس کی دیوار پر آتا وہ زبان اور بے زبان سب کا خیال رکھتا تھا‘ وہ مجھے دانا ڈالتا اور بہت زیادہ ڈالتا‘ پیار کرتا‘میں آتا مخصوص وقت پر اس کا دانہ کھا کر پھر چلا جاتا۔
بلی اوربوڑھی عورت کی شکل والاجن
پھر میں اسی وقت میں ہی بلی بن کر آتا‘ وہ میری غذا کا خیال رکھتا‘ میں بلی بن کر اس کے پائوں پر لپٹتا‘ اس سے محبت کرتا‘ اس کے پاؤں چاٹتا ‘وہ محبت کا جواب محبت سے دیتا اور میں چلا جاتا۔پھر تھوڑی دیر میں میں کتا بن کر آتا‘ کتوں جیسی مخصوص آواز اور کتوں جیسا مخصوص نظام اور پھر یوں میں ایک فقیر بوڑھی عورت بن کر آتا وہ مجھے عزت سے بٹھاتا‘ کھانا دیتا ‘ پانی پلاتا‘ پیسے دیتا‘ میری ضروریات کا خیال کرتا‘ پھر کچھ ہی دیر کے بعد میں ایک بوڑھا بھکاری بن کر آتا‘ دور سے صدائیں لگاتا ہوا‘ میری حالت ایسی کہ جس کو دیکھ کر جو دیکھے اس کو ترس آئے جو دیکھے اس کو رحم آئے‘ اپنی حالت کو دیکھ کر بعض اوقات مجھے خود بھی ترس آنے لگتا تھا لیکن میں مسلسل اس سخی آدمی کو آزماتا رہا اور وہ ہمیشہ میری آزمائش میں پورا اترا اور اس کا پورا اترنا کچھ ایسا تھا کہ مجھے بھی حیرانگی ہوئی‘ میں بہت عرصہ اپنے اس روپ کے ساتھ اور اس انداز کے ساتھ اس سے ملتا جلتا رہا‘ وہ مجھے ہر حال میں خدمت کا صلہ دیتا رہا‘ میری خدمت کرتا رہا میں جس روپ میں گیا اس نے ہر روپ میں میری خدمت کی۔
طلسماتی چھُڑی کا ٹکڑا
یوں سلسلہ چلتا رہا‘ ایک مرتبہ میں ایک معزز آدمی کی شکل میں اس کے پاس آیا اور اسے یہ ساری بات بتائی اور یہ کہا کہ میں کتے کے روپ میں آیا تو نے مجھے جھڑکا نہیں‘ میں بلی کے روپ میں آیا تو نے مجھے دھتکارا نہیں میں ایک بوڑھی بھکارن کے روپ میں آیا تو نے مجھے عزت دی‘ میں ایک چلتے پھرتے بھکاری کے روپ میں آیا تو نے مجھے کھانا پانی دیا‘ میں پرندے کے روپ میں آیا میں جس جس روپ میں آیا کیونکہ اللہ پاک نے ہمیں روپ بدلنے کی طاقت دی ہےاور ہم ہر روپ میں آسکتے ہیں ہم کوئی بھی روپ دھاریں دھار سکتے ہیں‘ تونے میری بہت خدمت کی‘ تھوڑا سا خوف زدہ ہوا لیکن اسے میں نے تسلی دی‘ خوف زدہ نہ ہو‘ آج کے بعد تو میرا دوست ہوگا۔میں نے اسے شہتوت کے درخت کی ایک ٹہنی دی‘ خشک ٹہنی تھی‘ دو بالشت کے برابرتھی ‘وہ دراصل طلسماتی ٹہنی تھی اس سے کہا کہ اگر تو کبھی مجھے بلانا چاہے اس ٹہنی کا چھوٹا سا ٹکرا ہاتھ سے توڑ اور اسے انگلی میں مسلتا رہ‘باقی ٹہنی محفوظ رکھ‘ بس جتنی دیر میں تو مسلے گا اتنی دیر میں میں آجایا کروں گا اور جو خدمت بتائے گا میں تیری خدمت کروں گا ۔
یہ راز کبھی افشاں نہ ہوا
تیرے اندر اتنا زیادہ صفات ہیں اور اتنا زیادہ خلوص ہے کہ مجھے تیرے صفات سے بہت خوشی ہوئی اور بہت اچھا لگا‘ الغرض ہماری یہ دوستی سالہا سال چلتی رہی حتیٰ کہ ہم اتنے دوست ہوگئے کہ ایک دوسرے کی دوستی پر رشک آتا تھا۔ اس بندے نے یہ راز کسی کو نہ بتایا‘ اپنے گھر والوں کو نہ بتایا لیکن گھر والوں کو شک تھا کہ بعض کام پلک جھپکتے ہی ہوجاتے ہیں‘ بعض چیزیں فوراً ہوجاتی ہیں‘ آخر یہ کیسے ہوتا ہے؟ ان کو احساس تو تھا‘ لیکن اس احساس کا یقین کے ساتھ تعلق اس لیے نہ بن سکا کہ اس نے اس راز کو راز میں رکھا اور کبھی اس راز کو افشاں نہ کیا۔ دن رات یونہی گزرتے رہے میں نے اس انسان سے محبت بڑھاتے بڑھاتے اتنی محبت کی کہ بعض اوقات میں اپنے آپ کو کھو بیٹھتا تھا اور اپنے آپ کو بھی میں محسوس کرتا تھا کہ میں کچھ نہیں بس وہی سب کچھ ہے۔ مجھے راحت ہوئی کہ وہ شخص اپنی صفات میری دوستی کے بعد بڑھاتا چلا گیا ‘غریب پروری ‘لوگوں کی خیرخواہی اوربھلا‘ یہ ساری چیزیں اس کی بڑھتی چلی گئیں اور یہ ساری چیزیں بہتر سے بہترین ہوتی گئیں‘ یوں زندگی کے دن رات اس کے لاجواب گزرنے اور سنورنے لگے۔
بیماری کی آخری حالت
ایک مرتبہ وہ سخت بیمار ہوگیا اور بیماری بھی ایسی تھی کہ جس میں کوئی علاج کارگر نہیں ہورہا تھا‘ اس نے مجھے نہیں بتایا‘ اس کو ڈیڑھ ہفتہ گزر گیا‘ مجھے خود احساس ہوا کہ اس نے ڈیڑھ ہفتے سے مجھے بلایا ہی نہیں آخر کیوں نہیں بلایا۔ کون سی ایسی وجہ کون سی ایسی پریشانی ہے میں حیران ہوا‘ آخر میں اسے خود ملنے چلا گیا دیکھا وہ بیماری کی آخری حالت میں تھا‘ لقوے کی وجہ سے اس کا منہ دوسری طرف بدل گیا تھا‘ اس کے ہاتھ پاؤں حرکت نہیں کرپارہے تھے جسم لڑھکا ہوا تھا‘ اعصاب کھچے ہوئے تھے‘ طبیعت میں بے زاری تھی‘ یادداشت ختم ہوگئی تھی‘ نظر بہت تھوڑی تھی‘ بہت دیر اور پہچان کے بعد اس نے مجھے پہچانا۔ پیشاب اور اجابت اسے کوئی خبر نہ تھی‘ بس منہ میں جو ہوتا ڈال دیتے تھے ۔چند ہی دنوں میں اس کے حالات ایسے ہوگئے جیسے وہ سالہا سال سے بیمار ہےاور سالہا سال کی بیماری نے اسے گھیرا ہوا ہے۔
عامل باباکے پاس حاضری
میں بہت فکرمند ہوکر بیٹھ گیا آخر کیا کیا جائے؟ ان سے علاج معالجہ کا پوچھا وہ کہنے لگے: بہت علاج کیا‘ اتنا علاج کہ کوئی معالج نہیں چھوڑا‘ اتنے تھوڑے دنوں میں اتنا علاج اور علاج پر اتنے اخراجات‘ حیرت ہوئی اچانک بیٹھے بیٹھے خیال آیا ہمارے جنات میں ایک عامل بابا ہے ‘بہت جنات اس سے علاج کرواتے ہیں‘ لاعلاج بیماریوں کیلئے زندگی کی پریشانیوں حالات کی سختیوں اور تنگیوں کیلئے اس سے علاج کرواتے ہیں بلکہ وہ جادو‘ نظربد اور اس طرح کی مشکلات کا بہترین علاج جانتا ہے‘ میں وہاں سے میں غائب ہوکر فوراًاس عامل بابا کے پاس گیا‘ ان کو ساری پریشانی بتائی۔ وہ کہنے لگے: مجھے اس کا نام بتاؤں‘ اس کا نام پوچھا‘ چند لمحات کے بعد کہنے لگے: اس کے اوپر تو کسی جادوگر نے سخت جادوکیا ہے اور یہ موت کا جادو ہے‘ اگر اس کا جادو نہ توڑا گیا تو چند ہی

دنوں میں یہ ختم ہوجائے گا ‘اچھے وقت میں پہنچ گئے ہو‘ اچھا ایسا کرو فوراً جاؤ اس کا ایک پرانا جوتا لے آؤ‘ کوئی پرانا استعمال کیا ہوا کپڑا لے آو اور تھوڑی سی مٹی لے کر اس کا لعاب اس میں ڈلوا کر لے آؤ اور اس کو کنگھا دے دو‘ تو اس کے ایک سے دو بال بھی لے آؤ‘ یہ ساری چیزیں لاکر مجھے دو۔ میں دیکھوں گا اور پھر فیصلہ کروں گا اس کا فوری علاج کیسے کیا جائے؟
عامل بابا کا طریقہ علاج
وہ دوست جن مزید کہنے لگا: میں اٹھا پھر فوراً اس کے پاس گیا‘ گھر والوں سے یہ ساری چیزیں لیں اور کسی نہ کسی طرح اس کا لعاب بھی مٹی میں ڈلوا لیا‘ یہ ساری چیزیں لے کر میں پھر اس عامل بابا کے پاس گیا۔عامل بابا نے ان سب چیزوں کو کچھ اس طرح کیا ‘اس نے ایک بازو کے برابر گڑھا کھدوایا اس گڑھے میںجنگل کے پرندوں کے اور رنگ برنگے مختلف پَر تھے‘ لعاب ملی مٹی کو اس گڑھے کے نیچے رکھوا کر اوپر پَر ڈال دئیے اور اس کو مٹی سے دفن کردیا۔جوتے کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور ہر ٹکڑے کو مختلف درختوں کی چھال جو درخت کے اوپر ہوتی ہے اس کے اندر بند کروایا اتنی بڑی چھال کہ جوتے کا ٹکڑا نظر نہیں آرہا تھا اوپر بھی چھال اور نیچے بھی چھال اس کو بند کروایااور بند کروانے کے بعد کالے دھاگے ان کے اوپر اسی طرح لپٹوائے اور اتنا زیادہ لپٹوائے کہ وہ نظر نہیں آرہے تھے یعنی چھال نظر ہی نہیں آرہی تھی۔
اب ایک چھال کا حصہ مشرق کی طرف‘ دوسرا مغرب کی طرف‘ تیسرا شمال کی طرف اور چوتھا جنوب کی طرف رکھوایا۔ یوں چھال کے مختلف حصے ہوتے گئے اور مختلف سمتوں میں رکھتے گئے ہر چھال کے اوپر بہت بڑا پتھر رکھوا دیا اورکوئی وہاں ہٹائے نہیں اور کسی کا پاؤں نہ آئے اور ہر پتھر کے ساتھ ایک شاگرد عامل بٹھا دیا جو بیٹھ کر پڑھ رہا تھا ۔
سرخ آنکھیں‘سخت جلال اور طلسماتی عمل
بالوں کو ہرن کی کھال کے اندر لپیٹا اور عامل بابا نے ان بالوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا‘ پہلے دائیں ہاتھ میں لے کر بہت دیر تک پڑھتے رہے‘ اتنا جلالی عمل تھا کہ پڑھتے پڑھتے آنکھیں سرخ ہوگئیں سخت جلال میں آئیں‘ اس پر پھونک مار دی اور پھونک مارتے ہوئے ایسے محسوس ہورہا ہے جیسے پھونک میں سے بھی آگ نکل رہی ہے ‘پھر اس ہرن کی کھال جس کے اندر بال تھے بائیں ہاتھ میں لی اور بائیں ہاتھ میں لے کر اس کو پھر سے اپنی پڑھائی اور حصار میں لیا‘ اب جلال بڑھ گیا اور پڑھائی میں بہت زیادہ آگئی‘ پڑھتے پڑھتے اس کے اندر جلال کی کیفیات میں اضافہ ہوگیا ‘یوں پھر پھونک ماری اور یہ پھونک بھی پہلی پھونک سے زیادہ جلالی تھی اور اس کے اندر بہت زیادہ جلال تھا۔ بہت دیر تک یہی سلسلہ چلتا رہا‘ آخر کار انہوں نے ہرن کی کھال کو اپنے پاس پڑے صندوق جس میں مختلف جانوروں کے سینگ پڑے تھے انہوں نے وہ وہیں رکھ دیا‘ اس کے بعد انہوں نے اس کا استعمال کیا ہوا کپڑا لیا‘ جنات کے بہت زیادہ شاگرد بیٹھے تھے انہوں نے اس کپڑے کے ایک سو ایک ٹکڑے کیے اور ہر جن نے اس ایک ٹکڑے کے اوپر انگلی سے کچھ لکھنا شروع کیا‘ محسوس ہورہا تھا کہ انگلی سے کچھ لکھ رہے ہیں لیکن نظر نہیں آرہا۔
خطرناک کالے سفلی جادو کا توڑ
یہ نظر نہ آنے کا سلسلہ بہت دیر تک چلتا رہا اور وہ لکھتے رہے‘ کئی گھنٹوں تک یہ عمل چلتا رہا۔ وہ مخلص دوست جن کہنے لگا: میں کئی گھنٹوں سے یہ سب کچھ خاموش دیکھتا رہا‘ تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے ٹھنڈی سانس لی اور کہنے لگے: تمہارے انسان دوست کے تمام جادو‘ خطرناک کالے سفلی جادو کو میں نے توڑ دیا‘ جاؤ اسے خوش خبری دو اور وہ چند دنوں تک بالکل ٹھیک ہوجائے گا ‘ بس اسے ایک بات کہو اور وہ یہ کہو کہ اپنا سب کچھ لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کرے کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو چھپا دینے سے اچھی لگتی ہیں ‘جن کا چھپانا اچھا ہوتا ہے۔ اگر وہ چھپا دی جائیں تو وہ بہتر ہوجاتی ہیں۔
احتیاط کا دامن کبھی نہ چھوڑیں
پھر انہوں نے باقاعدہ بتانا شروع کیا۔ فلاں موقع پر تم نے فلاں چیز کو اور فلاں موقع پر فلاں چیز کو تم نے بتایا تھا اور اس کی نظر لگی تھی‘ فلاں بندے نے تم پر حسد کا جادو کیا تھا ایک ایک بندے کا نام بتایا اس کا پتہ بتایا اور اس کے سچے حالات بتائے اور وہ سچے حالات بتاتے بتاتے ان کی آنکھوں میں چمک بڑھتی چلی گئی اور وہ بتانے لگے میں اس سے بھی اگلے سچے حالات اور بتاؤں گا‘ بس اپنے انسان دوست کو کہو کہ احتیاط سے چلے‘ احتیاط برتے اور احتیاط کا دامن نہ چھوڑے کیونکہ احتیاط سے ہی ان کے مسائل حل ہوں گے‘ مشکلات دور ہوں گی‘ تکالیف ختم ہوں گی‘ حالات کی‘ سختی تلخی اور پریشانی ان سے دور ہوجائے گی۔
ایسا ہی ہوا وہ دوست کہنے لگے: میں اپنے انسان دوست کے پاس پہنچا اسے میں نے ایک ایک چیز گ گن کر بتائی اور ایک ایک چیز بول بول کر بتائی اور وہ ایک ایک چیز کو گنتے رہے‘ سنتے رہے ساری چیزیں ان کے سامنے آگئیں‘ ہر چیز کو انہوں نے باقاعدہ کہا‘ یہ بھی سچ ہے‘ یہ بھی

سچ ہے بلکہ تمام سچ ہے‘ وہ حیران ہونے لگے کہ میں جس چیز کو بہت معمولی سمجھتا تھا وہ چیز معمولی نہیں وہ تو ایسی تھی کہ میرے ذہن ادراک احساس میں نہ رہی اور وہی چیز مجھے کھاگئی‘بیماری‘ تکلیف بن گئی میرے مسائل اور مشکلات کا ذریعہ بن گئی۔ بس یہ تمام چیزیں وہ مانتے چلے گئے‘ اب انہوں نے عہد کیا آئندہ میں احتیاط کروں گا۔ لیکن جو بات اس سے زیادہ حیرت انگیز ہے وہ یہ ہے کہ یہ دوست جن کہنے لگے جب میں ان کے پاس پہنچا میرے پہنچنے سے پہلے ہی وہ بہت زیادہ صحت یاب ہوچکے تھے۔ اس قابل ہوچکے تھے کہ وہ مجھ سے بات بھی کرسکیں اور میری بات سمجھ بھی سکیں اور مجھے پہچان بھی سکیں‘ وہ واقعی مجھے پہچان رہے تھے صحت مند ہوگئے تھے‘ چند ہی دنوں کے بعد وہ مزید صحت یاب ہونے لگے۔عامل بابا نے آتے ہوئے مجھے کچھ درختوں کے خشک پتے دئیے جن پر کچھ نقش اور تعویذات لکھے ہوئے تھے‘ اس کی ترکیب بتائی کہ اپنے دوست کو کیسے استعمال کروانے ہیں اور کس طرح کون سی چیز کیا کیا کرنی ہے۔ انہوں نے یہ ساری ترکیب کی‘ بس تھوڑے سے ہی تعویذ تھے ‘ تعویذ کیا تھے ایک ایک تعویذ حیرت انگیز کرشمات‘ طاقت اورقوت کا مالک تھا۔ میں ان کا یہ قصہ سن رہا تھا اور سچی کہانی سن رہا تھا اور مجھے حیرت ہورہی تھی یہ سب کیا ہے؟ کیا ایسے مخلص بھلے مانس انسان کو بھی جادو‘ حسد‘ نظربد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیا ایسے لوگوں کے بھی دشمن ہوتے ہیں جبکہ یہ تو سب کے دوست ہوتے ہیں اور یہ تو سب کے ساتھی ہوتے ہیں‘ ایسے لوگوں کے دشمن کون ہوسکتے ہیں؟ لیکن میرے بار بار کے تجربات سوفیصد مشاہدات نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ ایسے لوگوں کے دشمن بھی ہوتے ہیں‘ اس کی ایک وجہ ہے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خیر کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف شر‘ فساد ہے‘ بیمار کرنا‘ بیمار کو دیکھ کر خوش ہونا‘ تکلیف دینا اور تکلیف زدہ دیکھ کر خوش ہونا۔ ایسے لوگ زندگی کے مسائل مشکلات میں ساتھی نہیں بنتے بلکہ مزید بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔یہ انسان دوست‘ جنات دوست‘ مخلوق دوست نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کا کام مخلوق خدا کو پریشان کرنا‘ تکلیف دینا اور مسلسل تکلیف اور تکلیف کی بھی انتہا دینا ہے‘ اتنی انتہا کہ گمان سے بالاتر۔سانپ کاٹتا ہے اس کو مزہ نہیں آتا‘ اس کے اس کاٹنے میں لذت شامل نہیں اور بچھو کاٹتا ہے تو وہ اپنی عادت کی بنیاد پر‘ اپنی فطرت اور سرشت کی بنیاد پر کاٹتا ہے۔ اسی طرح بعض انسان یا جن ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد انسانیت یا جنات یعنی مخلوقات کی خیر نہیں ہوتی ان کا کام صرف شر‘ تکلیف‘ مسائل‘پریشان کرنا ہی ہے اور ان کا مقصود اور مطلوب یہی ہے۔
میں اپنے جنات کے تجرباتی دنیا میں ایسے بہت سے واقعات سن چکا ہوں اور دیکھ چکا ہوں جس سےمجھے پتہ چلا کہ ان واقعات سے مخلوق کو کتنی تکلیف دی جاتی رہی اور کتنے غم دیئے جاتے رہے‘ مجھے احساس ہوا کہ آج کے دور میں برائی کرنا تو واقعی بُرا ہے لیکن نیکی کرتے ہوئے بھی ایسا خیال بہت ضروری ہے کہ کہیں یہ ہماری نیکی کسی کو تکلیف نہ دے کیونکہ مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنا بھی لوگوں کو تکلیف دینے کا ذریعہ بنتی ہے لیکن نیکی کرنے والے اور خیر پھیلانے والے ہمیشہ خیر پھیلاتے ہی رہیں گے یہ ان کا سچا جذبہ ہے اور سچی منزل ہے۔ (جاری ہے)

Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 041 reviews.