آپ سڑک پرچل رہے ہوں‘گاڑی میں ہوں ‘کالج میں ہوں‘کسی تقریب یا کلاس روم میں‘ ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل فون نظر آتا ہے اور نوجوان موٹر سائیکل یا گاڑی چلاتے ہوئے بھی اکثر موبائل فون کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔وہ اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ اس طرح کرنے سے کوئی حادثہ پیش آسکتا ہے۔والدین سے اگر بات کریں کہ سکول‘کالج جانے والے بچوں کو موبائل فون کی کیا ضرورت تو وہ جھٹ سے جواب دیتی ہیںکہ بچہ کو اگر سکول سے دیر بھی ہوجائے تو ہمیں پتہ چل جاتا ہے اور بلاوجہ پریشان نہیں ہونا پڑتا۔یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جب موبائل فون نہیں تھا تو کیا اس دور میں لڑکے اور لڑکیاں سکول اور کالج وغیرہ نہیں جایا کرتے تھے؟حالانکہ اس کا منفی پہلو دیکھیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ موبائل فون کی وجہ سے آج کی نوجوان نسل بہت متاثر ہو رہی ہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ جتنا وقت ہم موبائل فون کو دیتے ہیں کیا نوجوان اپنی تعلیم اور والدین اپنے بچوں پر دے رہے ہیں‘ایسا ہر گز نہیں ہے۔دور حاضر میں موبائل فون کی وجہ سے صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ میاں بیوی اور ہر طبقہ متاثر نظر آتا ہے۔بلاوجہ اور غیر ضروری موبائل کا استعمال رشتوں میں دراڑ اور لڑائی جھگڑوں کا باعث بن رہا ہے۔میاں بیوی کا آپس میں جھگڑا ‘ اولاد کے نافرمان ہونے اور چڑچڑا پن جیسی کیفیات کے مسائل کی بڑی وجہ موبائل فون کا غلط اور بے دریغ استعمال ہے۔
خوشیوں بھرا موقع بھی پریشانیوں کی نظر
گزشتہ چند روز قبل میرےکلینک میں ایک صاحب آئے جن سے سالوں پرانا تعلق ہے۔میں ان کا فیملی ڈاکٹر بھی ہوں۔انہیں اللہ تعالیٰ نے اولاد کی امید لگائی مگر خوش ہونے کی بجائے ان کا چہرہ مرجھایا سا لگ رہا تھا۔وہ میرے ایک اچھے دوست بھی ہیں۔میں نے جب ان کی افسردگی اور پریشانی کی وجہ پوچھی تو وہ خاموش رہے اور پھر کچھ دیر بعد ایک آہ بھری اور اپنا دکھ درد بیان کرنے لگے۔انہوں نے بتایا کہ بے شک شادی کے بعد سب سے بڑی خوشی اولاد کی ہوتی ہے مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں میری پہلے بھی چار سالہ بیٹی ہے۔میری اہلیہ کی توجہ ہر وقت موبائل فون پر مرکوز رہتی ہے۔دن کا بیشتر حصہ موبائل پر سوشل میڈیا کے استعمال میں گزرتا ہے۔موبائل پر اپنی سہیلیوں سے گپ شپ کرتی رہتی ہے۔اگر بیوی کی فرمائشیں پوری کرتا رہوں اور مانتا رہوں تو معاملات ٹھیک چلتے ہیں مگر جب کبھی موبائل سے توجہ ہٹا کر گھر بار کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کروں تولڑائی جھگڑا شروع کر دیتی ہےاور سارا گھر سر پر اٹھا لیتی ہے جس کا بچی پر بہت غلط اثر پڑ رہا ہے۔اگر بیٹی کسی وجہ سے رونا شروع کر دے تو اسے چپ کروانے اور دل بہلانے کی بجائے سختی سے ڈانٹنا اور مارنا شروع کر دیتی ہے۔وہ اپنی والدہ کے عدم توجہ سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔میں نے بارہا اپنی اہلیہ کی توجہ اس طرف مبذول کروانے کی کوشش کی مگر ہر بار اس بات کا الٹا اثر ہی ہوا ہے۔اب مجھے فکر یہ لاحق ہو گئی ہے کہ جب دوسرا بچہ ہوگا تو یہ مسائل مزید بڑ ھ جائیں گے۔میں نہیں چاہتا کہ میرا گھر خراب ہو اور میری اولاد پر اس کے منفی اثرات پڑیں مگر میری بیوی ان باتوں کو سمجھنے کے لئے بالکل تیار نہیں ہے‘خدا جانے اب کیا ہوگا۔
قارئین !یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ایسے بے شمار واقعات ہیں‘کئی گھرانوں میں یہی شکایتیں بیوی کو شوہر کے ساتھ ہیں اور ہر دوسرا گھرانہ بچوںکےموبائل کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہے۔خدارا!اپنےہاتھوں سے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی خراب مت کریں۔موبائل کا استعمال صرف ضرورت کے مطابق کریں‘اگر خود عمل کریں گے تو اولاد پر بھی اس کا مثبت اثر ہو گا ورنہ نقصان اور پچھتاوے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔(ڈاکٹر خاور‘راولپنڈی)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں