شیخ رحمت علی ہمارے پڑوسی تھے سونے کا بہت بڑا کام‘ بہت مالدار‘ نہایت شریف آدمی تھی‘ وضع دار مرنجاں مرنج تھے‘ ان کے بھائی شیخ حاکم علی بھی اسی مزاج اور طبیعت کے تھے‘ وہ جسٹس رہے ہیں۔ انہی کے بڑے بھائی شیخ عنایت علی ‘ خان پور ضلع رحیم یار خان میں رہتے تھے۔ وہ میرے پاس اکثر تشریف لاتے تھے‘ قانون کی دنیا کے بادشاہ تھے اور نہایت شریف آج تک بکنے والے نہیں‘ کئی بار بڑے بڑےعہدے ان کی طرف آئے انہوں نے قبول نہیں کیے ‘ فقیر بہت چھوٹا لیکن وہ بہت بڑے تھے اور مجھ سے محبت کرتے تھے۔ پرانی سی گاڑی ہوتی تھی اور ایک ڈرائیور‘ مقدمات کی صورت میں خان پور سے بہاولپور ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میرے پاس کلینک تشریف لاتے تھے۔
سخیوں اور ولیوں کا خاندان
پرانی باتیں بیٹھ کر بتاتے تھے‘ پرانے آدمی اور پرانے لوگ تھے‘ ان کا وصال ہوگیا لیکن ان کا خاندان ابھی باقی ہے۔ مجھے بیٹھ کر میرے خاندان کے حالات بتاتے تھے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے: آپ کے داداؒ سے میری بہت تفصیلی ملاقاتیں ہیں اور پڑدادا رحمۃ اللہ علیہ کو میں نے دیکھا ہے اس وقت میں بہت شعور میں تھا‘ بڑا تھا۔ کہنے لگے: آپ کا خاندان تقویٰ‘ تعلق مع اللہ ‘روح کی دنیا اور روحانیت اور تصوف کی دنیا میں بہت آگے تھا اور تصوف ان کا اوڑھنا بچھونا تھا‘ لنگر بہت وسیع چلتا تھا ۔کہا جب بھی میں آپ کے داداؒ یا پڑداداؒ سے ملا‘ میں کبھی خالی پیٹ نہیں گیا۔ لنگر وسیع ہوتا تھا دور سےبعض لوگ صرف لنگر کے لیے آتے تھے۔ان کی خدمت میں اور دعا کے لیے آتے تھے‘ وہ لنگر کھلاتے بھی تھے اور دعا بھی دیتےتھے اور اس کا معاوضہ کچھ نہیں لیتے تھے۔مزید کہنے لگے آپ کے پڑداداحاجی فتح محمد چغتائی رحمۃ اللہ علیہ کے مزاج میں بہت جلال تھا جبکہ دادارحمۃ اللہ علیہ کے مزاج میں بہت جمال تھا۔
ڈاکو کی آمد اور درویش کا مراقبہ
ایک مرتبہ ایک سائل پڑادادا رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آیا‘ اسے کھانا کھلانا‘ اس کی ضرورت پوری کی۔ وہ چلا گیا‘ پھر آیا پھر اس نے اپنی ضرورت کا اظہار کیا‘ اس کی ضرورت پھر پوری کی‘ وہ پھر چلا گیا‘ پھر واپس آیا پھر اپنی ضرورت کا اظہار کیا حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو جلال آگیا ‘آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئے ‘ تھوڑی دیر کے بعد آنکھیںکھولیں تو سرخ آنکھیں‘ اپنے خدام کو کہا اس کو پکڑ لیں باندھ دیں‘ وہ چیخا چلایا آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کررہے ہیں اوراس کو کسی کمرے میں بند کروا دیا۔ شہر کے تھانہ میں اطلاع بھیجی تھوڑی دیر میں پولیس آگئی‘ حضرت کا بہت ادب و احترام کرتے تھے۔ پولیس والوں نے حضرت سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ فرمایا: ایک بہت بڑا ڈاکو آپ اگر پہچان سکیں‘ پولیس کو کمرہ کی طرف بھیجا‘ تھوڑی دیر ہوئی تو حیران ہوئےیہ شخص تو کئی ریاستوں کا مفرور‘ کئی لوگوں کا قاتل‘ ڈاکہ ڈالنا‘ قتل کرنا اور غیراخلاقی جرائم میں ملوث‘ یہ تو بہت بدنام آدمی ہے‘ آپ تک کیسے پہنچا؟
حضرت نے سارا قصہ سنایا اورفرمایا: میں نے عالم کشف میں اس کا سارا حال دیکھا اور عالم کشف میں اس کی یہ کیفیت دیکھی تو پتہ چلا یہ تو مجھ سےخیرات لینے نہیں آیا‘ بار بار آنےکا مقصد حالات دیکھنا ہے کہ اگر میں رات کو آکر ڈاکہ ڈالوں کون سے راستے ہیں؟ کون سی راہیں ہیں؟ اور طریقہ کارکیا ہوگا؟ شیخ عنایت علی کہنے لگے: یہ واقعہ خود مجھے حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سنایا اور اس سے پہلے بھی کئی لوگوں سے سنا تھا چونکہ میں قانون کی دنیا کا بندہ ہوں‘ ہمیں جرائم پیشہ لوگوں کے حالات ملتے رہتے ہیں‘ میں نے اس ڈاکو کے حالات سنے تھے وہ کئی ریاستوں اور خود انگریزوں کو مطلوب تھا۔
آخر مردہ جسم برآمد ہوا
پولیس اس کو پکڑ کر لے گئی‘ شیخ صاحب کہنے لگے: کیونکہ آپ کا خاندان خوشحالی‘ مال و دولت میں بہت آگے تھا اس ڈاکو کو خبر پہنچی وہ ڈاکو فقیر بن کرآیا سائل محتاج منگتا بن کر آیا اسے پتہ نہیں تھا کہ آگے ایک ولی اور صاحب کشف درویش بیٹھا ہے پھر وہ ڈاکو ساری زندگی جیل سے نہ نکل سکا اور وہیں سے اس کا مردہ جسم نکلا۔
اس طرح کے کئی انوکھے واقعات شیخ عنایت علی صاحب مجھے سناتے تھے جو میں آپ کو سناؤں گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں