شادی شدہ زندگی میں بدترین لمحات وہ نہیں ہوتے جو سسرال والوں کے طعنوں یا خاندان کے دیگر لوگوں کی تلخ و ترش باتوں اور جھگڑوں کا نتیجہ ہوتے ہیں بلکہ اکثر اوقات میاں بیوی کے درمیان طرزِ زندگی اور پسندوناپسند کا فرق بھی لڑائی جھگڑےاور فساد کا باعث بن جاتا ہے۔ اگر میاں بیوی میں سے کوئی دعویٰ کرے کہ ان کے درمیان مثالی ہم آہنگی ہے‘کسی بات پر اختلاف نہیں ہوا تو سمجھ لیجیے کہ پھر دونوں میں سے کسی ایک کی یقیناً اپنی کوئی رائے یا سوچ نہیں یا دونوں میں سے کوئی ایک حد درجہ ایثار سے کام لے رہا ہے۔
ہنستا بستا گھر جہنم میں تبدیل
جہاں دو ذہن ہوں گے ان میں کسی نہ کسی بات پر اختلاف ہونا فطری چیز ہے اور ’’اختلاف برائے اصلاح‘‘ انسانی شعور کی علامت ہے اگر یہ اعتدال میں ہو تو ازدواجی زندگی کے حسن میں مزید نکھار پیدا کر دیتا ہے لیکن اگر یہ حد سے تجاوز کر جائے اور میاں بیوی میں ہر دوسری بات پر بحث و تکرار اور ’’توتو میں میں‘‘ کی نوبت آ جائے تو یہی اختلافِ رائے زندگی کے حسن کو گہنا کر کے رکھ دیتا ہے۔ دونوں افراد ایک دوسرے سے بیزار ہو جاتے ہیں اور ہنستا بستا گھرانہ جہنم میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اس آگ کی تپش صرف میاں بیوی ہی نہیں بلکہ گھر کا ہر فرد محسوس کرتا ہے لیکن زیادہ اذیت بہرحال ان دونوں کو ہی برداشت کرنا پڑتی ہے۔ یہاں ہم صرف ان چند اہم عوامل کا تذکرہ کریں گے جو بہت عام ہیں اور تقریباً ہر میاں بیوی کا کسی نہ کسی طرح ان سے واسطہ پڑتا رہتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہم چند مشورے اور تجاویز بھی دیں گے جن پر عمل کر کے ان تنازعات اور جھگڑوں کو مکمل طور پر ختم نہ سہی لیکن کم ضرور کیا جا سکتا ہے‘زندگی کو مزید تلخ ہونے سے نہ صرف بچا سکتے ہیں بلکہ بیشتر خاندانوں کی طرح مثبت اختلاف کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک مطمئن اور خوشحال خاندان کی تشکیل کر سکتے ہیں۔
شور شرابہ کی بجائے پیار اور نرمی سے کام لیں
یہ بات شوہر اور بیوی دونوں ہی کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر خاندان میں زندگی گزارنے کا طریقہ اور دوسرے خاندان سے یقیناً الگ ہوتا ہے۔ ان کا کھانا پینا، رہن سہن وغیرہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں چونکہ خواتین کو شادی کے بعد ایک نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے اس لیے ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ کچھ خاندانوں میں بہت ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہایت دھیان دیا جاتا ہے۔ مثلاً صبح کب اُٹھنا ہے؟ ناشتہ کب کرنا ہے؟ باورچی خانے میں ننگے پیر نہیں جانا وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی مختلف باتیں اور طور طریقے عموماً نسل درنسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔اس صورتحال میں لڑکی کو چاہیے کہ وہ شادی کے بعد جس گھر میں جا رہی ہے، کوشش اور محبت کر کے خود کو اس خاندان کے رسم و رواج کے مطابق ڈھال لے اور اگر ان کے رسم و رواج کی کچھ ایسی باتیں جو اس کیلئے کسی صورت ناقابلِ قبول ہوں تو وہ شور شرابہ کرنے کے بجائے پیار اور نرمی کے ساتھ خود کو درپیش مسائل اپنے شوہر اور سسرال والوں کے سامنے پیش کرے اور انہیں آہستہ آہستہ تبدیلی پر آمادہ کرے۔
لوگوں کے مشورہ پر اپنی زندگی تباہ نہ کریں
شوہر اور بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑوں کی ایک بڑی وجہ ان کے اردگرد موجود لوگوں سے ملنے والے مشورے بھی ہیں۔ نئے شادی شدہ جوڑے کو ان کے ملنے جلنے والے اپنی مرضی کے مطابق مشورے دیتے ہیں جن پر بغیر سوچے سمجھے عمل کر کے نیا شادی شدہ جوڑا شروع دن سے ہی مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔ کوشش کریں کہ اپنے درمیان محسوس کی جانے والی رنجشوں کو آپس میں بات چیت کر کے ہی حل کر لیں اگر آپ کسی سے مشورہ کرنا چاہیں تو مشورہ کیلئے کسی سمجھدار، سنجیدہ اور بُردباد شخصیت کا انتخاب کیجیے۔ ضروری نہیں کہ آپ کا ہر دوست یا سہیلی آپ کو درست مشورہ بھی دے سکے۔
دل آزاری کا باعث نہ بنیں
شوہر یا بیوی میں سے کوئی ایک کتنا ہی غصہ میں کیوں نہ ہو اسے یہ بات کبھی نہیں بُھولنی چاہیے کہ انہیں تھوڑی دیر بعد بہرحال شیروشکر ہونا ہے اور اس رشتہ کی شاید سب سے خوبصورت بات یہی ہے کہ اس میں جس تیزی سے کھٹ پٹ ہو سکتی ہے اسی تیزی سے صلح صفائی بھی ہو جاتی ہے، ایسے وقت میں ’’خاموشی‘‘ آپ کا بہترین ہتھیار ہے اس طرح شریک حیات جلد غصہ کی کیفیت سے باہر آ جائے گا جس قدر زیادہ دل آزاری یا تحقیر کا باعث بنیں گے بعد میں اسی قدر شرمندگی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
شریکِ حیات کی حسِ مزاح کو سمجھیے
مشاہداتی نکتۂ نظر سے یہ بات ثابت ہے کہ مشترکہ مسکراہٹ شوہر اور بیوی کے درمیان بندھن کو مضبوط بناتے
ہیں لیکن مسکراہٹ طنزیہ نہ ہو جیسے ایک فریق دوسر ےپر لگا رہا ہو۔ یہ خوبصورت تعلق جب اس نہج پر پہنچ جائے جہاں دونوں کی دلچسپیاں مشترک ہو جائیں، خاص طور پر دلچسپ چیزیں تو پھر زندگی سہل اور رواں دواں ہو جاتی ہے۔خوش و خرم جوڑے ایک دوسرے کی عادات و اطوار اپنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کیلئے خود کو ڈھالنے کا عمل دونوں کے رشتے کی پائیداری کی طرف ایک اہم قدم ہوتا ہے۔ بچے جب بڑے ہو جائیں اور ماں ان کی تربیت کے حوالے سے خود بھی تجربہ کار ہو جائے تو پھر وہ بھی اپنی ہنسی مزاح سے گھر کو گُل و گلزار رکھنے کی کوشش کرتی ہے، ان کی مسکراہٹ اور طنزومزاح والے جملوں سے ہر قسم کی باتوں کا ابلاغ ہو جاتا ہے۔ گھر کے افراد کا آپس کا ہنسی مذاق مشکلات یا ٹینشن سے نبرد آزما رہنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
شادی شدہ زندگی میں بدترین لمحات وہ نہیں ہوتے جو سسرال والوں کے طعنوں یا خاندان کے دیگر لوگوں کی تلخ و ترش باتوں اور جھگڑوں کا نتیجہ ہوتے ہیں بلکہ اکثر اوقات میاں بیوی کے درمیان طرزِ زندگی اور پسندوناپسند کا فرق بھی لڑائی جھگڑےاور فساد کا باعث بن جاتا ہے۔ اگر میاں بیوی میں سے کوئی دعویٰ کرے کہ ان کے درمیان مثالی ہم آہنگی ہے‘کسی بات پر اختلاف نہیں ہوا تو سمجھ لیجیے کہ پھر دونوں میں سے کسی ایک کی یقیناً اپنی کوئی رائے یا سوچ نہیں یا دونوں میں سے کوئی ایک حد درجہ ایثار سے کام لے رہا ہے۔ہنستا بستا گھر جہنم میں تبدیل جہاں دو ذہن ہوں گے ان میں کسی نہ کسی بات پر اختلاف ہونا فطری چیز ہے اور ’’اختلاف برائے اصلاح‘‘ انسانی شعور کی علامت ہے اگر یہ اعتدال میں ہو تو ازدواجی زندگی کے حسن میں مزید نکھار پیدا کر دیتا ہے لیکن اگر یہ حد سے تجاوز کر جائے اور میاں بیوی میں ہر دوسری بات پر بحث و تکرار اور ’’توتو میں میں‘‘ کی نوبت آ جائے تو یہی اختلافِ رائے زندگی کے حسن کو گہنا کر کے رکھ دیتا ہے۔ دونوں افراد ایک دوسرے سے بیزار ہو جاتے ہیں اور ہنستا بستا گھرانہ جہنم میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اس آگ کی تپش صرف میاں بیوی ہی نہیں بلکہ گھر کا ہر فرد محسوس کرتا ہے لیکن زیادہ اذیت بہرحال ان دونوں کو ہی برداشت کرنا پڑتی ہے۔ یہاں ہم صرف ان چند اہم عوامل کا تذکرہ کریں گے جو بہت عام ہیں اور تقریباً ہر میاں بیوی کا کسی نہ کسی طرح ان سے واسطہ پڑتا رہتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہم چند مشورے اور تجاویز بھی دیں گے جن پر عمل کر کے ان تنازعات اور جھگڑوں کو مکمل طور پر ختم نہ سہی لیکن کم ضرور کیا جا سکتا ہے‘زندگی کو مزید تلخ ہونے سے نہ صرف بچا سکتے ہیں بلکہ بیشتر خاندانوں کی طرح مثبت اختلاف کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک مطمئن اور خوشحال خاندان کی تشکیل کر سکتے ہیں۔شور شرابہ کی بجائے پیار اور نرمی سے کام لیںیہ بات شوہر اور بیوی دونوں ہی کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر خاندان میں زندگی گزارنے کا طریقہ اور دوسرے خاندان سے یقیناً الگ ہوتا ہے۔ ان کا کھانا پینا، رہن سہن وغیرہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں چونکہ خواتین کو شادی کے بعد ایک نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے اس لیے ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ کچھ خاندانوں میں بہت ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہایت دھیان دیا جاتا ہے۔ مثلاً صبح کب اُٹھنا ہے؟ ناشتہ کب کرنا ہے؟ باورچی خانے میں ننگے پیر نہیں جانا وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی مختلف باتیں اور طور طریقے عموماً نسل درنسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔اس صورتحال میں لڑکی کو چاہیے کہ وہ شادی کے بعد جس گھر میں جا رہی ہے، کوشش اور محبت کر کے خود کو اس خاندان کے رسم و رواج کے مطابق ڈھال لے اور اگر ان کے رسم و رواج کی کچھ ایسی باتیں جو اس کیلئے کسی صورت ناقابلِ قبول ہوں تو وہ شور شرابہ کرنے کے بجائے پیار اور نرمی کے ساتھ خود کو درپیش مسائل اپنے شوہر اور سسرال والوں کے سامنے پیش کرے اور انہیں آہستہ آہستہ تبدیلی پر آمادہ کرے۔لوگوں کے مشورہ پر اپنی زندگی تباہ نہ کریں شوہر اور بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑوں کی ایک بڑی وجہ ان کے اردگرد موجود لوگوں سے ملنے والے مشورے بھی ہیں۔ نئے شادی شدہ جوڑے کو ان کے ملنے جلنے والے اپنی مرضی کے مطابق مشورے دیتے ہیں جن پر بغیر سوچے سمجھے عمل کر کے نیا شادی شدہ جوڑا شروع دن سے ہی مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔ کوشش کریں کہ اپنے درمیان محسوس کی جانے والی رنجشوں کو آپس میں بات چیت کر کے ہی حل کر لیں اگر آپ کسی سے مشورہ کرنا چاہیں تو مشورہ کیلئے کسی سمجھدار، سنجیدہ اور بُردباد شخصیت کا انتخاب کیجیے۔ ضروری نہیں کہ آپ کا ہر دوست یا سہیلی آپ کو درست مشورہ بھی دے سکے۔دل آزاری کا باعث نہ بنیں شوہر یا بیوی میں سے کوئی ایک کتنا ہی غصہ میں کیوں نہ ہو اسے یہ بات کبھی نہیں بُھولنی چاہیے کہ انہیں تھوڑی دیر بعد بہرحال شیروشکر ہونا ہے اور اس رشتہ کی شاید سب سے خوبصورت بات یہی ہے کہ اس میں جس تیزی سے کھٹ پٹ ہو سکتی ہے اسی تیزی سے صلح صفائی بھی ہو جاتی ہے، ایسے وقت میں ’’خاموشی‘‘ آپ کا بہترین ہتھیار ہے اس طرح شریک حیات جلد غصہ کی کیفیت سے باہر آ جائے گا جس قدر زیادہ دل آزاری یا تحقیر کا باعث بنیں گے بعد میں اسی قدر شرمندگی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔شریکِ حیات کی حسِ مزاح کو سمجھیے مشاہداتی نکتۂ نظر سے یہ بات ثابت ہے کہ مشترکہ مسکراہٹ شوہر اور بیوی کے درمیان بندھن کو مضبوط بناتے(باقی صفحہ59)(بقیہ :شادی شدہ زندگی کے بدترین لمحات!)ہیں لیکن مسکراہٹ طنزیہ نہ ہو جیسے ایک فریق دوسر ےپر لگا رہا ہو۔ یہ خوبصورت تعلق جب اس نہج پر پہنچ جائے جہاں دونوں کی دلچسپیاں مشترک ہو جائیں، خاص طور پر دلچسپ چیزیں تو پھر زندگی سہل اور رواں دواں ہو جاتی ہے۔خوش و خرم جوڑے ایک دوسرے کی عادات و اطوار اپنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کیلئے خود کو ڈھالنے کا عمل دونوں کے رشتے کی پائیداری کی طرف ایک اہم قدم ہوتا ہے۔ بچے جب بڑے ہو جائیں اور ماں ان کی تربیت کے حوالے سے خود بھی تجربہ کار ہو جائے تو پھر وہ بھی اپنی ہنسی مزاح سے گھر کو گُل و گلزار رکھنے کی کوشش کرتی ہے، ان کی مسکراہٹ اور طنزومزاح والے جملوں سے ہر قسم کی باتوں کا ابلاغ ہو جاتا ہے۔ گھر کے افراد کا آپس کا ہنسی مذاق مشکلات یا ٹینشن سے نبرد آزما رہنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
زہرہ رضوان‘سکھر
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں