ایک بچے نے کہا، ”میں اتنا خوش ہوں کہ میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں اور میری خوشی اس وقت تک میرا ساتھ دے گی جب تک میں جوان نہیں ہوجاتا“۔ جو لوگ خوش رہتے ہیں، برکت بھی انہیں پر نثار ہوتی ہے۔ اگر تمام والدین یہ نکتہ بخوبی سمجھ لیں کہ بچے خوشی اور مسرت کے خزانے لے کر پیدا ہوتے ہیں تو نہ صرف ہر مقام پر بچوں سے بیش از بیش محبت کی جانے لگے بلکہ عام انسانوں کی خوشیوں میں بھی اضافہ ہوجائے۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ بہت کم والدین کو اپنی اس مقدس امانت کا احساس ہے۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح سمجھا جاتا تھا اور ان سے جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا تھا۔ بچوں کی نگہداشت کچھ اس طرح سے کی جاتی تھی گویا ان کی کوئی علیحدہ ہستی ہی نہیں۔ ان کے حقوق تو تسلیم کیے جاتے مگر عملاً انہیں نہایت بے رحمی سے مارا پیٹا جاتا تھا۔
اگر بچوں کی تعلیم و تربیت مناسب اور درست پیمانے پر کی جائے تو وہ بھاری رقمیں جو مجرمین کے مقدموں اور جیل خانوں پر خرچ ہوتی ہیں بچ جائیں۔ اس کے علاوہ بیکاروں کو باکار بناکر بہت سے مصارف کو آمدنی میں منتقل کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ مفید اور باشعور شہری قوم کے لیے بے انتہا دولت و ثروت کا ذریعہ ہیں۔ اس کے برعکس بے کار لوگ قوم کی پشت پر ایک بے مصرف بوجھ ہوتے ہیں۔ اگر ابتداءسے ہی بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دی جائے تو ایسے بے مصرف لوگوں کا تناسب کم کیا جاسکتا ہے۔
اکثر گھرانوں میں بچوں کے ساتھ بہت سنجیدگی برتی جاتی ہے۔ بچوں کو اپنی مرضی اور دل جمعی سے کھیلنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اگر ان کی اس فطری خواہش کو دبانے کی کوشش کی جائے تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوتے ہیں۔ جن بچوں کو کھیل کود میں دلی خیالات کے اظہار کا موقع دیا جاتا ہے وہ نہ صرف اچھے انسان بنتے ہیں بلکہ بہتر کاروباری اور مفید شہری بھی۔ وہ اپنی زندگی میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں اور ان کا اپنے ماحول پر خاصا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ خوشی اور تفریح سے انسان پھلتاپھولتا ہے اور اس کی اندرونی قابلیتوں اور قوتوں کو اظہار کا موقع ملتا ہے۔
اس کے برعکس غمگین اور اداس گھریلو فضا، تندخو اور بے رحم والدین اور غلط قسم کی تعلیم و تربیت دنیا کی مصیبتوں، دکھوں، غموں، پریشانیوں، جرائم اور غربت کے ناگفتہ حالات کے بڑی حد تک ذمہ دار ہوتے ہیں۔
اس زمانے میں کئی ایسے غریب بدنصیب ہیں جو اپنی ناکامیوں اور مایوسیوں کی وجہ بچپن کی حوصلہ شکنی کو قرار دے سکتے ہیں۔ جن بچوںکو بات بات پر جھڑکیں دی جاتی ہیں چن چن کر عیب نکالے جاتے ہیں ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں حتی کہ وہ اپنی خودداری اور خود اعتمادی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں اور ان کے والدین ان کو کبھی لائق فائق نہیں بناسکتے۔ بچے کو ہر وقت نکما اور ناکارہ کہنے سے وہ اس قدر بد دل ہوجاتا ہے کہ وہ آخر کار ہر شے سے بے پروا ہوجاتا ہے اور مقدور بھر کوشش کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اس سے اس کی ہمت اور جرات کو ایسا دھکا لگتا ہے کہ آئندہ عمر بھر کے لیے اس کی ترقی رک جاتی ہے۔
خراب یا برا کام کرنے پر تو بچے کو جھٹ پٹ الزام دے دیا جاتا ہے، برا بھلا کہا جاتا ہے، مگر جب وہ کوئی اچھا کام کرے تو اس کی تعریف نہیں کی جاتی۔ چونکہ بچے بہت جلد ہمت ہار دیتے ہیں لہٰذا ان کی نشوونما کا انحصار زیادہ تر تعریف اور شاباشی پر ہوتا ہے۔ اگر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو وہ زیادہ دل لگاکر کام کرتے ہیں۔
والدین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ان کی کمزوریاں اور غلطیاں بتانے کے بجائے یہ کہہ کر ہمت اور جرات دلائیں کہ تمہاری تخلیق ناکامی اور مایوسی کے لیے نہیں بلکہ کامیابی اور مسرت کے لیے ہوئی ہے۔ تم اس لے پیدا ہوئے ہو کہ تم دنیا میں سرفراز اور بلند ہو، اس لیے نہیں کہ تم دبکے دبکے رہو، ہر وقت معافی طلب کرتے رہو اور اپنے آپ کو نالائق سمجھ کر بیٹھ رہو۔ والدین کو زیادہ توجہ اس پر مبذول رکھنی چاہیے کہ ان کا بچہ کیا کرسکتا ہے؟ اس بات کو ذہن میں تو رکھنا چاہیے کہ بچہ کیا نہیں کرسکتا، لیکن بچے کے سامنے اس بات کو بار بار دہرانا نہیں چاہیے۔ اس سے اس کی ہمت شکنی ہوگی۔ والدین کو بچے کے دل و دماغ میں دہشت کے بجائے ہمت و جرات اور شک کی جگہ خود اعتمادی پیدا کرنی چاہئے۔ اگروہ اس طریقے پر عمل کریں گے تو تھوڑے ہی دنوں میں انہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان کا بچہ کچھ سے کچھ بن گیا ہے۔ اس کے ارادوں اور امنگوں میں انقلاب رونما ہوگیا ہے جب وہ مایوسی اور تھکن کے بجائے امید، آس اور شک کے بدلے خود اعتمادی اور خوف کی جگہ جرات و بے باکی کا بیج بودیں گے تو وہ ایک بہت بڑی مہم سرکرلیں گے۔
ہر انسان خواہ وہ بوڑھا ہو، جوان یا بچہ، اگر اس سے کام لینا ہے تو آپ کو شیریں کلامی اور خوش خلقی برتنی پڑے گی کیوں کہ انسان کی فطرت دشمنی، حقارت، نکتہ چینی اور ڈانٹ ڈپٹ کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔ میٹھی میٹھی باتوں اور زبان کی شیرینی سے بچوں کے اندر ایسی قوتیں پیدا کی جاسکتی ہیں جن پر صحت، کامیابی اور شادمانی کا انحصار ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کا اس بات کو جاننا انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے ماحول، ہماری ہمت و جرات، استقلال اور امید کا ہماری قوتوں اور قابلیتوں پر کس قدر اثر پڑتا ہے۔ اگربچپن میں شادمانی، خوش مزاجی اور مسرت کو بڑھایا جائے اور ان پر زور دیا جائے تو ہم اپنے بچوں کی زندگی کا رخ بدل سکتے ہیں۔
بچے کی تعلیم و تربیت میں سب سے اہم چیز اس کے قدرتی، حقیقی اور مسرت آمیز اظہار خیال کی نمو ہے، لیکن بدقسمتی سے بہت کم بچوں کی فطری طریقوں پر تربیت کی جاتی ہے۔ جب بچوں سے ان کی طبیعت اور منشا کے خلاف جبر اور زور سے کام لیا جاتا ہے تو ان کی ذہنی قوتیں سست اور کمزور ہوجاتی ہیں۔ اگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ بچہ اپنے مطالعے یا کام میں بہت جلد ترقی کرے تو اس کے دل سے مطالعے یا کام کو مصیبت سمجھنے کا خیال دور کرنے کی کوشش کیجئے۔
ہر دور کے نظام تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ تعلیم حاصل کرنا بچے کے لیے مسرت اور خوشی کا ذریعہ ہو۔ ہمارے نظام تعلیم کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اسکولوں میں بچوں کے لیے ایسا ماحول رکھا جاتا ہے کہ وہ تعلیم سے دور بھاگنے لگتے ہیں۔ یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ ہمارا مقصد خوشی کو بڑھانا اور زندگی کو خوشگوار بنانا ہے اور اگر ہم اس روش پر مضبوطی سے قائم رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے حاصل نہ کرسکیں۔ اس کے حصول کے لیے ہمیں موجودہ نظام تعلیم و تربیت اور بہت سے پرانے تصورات کو بدلنا ہوگا جس پر شاید قدامت پسند لوگ ناک بھوﺅں چڑھائیں، لیکن اگرہمیں عمدہ اور خوشگوار نتائج حاصل کرنے ہیں تو ایسے لوگوں کی پروا کیے بغیر آگے بڑھنا ہوگا، یہاں تک کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 333
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں