نکھرا ہوا حُسن اور نظر بد کا کالاتیر
وہ ایک پہاڑی سرسبز و شاداب بل کھاتی ندیاں پھل دیتے درخت‘ پھول اور خوشبو دیتی بیلوں کا باسی‘ خوبصورت جوان تھا۔ پڑوس میں کچھ لوگ رہتے تھے جو اسے دیکھتے رہتے تھے‘ صبح و شام اپنے دفتر جاتے ہوئے ان کے آگے سے گزر کر جاتا تھا‘ عورتیں مرد‘ اس کو حسرت سے دیکھتے‘ ایسا خوبصورت صحت مند تندرست‘ نہ موٹاپا نہ بڑھا پیٹ‘ خوبصورت آنکھیں‘ نکھرا ہوا حسن و جمال‘ واہ کیا خوبصورت جوان ہے‘اس کو دیکھتے اور تبصرے کرتے رہتے۔ کئی مرتبہ سیانے اور سمجھدار لوگوں نے کہا خیال کر‘ نظربد لگتی ہے‘ نظربد کا توڑ کر‘ اور اس کیلئے کوئی مسنون دعائیں کچھ اعمال کر‘ احتیاط سے چل‘ ہنس کر ٹال دیتا‘ بلکہ بعض اوقات مذاق کی شکل میں لیتا‘ یہ کیا چیز ہوتی ہے؟ اس کا کیا وجود ہے؟ اور اس کی کیا حقیقت ہے؟ آخر انگریزوں کو نظربد نہیں لگتی‘ انگریز تو اور ہم سے زیادہ خوبصورت ہیں’ ان کا حسن و جمال تو جانا مانا ہوا ہے ‘صرف نظربد ہمیں لگتی ہیں ۔
پتھری کے دور کی باتیں اور جدید سائنس
یہ پتھر کے دور کی باتیں بوڑھے ‘زمانے کی باتیں ‘اب سائنس کا دور ہےاور جوانوں کا دور ہے‘ کچھ نہیں ہوتا۔ نہ مانتا تھا نہ کسی کی سنتا تھا۔ اپنی ترنگ اور ترنم میں زندگی کے دن رات نہایت ترقی‘ خوشی‘ کامیابی اور کمال میں گزر رہے تھے۔ نہ فاقہ نہ فقر‘ نہ غربت نہ تنگدستی‘ اگر مہنگائی اپنے جوبن پر آئی ہے تو اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں اس کی جیب ہمیشہ گرم رہی‘ اس کا نوالہ ہمیشہ تر رہا‘ اس کے پاس گاڑی‘ خوبصورت گھر‘آمدنی کا بہترین ذریعہ‘ یہ اسی میں مدہوش اور مدغن تھا۔پھر کبھی سرگوشی کسی کی نصیحت اور کسی کا خلوص اسے جھنجھوڑتا خیال کر‘ نظربد کو سمجھ‘ تو گوروں سے زیادہ سمجھدار‘ انگریز سے زیادہ سیانانہیں‘ وہ تجھ سے زیادہ نظربد‘ کالے جادو‘ جادو جنات‘ اور پُراسرار چیزوں کو مانتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں‘ نیٹ کی دنیا بھری ہوئی ہے ‘ کبھی انٹرنیٹ کھول کر چیک کر‘ تیرے ہاتھ میں نیٹ کا سارا جہان ہے یعنی موبائل ہے لیکن ہنس کر ٹال دیتا‘ مسکرا کر بات کا رخ پھیر دیتا‘ اگر زیادہ سمجھائیں تو پھر الجھ پڑتا۔
نظر بد نے آوازِ غیب سے پکارا
لوگ خاموش ہوجاتے اور اس کے محسن حسرت کی ٹھنڈی آہ بھر لیتے لیکن حقیقت تو حقیقت ہی ہوتی ہے اس کو آخر کیسے جھٹلایا جاسکتا ہےا ور کون اس کو جھٹلا سکتا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں اسے سر میں ہلکا سا درد ہوا‘ پھر بے چینی ہوئی‘ کبھی چکر بھی آجاتے تھے‘ سمجھنے لگا کہ شاید کام کا بوجھ ہے‘ زمہ داریاں بہت زیادہ ہیں اس لیے ایسا ہے‘ وہ اسی میں اپنے آپ کو مزید احساس صحت دلانے لگا‘ کبھی کوئی ہلکی پھلکی گولی کھالی‘ آرام کرلیا‘کافی اور چائے پر توجہ بڑھ گئی‘ اس سے مجھے سکون ملے گا لیکن وہ نظربد کی ابتدا تھی اور اس کو کہہ رہی تھی کہ کچھ کرلے میں لگ گئی ہوں‘ اور جس کو میں لگتی ہوں اس کا کچھ ہوجاتا ہے‘ تو مانے یا نہ مانے‘ جانے یا نہ جانے‘ میں حقائق دکھاتی بھی ہوں اور اپنے آپ کومنواتی ہوں‘ نظر بد نے آواز غیب سے پکارا۔پھر آنکھ میں تکلیف اور ٹیسیں شروع ہوئیں اور یہ اتنی بڑھ گئیں کہ دن رات کا چین سب کچھ ختم ہوگیا۔
آخر خطرے کی گھنٹی بج گئی
پھر آخر ڈاکٹر کے پاس گیا‘ ٹیسٹ ہوا‘ ایک کے بعد دوسرا ڈاکٹر تیسرے کے بعد چوتھا معالج‘ ٹیسٹ اورزیادہ بڑھتے چلے گئے ‘آخرپتہ چلا کہ نظربد کی آنکھ اس کی آنکھ کو کھاگئی ہے اور اندر کینسر ہے۔ اگر فوری طور پر اچانک اس آنکھ کو نہ نکالا گیا تو یہ کینسر دماغ تک پھیل جائے گااور بہت بڑے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ اب پھر اسے احساس ہوا جس کو میں نہیں مانتا تھا گورے اور انگریز مان کر کامیابیاں پارہے اور پاچکے ہیں اور اس کو جاننے کیلئے اور اس کی آگاہی کیلئے اپنا سارا سائنس کا علم لگا چکے ہیں۔ لیکن پانی سر سے گزر چکاتھا اور حقیقت میں اس کو آج پتہ چلا کہ نظربد کچھ ہوتی ہے انگریز ہم سے زیادہ سمجھ داراور سیانا ہے بس اب کیا ہونا تھا؟ آخرکار آپریشن نے ایک خوبصورت آنکھ کو نکال کر باہر پھینک دیا۔ کتنا مال‘ عزیزوں کو کتنے دکھ اور دردکہ ایک نہایت مخلص بھائی نیک ماں‘ شریف گھرانہ ایک شخص کی من مانی کی بھینٹ چڑھ گیا‘ آنکھ تو اس کی نکلی لیکن اس کے پیاروں کے دل نکل گئے‘ دل پھٹ گئے ‘ ڈوب گئے اور وہ پیارے حسرت و آہیں اور چھپتے آنسو سے اس غم کو پی نہ سکے۔
جی ہاں! یاد رکھیے گانظر بد ایک حقیقت ہے ‘آج کے بعد آپ سوچیں آپ نے اس سے بچنے کی کتنی تدابیر کیں‘ کون سے مسنون اعمال کیے‘ اس نبویؐ حقیقت کو اپنے سچے آئینے میں دیکھا؟ سوچیں! اپنے لیے‘ اپنی نسلوں کے لیے اپنے پیاروں کیلئے غور سے سوچیں ‘توجہ سے سوچیں‘ اس کا حل بھی‘ اس کا علاج بھی اور اس کا حل مسلسل عبقری آپ کو دے رہا ہے اور وہ آپ کے پاس ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں